بجٹ ،غریبوں کی غربت کا مذاق!

June 16, 2021

اسلام کے اس قلعے میں عوام اس قدر غیرمحفوظ و بےبس اور حکمران طبقات اس قدر محفوظ و بےپروا ہیں کہ وہ آئے روز عوام پر مہنگائی کا بوجھ ڈالتے ہیں اور احسان بھی جتاتے ہیں، احسان اس طرح کہ کہا جاتا ہے کہ اگر ہم یہ شے مہنگی نہیں کرتے تو اس طرح ملک کا نقصان ہو جاتا اور اگر اس چیز کی قیمتوں میں اضافہ نہ کرتے تو آئی ایم ایف نے ہمارا حقہ پانی بند کردینا تھا، اس لئے یہ جو مہنگائی ہم کر رہے ہیں یہ تو تمہارے ہی لئے کر رہے ہیں تاکہ تم جگ جگ جیو! اگر خلاف معمول کوئی ڈھنگ کا کام کر جاتے ہیں تو ایک جشن بپا ہوتا ہے کہ دیکھیں ہمیں عوام کا اس قدر غم تھا، پھر ان کے چیلوں کی جانب سے مبارکبادوں کا نہ ختم ہونے والے سلسلہ دراز ہو جاتا ہے۔ یہی کچھ شہری خدمات پر مامور ہر ادارے کی جانب سے بھی ہوتا رہتا ہے، ہمارے ہاں کراچی میں یہ بیانات اخبارات میں داغے جاتے ہیں کہ ہم نے اتنے برساتی نالوں کی صفائی کر لی ہے، فلاں فلاں جگہ پانی و سیوریج کا مسئلہ حل کر دیا ہے وغیرہ۔ یعنی جس کام کی عوام کے خزانے سے تنخواہ و مراعات لیتے ہیں اُس پر بھی عوام پر احسان جتاتے ہیں، پھر جب ان کی خیانت ہر بارش کے بعد ظاہر ہو جاتی ہے تو ذمہ داری ایک دوسرے پر ڈالتے ہوئے مزید فنڈز بٹورنے کیلئے نام نہاد ترقیاتی اسکیموں کا اعلان کر دیا جاتا ہے۔ پولیس کو دیکھیں کہ جس شہرِ کراچی میں ٹنوں کے حساب سے بلاخوف منشیات فروخت کی جاتی ہیں اور آئس نے نوجوان نسل کو تباہ کرکے رکھ دیا ہے، جب کسی چھوٹے ملزم سے دو چار کلو چرس وغیرہ برآمد کر لی جاتی ہے تو بڑے افسر پریس کانفرنس میں اپنی کامیابی کا اس قدر ڈھنڈورا پیٹتے ہیں گویا اُنہوں نے پورے شہر کو اس لعنت سے پاک کر لیا ہے۔ پاکستان میں بڑی بےدردی سے یہ سلسلہ جاری ہے۔ اسی طرح کا مذاق بجٹ کے نام پرحکمران طبقات عرصے سےکرتے آرہے ہیں، عوام ہی کی دولت سے اقتدار تک پہنچنے اور وزیر مشیر بننے والے بڑا دکھی سامنہ کرکے غریب غریب کی رٹ لگاتے ہوئے کہتے ہیں کہ اگر ایسا نہ کرتے تو غریبوں کا جینا دوبھر ہو جاتا۔ کیا اس ملک کی معاشی دگرگوں حالت غریبوں نے بنائی یا اُس اشرافیہ نے جو غریب غریب کرکے ان کی غربت کا مذاق اُڑا رہے ہیں۔ بجٹ سے قبل ہم نے اپنے کالم میں لکھا تھاکہ اپوزیشن مہنگائی کو اس لئے اپنا ایشو نہیں بنارہی کہ جب شوگرمافیا کی وجہ سے چینی کی قیمتیں آسمان پر پہنچ جاتی ہیں تو اسکا فائدہ صرف جہانگیر ترین کو نہیں ہوتا زرداری صاحب سےلیکر شہباز شریف تک، اس کاروبار سے وابستہ ہر سیاستدان مزید دولت مندبن جاتاہے۔ حالیہ بجٹ میں ایک بارپھر چینی کی قیمتوںمیںاضافے کے اعلان سے کیا یہ ظاہر نہیں ہو گیا کہ وزیراعظم لاکھ کہیںکہ وہ بلیک میل نہیںہونگے مگر وہ بلیک میل ہو چکے ہیں، نیز کیا اس سے اپوزیشن کے اُن لوگوں کو فائدہ نہیںہوگاجو اس کاروبار سے وابستہ ہیں۔ مشیر خزانہ شوکت ترین بجٹ پیش کرتےہوئے جب بار بار غریب غریب کہہ رہےتھے تو دل تڑپ کر رہ گیا، آخر کس نے انہیں غریب بنایا ؟دیہات ودورافتادہ علاقوں کاتو ذکر ہی کیا، کاش یہ بیوروکریٹ بین الااقوامی شہر کراچی کی مچھر کالونی، گیدڑ اور کنواری کالونی جیسی کچی آبادیوں میں ایک سال یا ایک ماہ نہیں صرف ایک گھنٹہ سکونت اختیار کرلیں تو انہیںاندازہ ہو کہ غربت کس عفریت کا نام ہے۔ جھوٹ تو ہر حکومت بولتی رہی ہے لیکن حکومت نے تو گویا دیگر تمام کام چھوڑ کراپنے وزیروں مشیروں کو جھوٹ کو سچ بنانے پر لگا رکھا ہے۔ کوئی لاکھ کہے کہ اب غریبوں کے برے دن عنقا ہوئے لیکن یہ سچ نہیں، جب شوکت ترین کہتے ہیں کہ آئی ایم ایف نے ہمیں کہا تھا کہ آپ بجٹ پیش کردیں جس کے دوران بات چیت بھی جاری رہے گی،ہم ان کے پروگرام سے باہر نہیںآسکتے، تو اس کا کیا صاف مطلب یہ نہیںہے کہ عوام کی آنکھوںمیں دھول جھونکنے کیلئے بجٹتو پیش کردیں مگر کرنا وہی ہوگا جو ہم کہیں گے، باالفاظ دیگر منی بجٹ آتے رہیں گے۔ پھر جب شوکت ترین کہتے ہیں کہ اس وقت حکومت فی لیٹر پیٹرول پر صرف 5روپے پی ڈی ایل وصول کررہی ہے، اسے 20سے 25روپے پر لے کر جانا پڑے گا،تو کیا اندازہ نہیں لگایا جا سکتا کہ مہنگائی کا کتنا بڑا طوفان آئیگا۔ 8487؍ ارب روپےکے بجٹ میں تعلیم کیلئے 92اور صحت کیلئے 28ارب روپے مختص کئے گئے ہیں، امیروں کیلئے تو بڑی بڑی درسگاہیں اور اسپتال ہیں لیکن کیا تعلیم اور صحت کیلئے اتنی معمولی رقم مختص کرنا عوام سے مذاق نہیں۔ بجٹ میں کم ازکم ماہانہ اجرت 20ہزار روپے مقرر کی گئی ہے، سوال یہ ہے کہ اس رقم میں مشیرخزانہ کیا صرف ایک دن بھی گزارہ کر سکتے ہیں؟

(کالم نگار کے نام کیساتھ ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائےدیں00923004647998)