محبت کی ’’پینگیں‘‘۔ مینگو ’’ڈپلومیسی‘‘

July 04, 2021

بابائے جمہوریت نوابزادہ نصراللہ خان ایک وضعدار اور باوقار سیاست دان تھے، ان کی سیاسی زندگی میں بڑا رکھ رکھائو تھا، سیاسی روا داری ان میں کوٹ کوٹ کر بھری ہوئی تھی، انہوں نے اپنی اراضی بیچ کر سیاست کی۔ جب ذوالفقار علی بھٹو نے ان کے اثاثوں کے بارے میں تحقیقات کروئیں تو ان کے اثاثے پہلے سے کم نکلے۔ وہ پاکستان کے ان دیانت دار سیاست دانوں میں شمار ہوتے ہیں جن کے اثاثے زیادہ ہونے کی بجائے کم ہوئے ۔وہ ہر سال مظفر گڑھ میں اپنے باغوں سے ’’سیاسی و غیرسیاسی‘‘ دوستوں کو آموں کے تحائف بھجوایا کرتے تھے۔ ان کا یہ سلسلہ بعد ازاں ان کے سیاسی جانشین قومی اسمبلی کے رکن نوابزادہ افتخار علی خان نے آگے بڑھایا ہے، وہ نوابزادہ نصر اللہ خان کے احباب کو آج بھی باقاعدگی سے آم بھجواتے ہیں۔

پچھلے دنوں پاکستان پیپلز پارٹی پارلیمنٹیرین کے سربراہ آصف علی زرداری نے ’’خود ساختہ‘‘ گوشہ نشینی ختم کر کے لاہور میں ڈیرے ڈالے توقائدِ حزب اختلاف شہباز شریف کو ایک نہیں آموں کی پوری 15پیٹیاں بھجوا دیں۔ بظاہر ایک سیاست دان کا دوسرے سیاست دان کو موسمِ گرما کی سوغات آم بھجوانا غیرمعمولی بات نہیں۔ آصف علی زرداری اور شہباز شریف کے درمیان کوئی دوستانہ تعلقات قائم نہیں تھے لیکن جب سے آصف علی زرداری اور نواز شریف کے درمیان فاصلے پیدا ہوئے ہیں، آصف علی زرداری نے شعوری طورپر شہباز شریف کے قریب ہونے کی کوششیں شروع کر دی ہیں۔پارلیمان میں تو بلاول بھٹو زرداری کو شہباز شریف کی تربیت میں دے دیا ہے یہی وجہ ہے کہ بلاول بھٹو زرداری جہاں برملا یہ بات کہہ رہے ہیں کہ پیپلز پارٹی کے تمام ارکانِ قومی اسمبلی شہباز شریف کی ڈسپوزل پر ہیں وہاں وہ ان کی بجٹ منظوری کے موقع پر غیرحاضری پر ان کو معاف کرنے کے لئے تیار نہیں، پیپلز پارٹی ایک طرف انہیں عبوری مدت یا قومی حکومت کے لئے اپنا وزیراعظم قبول کررہی ہےتو دوسری طرف ان پر تنقید کا کوئی موقع بھی ہاتھ سے جانے نہیں دیتی۔ سرِ دست آصف علی زرداری اور شہباز شریف کے درمیان کوئی باضابطہ ملاقات تو نہیں ہوئی البتہ دونوں کے درمیان بالواسطہ رابطہ ضرور قائم ہے جس کا عوامی سطح پر اظہار نہیں کیا جا رہا۔ پیپلز پارٹی کی اعلیٰ قیادت ایک طے شدہ حکمتِ عملی کے تحت پارلیمان میں شہباز شریف کی ’’چھتری‘‘ تلے اپنی جگہ بھی بنانا چاہتی ہے اور اپنے آپ کو ’’حقیقی‘‘ اپوزیشن ثابت کرنے کی کوشش بھی کر رہی ہے۔ وہ سینیٹ میں قائدِ حزب اختلاف کے منصب کے حصول کے لئے کی گئی ’’بےاصولی‘‘ پر مٹی ڈالنا چاہتی ہے، پیپلز پارٹی کی قیادت ایجی ٹیشن کے ذریعے عمران خان کی حکومت گرانا چاہتی اور نہ ہی اسمبلیوں سے استعفے دینے کے حق میں ہے۔ وہ ہر قیمت پر سندھ حکومت قائم رکھنا چاہتی ہے یہی وجہ ہے کہ وہ وفاق اور پنجاب میں عدم اعتماد کا ’’پولیٹکل ایڈونچر‘‘ کرنے پر زور دے رہی ہے۔ دوسری طرف پارلیمان میں حکومت اور اپوزیشن کے درمیان کشیدگی میں کمی آئی ہے، پارلیمانی کمیٹی کے قیام کے بعد جہاں اسپیکر اسد قیصر اور ڈپٹی اسپیکر قاسم سوری کے خلاف تحریک عدم اعتماد کا خطرہ ٹل گیا ہے وہاں اسپیکر کی کوششوں سے وزیراعظم کو نواز شریف کے خلاف تقریر نہ کرنے کی ضمانت پر پُرامن ماحول مل گیا ۔اسپیکر نے اپوزیشن لیڈر کی درخواست پرسید خورشید شاہ اور علی وزیر کے پروڈکشن آرڈر جاری کر دیے ہیں۔سید خورشید شاہ طویل عرصہ بعد پارلیمان میں رونق افروز ہوئے۔ اسپیکر کے اِس ’’جرأت مندانہ‘‘ فیصلے سے پارلیمان کا ماحول خوشگوار کرنے میں مدد ملی ہے۔ شہباز شریف جو مفاہمانہ سیاست کے چیمپئن تصور کئے جاتے ہیں، انہوں نے اپنی بجٹ تقریر میں بھی مفاہمت کی دہائی دی لیکن تاحال حکومت کی جانب سے اپوزیشن لیڈر کی تقریر کا کوئی ٹھوس جواب نہیں دیا گیا ۔اگرچہ وزیراعظم عمران خان کی ہدایت پر فواد چوہدری نے انتخابی اصلاحات پر اپوزیشن سے مذاکرات کا عندیہ دیا ہے لیکن جب تک وزیراعظم اور اپوزیشن لیڈر کے درمیان براہ راست ڈائیلاگ نہیں ہوتا انتخابی اصلاحات پر مذاکرات کی بیل منڈھے نہیں چڑھ سکتی۔ وزیراعظم نے قومی سلامتی پر اعلیٰ سطح کے اس اجلاس میں شرکت نہیں کی جس میں پوری اپوزیشن موجود تھی، حکومت اور اپوزیشن کے درمیان کشیدگی کا ماحول وزیراعظم کی اپوزیشن لیڈر کو ایک کال سے ختم ہو سکتا ہے۔ ’’مینگو ڈپلومیسی‘‘ کشیدگی ختم کرنے میں اہم کر دار ادا کر سکتی ہے۔ حکومت اپوزیشن لیڈروں سے جیلیں بھرنے کی پالیسی ترک کر دے، ایسے سیاسی ماحول مکدر رہے گا۔ حکومت اپوزیشن کو زندہ رہنے کے لئے سانس لینے کا موقع دے تو یقیناً اپوزیشن کی جانب سے مثبت جواب ملے گا۔ حکومت یکطرفہ طور پر اپنے ’’گالم گلوچ‘‘ بریگیڈ کا منہ بند کردے تو اپوزیشن کے پاس جوابی حملہ کرنے کا جواز نہیں رہے گا۔