کیا ہم انہیں بھولے جارہے ہیں

June 25, 2021

پرانے کاغذوں سے تاشقند سے آیا ہوا نہایت محترم استاد قمر رئیس کا خط برآمد ہوا، میں نے اپنا ماتھا پیٹ لیا، میں انہیں بھولا ہوا تھا۔ اور میں ہی کیا، کہیں اٹھتے بیٹھتے ہی سہی، کہیں ان کا ذکر نہ تھا۔ یہ کیسا غضب ہے کہ ہماری زبان اور ادب کے یہ محسن ذہن سے محوبھی ہوسکتے ہیں۔قمر رئیس علم کے میدان میں بڑا کام کرچکے تھے۔ ترقی پسند ادب اور تنقید میں بے مثال حصہ ڈالا تھا اور اردو کی تعلیم دینے کے لئے حکومت ہندنے انہیں ازبکستان بھیجا تھا۔ سنہ ۹۶ء میں سبک دوش ہونے کے بعد میں نے بچوں کے لئے اردو کتابیں شائع کرنے کی خاطر ایک ادارہ قائم کیا تھا۔ اُسی کی خوش خبری سنانے کے لئے میں نے قمر رئیس کو خط لکھا جس کا انہوں نے گرمجوشی سے جواب دیا مگر اس حقیقت پر ان کا دل بھی بوجھل تھا کہ اردو کی تعلیم کے لئے جو اہتمام ہونا چاہئے ، نہیں ہے۔ اس کے برعکس ہندی کی تعلیم کے سارے انتظامات باآسانی دستیاب ہیں۔قمر رئیس نے ۷۷ برس کی زندگی میں اردو کے لئے بڑا کام کیا اور خاص طور پر منشی پریم چندکی شخصیت پر ان کی تحقیق لا جواب ہے۔ اردو زبان و ادب کے لئے ان کی درد مندی ان کے ایک ایک لفظ سے جھلکتی ہے۔ان کا سنہ ۹۸ء کا خط یہاں محفوظ ہے:

انڈین کلچرل سینٹر تاشقند۔ سفارت خانہ ہندوستان ۔ ۱۷ ستمبر ۱۹۹۸ء

مکرمی عابدی صاحب تسلیم۔ آپ کا ۱۷ اگست کا نوازش نامہ ملا۔ شکر گزار ہوں کہ مجھ حقیر کو آپ نے یاد رکھا۔ آپ ہمیشہ ہی بڑے کاموں کا بیڑہ اٹھاتے ہیں۔ہم لوگ اردو کی بقا کے مسائل سے ایک حد تک واقف ہونے کے باوجود بس سوچتے ہی رہ جاتے ہیں۔ آپ کا منصوبہ آج کی اہم ضرورت ہے ۔ کوئی بھی اس سے اختلاف نہیں کرے گا۔مغربی ملکوں میں اردو بستیوں کے مسائل آپ جانیں۔ یہاں وسطی ایشیا میں صرف ازبکستان میں اردو کی تعلیم کا کچھ رواج ہے ۔ دو اسکولوں میں اور انسٹی ٹیوٹ آف ساؤتھ ایشین اسٹڈیزمیں اردو کی باقاعدہ تعلیم ہوتی ہے۔ لیکن درسی کتابیں پرانی ہیں ، ربع صدی قبل کچھ اردو کے اساتذہ نے تیار کی تھیں۔ہندی سکھانے کے آڈیو کیسٹ تو ہندوستان سے آگئے ہیں ۔خود ہمارے سنٹر میں ان سے کام لیا جاتا ہے۔لیکن اردو کے کیسٹ نہیں تیار ہو سکے ہیں۔ اس میدان میں آپ ضرور کچھ کیجئے۔ graded درسی کتابیں بھی تیار کرائیے۔ خبر نامہ بھی خواہ مختصر ہو ضرور جاری کیجئے تاکہ اردو دنیا کے مختلف مرکزوں ، اداروں اور کارکنوں سے رابطہ کی صورت پیدا ہو۔ تاشقند میں اردو کے جو اساتذ ہ اور اسکالر ہیں ان کی ایک ادھوری سی فہرست اور پتے بھیج رہا ہوں ، بعد میں بھی اس سلسلہ میں لکھوں گا۔ لندن میں ازبکستان کے جو سفیر ہیں جناب فتح تیشا بائف، اردو کے اچھے اسکالر ہیں۔مناسب سمجھیں تو ان سے رابطہ کریں۔میرا خیال ہے وہ خوش ہوں گے۔ سید عاشور کاظمی صاحب، قیصر تمکین اور دوسرے احباب سے ملاقات ہو تو سلام کہئے۔

نیاز مند قمر رئیس

تمنّا کا دوسر ا قدم ہمیں ازبکستان سے واپس ہندوستان لئے جاتا ہے جہاں علم و دانش کے جلسے آراستہ ہیں۔ یہ خط ہمارے دور کے جید عالم مولانا امتیاز علی خاں عرشی کے گھرانے سے آیا۔ اس بات کو اب ۴۵ برس ہونے کو ہیں۔میں اُن دنوں دادا پردادا کے زمانے کی اردو کتابوں پر سلسلہ وار پروگرام پیش کررہا تھا جس میں ایک قدیم کتاب جواہر منظوم کا ذکر آیا جو بچپن کے موضوع پر سرکردہ انگریز شاعروں کی لکھی ہوئی نظموں کے اردو ترجمے پر مشتمل تھی۔آثار سے پتہ چلتا تھا کہ وہ ترجمہ مرزا غالب کو دکھایا گیا تھا اور نہیں معلوم کہ اس پر انہوں نے اپنا قلم کس حد تک چلایا تھا۔ وہ ریڈیوپروگرام رام پور میں مولانا عرشی نے سنا ۔ اہل علم جب تجسس کی پیاس میں نیم جاں ہوئے جاتے ہیں تو ان کی حالت دیکھی نہیں جاتی۔ابّا نے بیٹے کو تفصیل بتائی اور دونوں ہی کتاب کو دیکھنے کے لئے مچل گئے۔یہ خط مولانا کے بیٹے اکبر علی خاں عرشی زادہ نے مئی سنہ ۷۷ میں مجھے لکھا تھا۔پڑھئے اور دیکھئے کہ علم کے متلاشی ہر نئی دریافت کے پیچھے کتنے بے چین اور مضطرب ہوتے ہیں:

ادارہء یادگارِ غالب۔پھلوار، رام پور۔ یوپی

۲ مئی سنہ ۷۷جناب مکرم آداب

اس سے قبل بھی ایک عریضہ لکھا ہے۔جواب نہیں ملا۔ظاہر ہے آپ کی مصروفیات اتنی ہیں کہ ان میں وقت نکالنااور جواب دینا مشکل ہوتا ہوگا۔ کل کے پروگرام میں آپ نے جواہر منظوم نامی کتاب میں غالب کے اُن تراجم سے متعارف کرایا جو انہوں نے انگریزی شاعروںکی نظموں کے کیے ہیں۔ افسوس ہے کہ میں وہ پروگرام خود نہ سُن سکا مگر ابّا محترم نے اس کی تفصیلات سے مطلع فرمایا۔لطف کی بات یہ ہے کہ سنہ ۱۹۶۷ء میں غالب صد کی سالہ تقریبات کے سیکرٹری کوابّا نے اپنے ایک خط کے جواب میں تحریر فرمایا تھا۔’’اس بات کا کھوج لگایا جائے کہ غالب کی فارسی اور اردو نظم و نثر پر مغربی ادب کا کچھ اثر ہے۔اس خیال کی بنیاد یہ ہے کہ ادبی ذوق رکھنے والے انگریزوں سے اُن کے گہرے تعلقات تھے۔اور یہ ناممکن ہے کہ ان حضرات نے اپنے ہا ں کے مشہور شعرا کے چیدہ چیدہ اشعارکے مطالب انہیں نہ سنائے ہوں اور اُس عہد میں نظم و نثر کا جو مغربی انداز تھا اس پر روشنی نہ ڈالی ہو۔فارسی میں غالب کی نظم ’گربہ‘اور اردو میں ’ رہیے اب ایسی جگہ چل کر جہاں کوئی نہ ہو‘ جیسے اشعار اس امر کی غمازی کرتے معلوم ہوتے ہیں‘‘۔

ابّا محترم کا یہ مکتوب نیا دور لکھنؤ کی اشاعت میں 67 میں شائع ہوچکا ہے۔ آپ کی تازہ دریافت ابّا محترم کے اس قیاس کی تائید کرتی ہے۔ اب آپ کو زحمت یہ دینا ہے کہ اس کتاب سے متعلق اپنی Talkکی نقل بعجلت مرحمت فرمائیے اور کوئی ایسا انتظام کردیجئے کہ مکمل کتاب کی مائیکروفلم بھی فوری مل جائے۔ اس پر جو خرچ آئے گا وہ آپ کو میں وہیں ادا کردوں گا اور اگر کوئی متبادل صورت آپ تجویز فرمائیں گے کہ ہندوستان میں ادائیگی ہوجائے تو بھی کوئی قباحت نہیں۔بس آپ کو اپنے مصروف وقت میں سے اتنی گنجائش نکالنا ہے کہ کتب خانے کو مائیکرو فلم کا آرڈر دے سکیں۔ خدا کرے آپ کے سلسلے’ کتب خانہ‘ کے ذریعے ایسے ہی نوادر کا سراغ لگے۔ زحمتوں کے لئے پیشگی شکریہ۔ ابّا محترم آپ کو سلام لکھواتے ہیں اور کتاب کی مائیکرو فلم کے وہ بھی مشتاق ہیں۔ والسلام نیاز منداکبر علی خاں عرشی زادہ۔

پس نوشت :میرے لائق کوئی خدمت ہو تو بے تکلف ارشاد فرمائیں۔