ہم حالِ دِل سنائیں،مگر گفتگو نہ ہو

July 04, 2021

کمال کا معرکہ تھا، قومی اسمبلی میں ایک طرف پیپلز پارٹی کے ایسے لیڈر جن کی بلاو ل بھٹو زرداری کے نام سے پہچان کروائی جاتی ہے، نوجوان ہیں، پیپلز پارٹی کے وراثتی لیڈر ہیں، ان کے ذوق و شوق کے بارے میں میڈیا زیادہ باخبر بھی نہیں ہے۔ وہ بجٹ سیشن میں خوب گرجے برسے، اُنہوں نے اپنے نشانے پر وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی کو رکھا اور قدرے کم درجے کا غصہ انہوں نے اپوزیشن کے لیڈر، سابق وزیراعلیٰ پنجاب شہباز شریف پر بھی اُتارا۔ شہباز شریف اپنے تایا زاد بھائی کی وفات کی وجہ سے اسمبلی کے اجلاس میں شرکت نہ کر سکے۔ سیاست اور جمہوریت دونوں ناقابلِ اعتبار نظریات کی حامل ہیں۔ سیاست میں جھوٹ بولنا قابلِ گرفت نہیں سمجھا جاتا اور جھوٹ بنانے میں کوئی شرم بھی نہیں محسوس کی جاتی، جمہوریت بھی کمال کا نظام ہے جو ترقی کا سب سے بڑا دشمن ہے، اب پاکستان میں جمہوریت نے ہی ترقی میں رکاوٹ ڈال رکھی ہے۔

موجودہ وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی بھی پیپلز پارٹی سے وابستہ رہے ہیں۔ اِس وقت وہ کشمیر اور افغانستان جیسے معاملات پر خاصی سفارتی سرگرمیوں میں مصروف ہیں۔ ان کا اور پاکستان کا کشمیر پر مؤقف بہت واضح ہے۔ وہ افغانستان کے معاملے پر بھی اپنے دوست ممالک سے مسلسل رابطہ رکھے ہوئے ہیں۔ افغانستان سے امریکی فوج کے انخلاکے بعد خانہ جنگی جیسے مسائل کا خدشہ ہے اور پاکستان افغانستان کے حوالہ سے دوستوں سے مکمل مشاورت کر رہا ہے۔ افغانستان کے حوالے سے ترکی اور چین کا کرداربھی بہت اہم ہے۔ روس بھی پاکستان کے کردار سے متفق ہوتا نظر آ رہا ہے اور اسی تناظر میں روس کے صدر پیوٹن کا دورۂ پاکستان بہت اہم تصور کیا جا رہا ہے۔

ایک طرف اندرونِ خانہ وزیراعظم پاکستان عمران خان کو تیسرے بجٹ سے پہلے کافی مشکلات کا سامنا تھا، بجٹ اجلاس کے ابتدائی دو تین دن بھی بڑے ہنگامہ خیز رہے۔ اسمبلی ہال میں سیاست کا دنگل بھی خوب لگا۔ بجٹ کی کتاب پڑھنے کی بجائے ایک ہتھیار کے طور پر استعمال ہوئی اور جو زبان بولی گئی، الامان الحفیظ۔ قومی اسمبلی وہ فورم ہے جو ملک میں قانون سازی کرتی ہے مگر بجٹ اجلاس کے دنوں میں جس طریقہ سے قومی اسمبلی کے ممبران نے قانون کا مذاق بنایا، اس سے اندازہ ہو سکتا ہے کہ برداشت کا فلسفہ اب قابلِ استعمال نہیں رہا۔ اسمبلی کے اجلاس کے دوران موبائل فون کا استعمال مکمل طور پر ممنوع ہے مگر بڑے لوگ بڑے دھڑلے سے موبائل فون استعمال کر رہے تھے اور اسپیکر بےبسی کی تصویر بنے رہے۔ہماری اپوزیشن جس کے رہنما بہت عرصہ سے دعوے کرتے نظر آ رہے ہیں کہ پی ٹی آئی کی سرکار کو بہت جلد رخصت کردیا جائے گا اور مسلسل منصوبہ بندی کے باوجود ان کی کامیابی مشکوک نظر آ رہی ہے۔ اپوزیشن کے لیڈران بہت گرج برس رہے ہیں مگر ان کے اندر جو کھوٹ ہے، اس نے ان کو کافی کمزور کر دیا ہے۔بلاول بھٹو زرداری کا ایک نیا روپ نظر آیا، انہوں نے ثابت کر دیا کہ وہ امریکہ کو اب بھی اپنا دوست تصور کرتے ہیں، وہ امریکہ جس کے دبائو کی وجہ سے اُن کے نانا ذوالفقار علی بھٹو کو پھانسی کی سزا دی گئی مگر ان کی مجبوری ہے، اسی امریکہ نے ان کے والد آصف علی زرداری کو پاکستان کا صدر بنوایا۔ یہ عجب سیاست کا نیا بہروپ ہے اور جو جمہوریت کے نظریہ کو مزید مشکوک کر رہا ہے۔کپتان عمران خان سرکار کا تیسرا سال بھی عوام کے لئے آرام دہ نہیں رہا، عمومی طور پر ترقی کے منصوبے بنتے اور مکمل ہوتے نظر آ رہے ہیں اور دوسری حیران کن بات یہ ہے کہ عوام کی قوتِ خرید میں اضافہ نظر آتا ہے۔ اپوزیشن کا شور ہے کہ مہنگائی بہت ہے، اس میں کوئی شک نہیں کہ مہنگائی کا جن پوری دنیا میں سرگرم عمل ہے مگر پاکستان میں مہنگائی کی وجہ سے عوام کو کیسی تنگی ہے اس کا کہیں سراغ نہیں ملتا۔ بینکوں کا منافع ناقابلِ یقین نظر آ رہا ہے، چینی اور آٹے کی قیمتیں کم زیادہ ہوتی رہتی ہیں مگر دوسری طرف چینی بنانے والی اشرافیہ مزید امیر ہوتی نظر آ رہی ہے۔ پٹرول کی قیمت عالمی منڈی کے تناظر میں مناسب جا رہی ہے۔ گاڑیوں کی خرید میں اضافہ نظر آ رہا ہے، مہنگائی فقط نعرہ ہے، اس سے غالباًسماج کا کوئی بھی طبقہ متاثر نظر نہیں آتا۔

اس وقت میڈیا جتنا آزاد نظر آ رہا ہے وہ بھی حیران کن ہے۔ سوشل میڈیا پر جو کچھ نظر آ رہا ہے اس سے اندازہ ہوتا ہے کہ عمران خان کی سرکار میڈیا کو حیثیت تو دیتی نظر آتی ہے۔ پھر ایک نیا مسئلہ یہ ہے کہ صحافی کون ہے، جو لوگ سوشل میڈیا پر نظر آتے ہیں کیا وہ صحافی ہیں؟ اسلام آباد کے ایک صاحب جو یوٹیوب پر کلپ بنا کر سیاست کرتے ہیں، انہوں نے ایک خاتون صحافی پر بدمزہ تبصرہ کیا اور خاتون صحافی نے سرکار کے ایک اہم ادارے کو شکایت کیتو وہ صاحب اسلام آباد ہائیکورٹ چلے گئے اور ان کا نوٹس روک دیا گیا مگر جب عدالت لگی تو اندازہ ہوا کہ غلط ہوا ہے۔ اب وہ ادارہ دوبارہ تفتیش کر رہا ہے۔

اس وقت عمران خان دوستوں کے حوالے سے بہت سرگرم عمل ہیں۔ انہوں نے پہلی بار امریکہ کو باور کرایا ہے کہ پاکستان اُس کا غلام نہیں،دوسری طرف امریکہ بھی خاموش ہے۔ افغانستان کی وجہ سے وہ پاکستان کی غیرمشروط مدد چاہتا ہے، امریکی فوج میں بہت تشویش ہے پھر چین کا خاموش کردار دنیا کی سیاست میں بہت اہم نظر آ رہا ہے، یورپی یونین ممالک امریکہ اور برطانیہ کی سیاست سے متفق نظر نہیں آتے۔ ایران کے نئے صدر امریکہ سے بات چیت پر تیار ہیں اور امریکہ کی پابندیوں پر بات کرنا چاہتے ہیں، امریکہ کو اندازہ ہو رہا ہے کہ ٹرمپ کی سیاست امریکہ کے لئے بہترین تھی مگر اسرائیل کی مداخلت دنیا میں امن کے ماحول کو مشکوک بنا رہی ہے۔ عمران خان نے پاکستان کے حوالے سے جو کچھ بیان کر دیا ہے وہ ہمارے اداروں کے کردار کو اہم بنا رہا ہے۔ جلد ہی کسی نئے نظام کے لئے پاکستان کی اشرافیہ راضی ہوتی نظر آ رہی ہے۔