امریکہ۔ طالبان معاہدہ ٹوٹ گیا اور عارف نظامی

July 24, 2021

گزشتہ شب افغانستان میں طالبان کے مختلف ٹھکانوں پر امریکہ نے فضائی حملے کئے ہیں جس میں بڑی تعداد میں طالبان اور بے گناہ شہری جاں بحق ہو گئے۔ امریکی خبر رساں اداروں، مین اسٹریم میڈیا اور حالات حاضرہ پر سوشل میڈیا کے کچھ بااعتبار پاکستانی یوٹیوب چینلز کے مطابق حملے امریکی فضائیہ نے ہی کئے ہیں۔ پینٹا گان کے ترجمان، پریس سیکرٹری جون کربی نے بھی ان خبروں کی تصدیق کر دی ہے۔ تاہم ترجمان نے حملوں کی تفصیلات بتانے سے گریز کیا ہے لیکن سوشل میڈیا کے مطابق ان فضائی حملوں میں طالبان کا بھاری جانی و مالی نقصان ہوا ہے۔ یہ امریکی فضائی حملے اس خبری پس منظر میں ہوئے ہیں کہ طالبان نے شمال اور شمالی مشرقی افغانستان کی تاجک اور ازبک سرحدوں کے ساتھ ساتھ کنٹرول حاصل کرلیا ہے ، قندھار پر بھی ان کا مکمل قبضہ ہو چکا ہے اوروہ ملک بھر میں اس حد تک مختلف علاقے اپنی انتظامی تحویل میں لے چکے ہیں کہ یہاں سےانہوں نے رائج الوقت ٹیکسوں کی وصولی تک شروع کر دی ہے۔ کابل کی طرف ان کی پیش قدمی اور دارالحکومت پر طالبان کے حملوں کا خطرہ بڑھتا جا رہا ہے۔ ابھی تک اس حوالےسے میڈیا پرطالبان کےترجمان کی طرف سے کوئی ردعمل نہیں آیا۔لیکن جو مختصر مصدقہ خبریں آئی ہیںوہ تشویش سے پُر ہیں۔ امریکی میڈیا کی اپنی خبروں اور اس سے بھی بڑھ کر پینٹاگون کے ترجمان کی تصدیق نے یہ بڑا سوال پیدا کردیا ہے کہ کیا امریکہ نے طالبان سے امن معاہدہ توڑ دیا؟کیونکہ اب تک طالبان کے قبضہ کرنے کی خبریں تو مسلسل آ رہی ہیں، لیکن امریکہ، طالبان معاہدے کی خلاف ورزی کرتے طالبان کی طرف سے امریکی یا نیٹو افواج پر حملے کی کوئی خبر کسی بھی ذریعے سے نہیں آئی، نہ ہی پینٹاگون کے ترجما ن نے بریفنگ میں اچانک امریکی فضائیہ کے حملوں کی تصدیق کرتے اس کی کوئی وجہ بتائی۔

تشویشناک بات یہ بھی ہے کہ اسی خبر کے پس منظر میں ، امریکی انخلا مکمل ہونے پر افغانستان میں بھارتی فوج کی تعیناتی کا بڑا امکان ہے، جسے 27 جولائی کو نئی دہلی میں امریکہ، بھارت اور افغان وزرائے خارجہ کی ملاقات کی خبر کے ساتھ جوڑکر اس کا جائزہ لیا جا رہا ہے۔ امریکی اعتراف کے بعد کہ فضائی حملے اسی نے کئے ہیں، دوسرا بڑا سوال یہ پیدا ہوگیا ہے کہ یہ ایئر سٹرائیک افغانستان کے ہی کسی ایئربیس سے کئے گئے ؟ یا افغان حدوں سے باہر کسی اور سرزمین سے؟ کیونکہ حال ہی میں ملک کی نشاندہی کے بغیر یہ خبریں آئی ہیں کہ مشرق وسطیٰ میں امریکہ کو ایئر بیس کی سہولت میسر آگئی ہے ۔ بڑھتی تشویش پر مبنی یہ خبر اس لحاظ سے اہم ہے کہ طالبان کی طرف سے معمولی ردعمل بھی، امن معاہدے کو یکسرختم کردے گا، جبکہ اگر افغانستان میں بدستور ’’امریکی مفادات‘‘ موجود ہیں تو چین اور روس افغانستان میں اپنے علانیہ لیکن واضح پرامن اور باہمی مفادات کے حامل مفادات کے حوالے سے کہاں تک جائیں گے؟ پاکستان کے لئے تو امریکی انخلا کے بعد صورتحال بھی چیلنجنگ ہے،لیکن اگر امن معاہدہ مکمل ختم ہوگیا تو کیا افغانستان اب تین بڑی طاقتوں کا میدان کار زار بننے جا رہا ہے؟ اور اگر ایسا ہواتو کیا یہ جنگ و جدل یا ٹکرائو جس شکل میںبھی ہوا، یہ فقط افغان حدود میں ہی ہوگا؟ کہاں ہیں عالمی امن کے تحفظ کے ذمہ دار ادارے، ان کا کردار تو صفر نہیں ہوگیا؟ ﷲ خیر، انسان خسارے ہی خسارے میں دھنستا جا رہاہے۔

پاکستانی قومی صحافت کے منجھے، خالصتاً پروفیشنل سوچ و اپروچ کے حامل، آزاد اور متوازن مزاج ممتاز صحافی جناب عارف نظامی عین عید قرباں کے روز ﷲ کو پیارے ہوگئے۔ انا للہ وانا الیہ راجعون۔ عارف صاحب نے نصف صدی پر محیط اپنی بھرپور صحافتی زندگی میں عملی صحافت کا ہر رنگ دیکھا ہی نہیں عملاً اس کا حصہ رہے۔ وہ ایک ذمہ دار، پیشہ ور اور مکمل جمہوری مزاج کے حامل سرگرم صحافی تھے۔ جن کا اثر ہر سیاسی جماعت، سیاسی نظریے کے قائدین اور زعما پر تھا۔ انہوں نے 1971 میں پنجاب یونیورسٹی سے ایم اے صحافت کیا، اقوام متحدہ کے ایک پروگرام کے تحت نیویارک سےڈپلومہ لیا اورکچھ سال تک پنجاب یونیورسٹی کےشعبہ صحافت میں بطور وزٹینگ ٹیچر درس و تدریس سے وابستہ رہے۔ وہ برسوں اپنے والد کے اخبار میں ایڈیٹر رپورٹنگ کی اضافی ذمے داریاں بھی کامیابی سے نبھاتے رہے۔ اس حیثیت میںمیرا ان کےساتھ 6برس تک بہت قریبی یومیہ پیشہ ورانہ تعلق قائم رہا۔ ان سے بہت کچھ سیکھا۔ عارف نظامی ایک اعلیٰ پائے کے خبر ساز تھے۔ ایک سے بڑھ کر ایک امتیازی خبر نکالنے میں یکتا۔ نیوز رپورٹنگ کے ہر پہلو پر ان کی مکمل دسترس تھی اور وہ حالات حاضرہ کی خبروں کے فالو اپ پر ہمیشہ چوکس رہتے۔ ان کی خبر سازی اور اس کی فہم کا دائرہ بہت وسیع اور انداز اختراعی تھا۔

عارف صاحب کا شمار پاکستان کے ٹاپ کے انفارمیشن رچ صحافیوںمیں ہوتاتھا۔ اپنی اس پہچان کو عارف صاحب بہت باوقار طریقے سے فقط اپنے پیشہ ورانہ تقاضے نبھانے میں استعمال کرتے۔ ان وسیع رابطوں اور تعلقات کو انہوں نے کبھی ذاتی فائدوں کے لئے استعمال نہ کیا۔ عارف نظامی صاحب اپنی رائے سازی میں مکمل آزاد اور متوازن انداز اختیار کرتے۔ ان کا یہ انداز الیکٹرانک میڈیا پر حالات حاضرہ پر ان کےٹاک شوز میں سوالات کے جوابوں اور تجزیوں سے مکمل واضح ہوتا رہا۔ جمہوری اقدار کے فروغ خصوصاً آزادی صحافت کے تحفظ کے لئے عارف صاحب کی صحافتی خدمات گراں قدر ہیں۔ وہ کئی مرتبہ کونسل آف پاکستان نیوز پیپرایڈیٹرز (سی پی این ای) اور آل پاکستان نیوز پیپرز سوسائٹی (اے پی این ایس) کے عہدیدار منتخب ہوئے۔ اس حیثیت میں انہوں نے آزادی صحافت اور اخباری صنعت کے مسائل و معاملات حصول اہداف کے مطابق نپٹانے میں اہم خدمات انجام دیں۔ ﷲ سبحان تعالیٰ مرحوم کو اپنی جوار رحمت میں جگہ دے۔ بیگم صاحبہ، صاحبزادگان اور لواحقین کو ان کی جدائی کا صدمہ برداشت کرنے کے لئے صبر جمیل سے نوازے۔ آمین۔