جذبہ قربانی

July 21, 2021

مخدوم زادہ سیّد حافظ مطلوب احمد چشتی

یہ بات اظہر من الشمس ہے کہ کائنات کا انحصار محبت پرہی محیط ہے ،اگر اس میں سے محبت کا عنصر نکال دیا جائے تو یہ کائنات تاریک ہو کر رہ جائے گی۔ ﷲوحدہ لاشریک کا ارشاد ہے کہ اگر تم مجھ سے محبت کرنا چاہتے ہو تو میرے حبیب حضرت محمد ﷺ کی اتباع کرو اور ’ان سے محبت کرو۔ اﷲ کے حبیبﷺ فرماتے ہیں کہ اگر تم مجھ سے محبت کرنا چاہتے ہو تو میرے نواسوں اور اہلِ بیتؓ سے محبت کرو۔ دراصل محبت کے بغیر اتباع اور اتباع کے بغیر محبت نا ممکن ہے ۔سچ پوچھئے تو محبت ہی ایک ایسا سچا جذبہ ہے جس سے ایثا رو قربانی کا درس ملتا ہے۔

اگر ہم حضرت محمد ﷺ اور آپ کے نواسوں امام عالی مقام حضرت امام حسنؓ اور حضرت امام حسینؓ کی چاہت پر نظر ڈالیں تو ہمیں آقائے دو جہا ںحضرت محمدﷺکےان جملوں پر غور کرنا ہوگا جوکہ واقعی غور طلب ہیں۔ آپﷺ بارگاہ ایز دی میں یوں ملتجی ہوا کرتے تھے کہ یا اﷲ ، میں حسنؓ حسین ؓ کو چاہتا ہوں تو بھی ان کو چاہ اورجوان کو چاہیں، ان کو بھی چاہ۔یہ ایک مصدقہ امر ہے کہ اﷲ تعالیٰ اپنے بندوں کو ان کے ماں باپ سے سو درجے زیادہ چاہتا ہے۔

چاہت کا ایک امتحان بھی ہوا کرتا ہے ،جس کا ذکر قرآن پاک کی سورۃ البقرہ میں بڑی وضاحت سے کیا گیا ہے۔ (ترجمہ) ہم تمہیں مال و دولت ثمرات باغات اور اولاد دیکر آزمائیں گے کہ تم کس حد تک شکر کرتے ہو اور کس حد تک مصیبت کے وقت صبر کرتے ہو‘‘۔ یہاں یہ امر قابلِ ذکر ہے کہ جس طرح سے پیغمبروں اور نبیوں کو وقت کے لحاظ سے معجزات عطاکئے جاتے رہے ،اسی طرح ان کو امتحانات اور آزمائشوں میں بھی مبتلا کیا جاتا رہا ہے۔

حضرت ابراہیم علیہ السلام کے امتحان اور آزمائش کے حوالے سے بارگا الٰہی سے یہ حکم دیا گیا کہ ابراہیم، تم اپنی سب سے عزیز ترین شے اﷲ کی راہ میں قربان کر دو۔ آپ نے اپنے محبوب صاحب زادے حضرت اسماعیل علیہ السلام کو پروردگار ِعالم کا یہ حکم سنایا، آپ نے اپنے والد حضرت ابراہیم علیہ السلام سے عرض کیا کہ بابا جان میرا سر تسلیم خم ہے اور یہ بھی عرض کیا کہ جب آپ مجھے اﷲتعالیٰ کی راہ میں قربان کریں، تو اپنی آنکھوں پرکپڑا باندھ لیجئے ، تاکہ پدری محبت کا سامنا نہ ہو ،یہ تابعداری کی ایک ایسی مثال ہے، جس کا ملنا اس دنیا میں محال ہے۔

حضرت ابراہیم علیہ السلام کے جذبہ قربانی سے اللہ تعالیٰ ایسا راضی اور خوش ہوا کہ آپ کے اس عمل کو ہمیشہ ہمیشہ کے لئے آپ کی سنت قرار دے دیا، جب تک دنیا قائم ہے۔ 10 ذی الحجہ سے12 ذی الحجہ تک حضرت ابراہیم علیہ السلام کی اس سنت پر عمل کیا جاتا رہے گا۔ حضرت ابراہیم علیہ السلام کے مذکورہ عمل نے یہ ثابت کر دیا ، واقعی محبت کے بغیر اتباع اور اتباع کے بغیر محبت ناممکن ہے۔

اسلام میں قربانی، قرب الٰہی، اعترافِ بندگی، اطاعت شعاری اور تسلیم و رضا کی شان دار علامت ہے۔ تاریخ اسلام میں عیدالاضحیٰ اور جذبہ قربانی کو حضرت ابراہیم اور حضرت اسماعیل کی دینی استقامت اور جذبہ جاںنثاری کے تناظر میں اعلیٰ وارفع مقام دیا گیا ہے۔ عیدالاضحیٰ شعائر اسلامی میں شامل واجبات میں سے ہے چناںچہ پوری دنیا میں موجود مسلمان اس سنت ابراہیمی کو عید قربان کے طور پر پورے ذوق و ایثار اور جوش وجذبے سے مناتے ہیں۔