ہائے رے مہنگائی، قربانی کا فریضہ بھی عام آدمی سے دور ہوگیا

July 27, 2021

ملک میں مہنگائی کا طوفان برپاہے جس کا اثر کھانے پینے ،رہا ئش،گاڑیوں اور دیگر اشیاٗ پر تو پڑا ہی ہے لیکن بکر عید پر اس کے اثرات کچھ زیادہ ہی دکھائی دئیے اس بار مہنگائی کا اثر سب سے زیادہ بکروں اور گائے پر دکھائی دیا۔ گزشتہ سال کی نسبت اس سال قربانی کے جانوروں کی قیمت 30 فی صد تک زائد رہی جس سے عام آدمی جس کی آمدنچالیس،پچاس ہزارروپےبھی ہے اس کے لئے بکرا لینا ناممکن ہو گیا ۔

ہم نے لاہور کی اکثر منڈیوں کا سروے کیا تو عام بکرے کی قیمت 60 سے 70 ہزارو رپے تھی چھترے کی قیمت بھی 60 ہزار سے اوپر تھی اس طرح اچھا خوبصورت برائون اور سفید بکرے جو جنوبی پنجاب سے لائے جاتے ہیں ان کی قیمتیں فی بکرا سو الاکھ روپے مانگتے تھے اور 90 ہزار روپے کے قریب بکتے رہے ،یہ ایسی قیمتیں ہیںجو عام آدمی کی پہنچ سے یقیناً دور ہیں۔ اسی طرح گائے ویہڑے کا پوچھا گیا تو ڈیڑھ لاکھ روپے سے لیکر 6 لاکھ روپے تک قیمتیں تھیں تاہم دو سے ڈھائی لاکھ روپے کم میں بیل گائے جو ا چھا دکھائی دےملنا دشوار ہی رہا ،اس سال بیوپاریوں نے زرا تاخیر سے منڈی لگائی کیونکہ گرم موسم تھا اور لوگوں کی کوشش تھی کم سے کم گھر پر رکھنا پڑے کیونکہ جانور کو سنبھلانا بھی ایک مشکل ترین کام ہوتا جارہا ہے۔

سردار حسنین بہادر دریشک

گھروں میں اتنی جگہ نہیں ہوتی اور پھر چارہ لانا ایک مشکل ترین کام ہوتا ہے ،یہی وجہ ہے کہ ہر نئے سال میں عید قربانی ایک مشکل فرض ہوتا جارہا ہے ہونا تو یہ چاہئے کہ اسلامی فرض ہونے کی وجہ سے ہم کو چاہیئے تھا کہ کئی سال پہلے ایسا میکنزم دیتے کہ کوئی عام آدمی جب منڈی جائے تو اسے ایک عام بکرا چھتراتول کر 700 روپے فی کلو مل جاتا تو سب کے لئے آسانی ہو تی لیکن اب دیکھئے گا آنے والے سالوں میں یہ قیمتیں مزید بلند ہوتی جا ئیں گی اور عوام جن کا پہلے ہی کوئی پرسان حال نہیں مزید مہنگے جانور خریدنے پر مجبور ہوں گے۔

ہم نے جب منڈی میں بیوپاریوں سے بات چیت کی تو سب کا مشترکہ ایکا کیا ہوا جملہ ملا کسی ایک بیو پاری کی طرف سے شکر سامنے نہ آیا وہ جن کے جانور بک بھی رہے تھے وہ بھی ناشکرے تھے کہ بڑی مشکل سے ہمارا خرچہ پورا ہو پایا ہے اس میں کچھ بچت نہیںہو رہی یہ عجیب سا فلسفہ ہے کہ جو بیچنے والا ہے وہ بھی پریشان ہے اورمہنگائی کا رونا رو رہا ہےاور جو خریدنے والا ہے اس کا تو رونا دیکھا نہیں جاتا اس سال ایک طرف جانوروں کی قیمتیں آسمان سے باتیں کر رہی تھیں تو دوسری طرف قربانی کرنے والے قصائی کے نخرے بھی کم نہیں تھے عام بکرے چھترے کی قربانی کا ریٹ 4 ہزار سے 5 ہزار روپے تھا جبکہ گائے کے نرخ 17 ہزار روپے سے 20 ہزار روپے کی درمیان تھے دوسرے روز یہ ریٹ 30 چالیس فی صد کم تھے اس طرح قربانی والے کو دونوں ہاتھوں سے مہنگائی نے لوٹا ، اس سال ریٹ فی کھال گائے ایک ہزار سے بارہ سو تک، بکرا ایک سو پچاس سے ایک سو اسی روپے بھیڑ:ایک سو سے ایک سو دس روپے تک ، اونٹ:پانچ سو سے ساڑھے پانچ سو روپے تک (اندیشہ تخمینہ) 1.5 تا 2 ار ب روپے کی کھالیں ضائع ہو گئیں۔

لاہور میں چمڑہ منڈی سے حاصل ہونے والے اعدادوشمار کے مطابق قربانی 20 تا 30 فیصد کم ہوئی ہے۔ گذشتہ سال کی تعداد 13 تا 14 لاکھ کھالیں اس سال کم ہو کر صرف 10 لاکھ کھالیں جمع ہوسکیں۔پاکستان ٹینیریز ایسوسی ایشن کے اعداد وشمار کے مطابق لاہور میں ساڑھے چار لاکھ گائے قربان کی گئی۔ ساڑھے پانچ سے چھ لاکھ بھیڑ، اور بکرے ذبح کئے گئے ملک بھر میں 20 سے 22 لاکھ گائے کی قربانی کی گئی 55 سے 60 لاکھ بکرے اور بھیڑ ذبح کی گئی1 لاکھ اونٹ اللہ کی راہ میں قربان کئے گئے۔

اس حوالے سے ہم نے ایکسپورٹ کرنے والے ایکسپورٹر آصف غیاث سے بات چیت کیا وجہ ہے کہ کیوں اسلامی فریضہ مہنگا ہوا جارہا ہے۔

آصف غیاث

آصف غیاث کا کہنا تھا کہ ہمارے ہاں جانوروں کی قلت ہے اسی لئے جانور مہنگا ہو رہا ہےانھوں نے اعداد وشمار دیتے ہوئے کہا کہ 49.6 ملین مویشی بکرا۔ 78 ملین بھیڑ32 ملین، گائےبھینس 41.2ملین لائیوسٹاک انڈسٹری مجموعی زراعت میں 60.6 فیصد اور جی ڈی پی میں 11.7 فیصد کا حصہ ڈال رہی ہے۔ پاکستان اور بہت سے کسانوں کے لئے معاش کا ایک بہت بڑا ذریعہ ہے۔ ایک اندازے کے مطابق پاکستان کی موجودہ مزدور قوت میں 30 سے 35 ملین افراد موجود ہیں جو لائیو اسٹاک میں مصروف ہیں۔

پنجاب میں 1000سے زائد فارم مویشیوں کی کاشتکاری کرتے ہیں ۔

آصف غیاث کا کہنا تھا کہ یہ تعداد ابھی تقریباً پانچ سال میں بڑھی ہے یہ بھی بہت کم ہے ہمارے ہاں جب تک 5 سے 10 ہزار بکروں کے فارم ہائوسز نہیں ہوں گے بکروں کی نہ قلت پوری ہو گی اور نہ ہی قیمتیں کم ہوں گی حکومت کو چاہئے کہ اس سیکٹر کو سہولتیں مہیا کرے۔ اس میں مشکلات ہیں انھیں کم کیا جائے اگر ایسا نہیں ہو گا تو ہر آنے والی عید پر مہنگا ئی کا طوفان اسی طرح اٹھے گا انھوں نے کہا کہ کمرشل فارمز کا تو خاتمہ ہو چکا ہےاس میں اتنا نقصان ہوا کہ اب کو ئی کمرشل فارمنگ کے لئے تیار نظر نہیں۔ انھوں نے کہا کہ مہنگائی نے ویسے ہی ہر شعبے کو متاثر کیا ہے اسی لئے یہ شعبہ بھی اب مہنگا ہو گیا ہے تاہم کوشش کر رہے ہیں کہ قلت پر قابوپایا جائے اور عوام کو سستا جانور مہیا کیا جائے اس میں ہم سمیت جو بھی لوگ ہیں وہ اپنی بھر پور کوشش کر رہے ہیں ۔

اس حوالے سے کسانوں کا کہنا تھا کہ جانوروں کے لئے بنیادی ضرورت چارے کی ہے بنولہ سمیت ہر چیز کئی گنا مہنگی ہو چکی ہے جانور پالنا اب کسی بھی پر فائدے کا سودا نہیں رہا اس میں حکومت کا تعاون بھی نہ ہونے کے برابر ہے کسان بڑی مشکل سے اپنی فصلات کو اگاتا ہے وہ جانوروں کا خیال کیسے رکھے گا آئے روز ہمارے ہاںوائرس اور بیماریاں پھیل جاتی ہیں جس سے جانوروں کی ہلاکتیں ہوتی ہیں اور کوئی ان کا پرسان حال نہیں ہوتا ایسے میں کون اس شعبے میں کروڑوں روپے کی سرمایہ کاری کرے گا ۔

احسان الحق کا کہنا تھا کہ کبھی ہمارے ہاں ڈی جی خان کے بکرے چھترے بڑے مشہور تھے ان کی نسل کو عوام پسند کرتے دنیا بھر میں انکی ایکسپورٹ بھی ہوتی تھی لیکن بیماریوں نے یہاں انکی پیداوار کم کر دی ہے چولستان بھی کبھی بکروں کا حب تھا رحیم یار خان ،بہاولپور ،بہاولنگر میں کی نسل بھی مشہور تھی لیکن کتنے افسوس کی بات ہے کہ ان علاقوں میں اول تو سرکاری ویٹرنری ہسپتال کم ہیں اور اگر ہیں بھی تو وہاں نہ عملہ موجود ہوتا ہے نہ ڈاکٹر اور نہ دوائی ملتی ہے سرکاری ہسپتال مکمل طور پر غیر فعال ہیں ،جو فارم بناتے ہیں وہ پرائیوٹ طور پر ڈاکٹر اور دوائی رکھتے ہیں پھر ان کا کام چلتا ہے اس لئے مہنگائی کا عنصر بڑھ گیا ہے جب فارم کم ہوں گے پیداوار کم ہو گی تو جو پالے گا وہ اپنی منہ مانگی قیمت وصول کرے گا۔

انھوں نے کہا کہ گائے کی پیداوار اگرچہ زیادہ ہے اور اس میں مہنگائی نے ابھی اس شدت سے حملہ نہیں کیا گائے بیل ابھی بھی کم قیمت پر دستیاب ہے ،انھوں نے کہا کہ حکومت نے کبھی اس شعبے کو توجہ نہیں دی۔ ہمارے لائیو سٹاک محکمہ میں بس افسر شاہی ہے ۔ یہ وجہ ہے کسان بھی رل رہا ہے فارمر بھی رل رہا ہے انھوں نے کہا اب بھی وقت ہے کہ ہم مشاورت سے فیصلہ سازی کریں اور جا نوروں کی پیداوار بڑھانے کے لئے میکنزم تشکیل دیں ۔فارم سازی کو توجہ دی جائے پنجاب میں زرعی زمین وافر ہے لیکن پلاننگ نہیں ہے ادویات کی فراہمی کا تو کبھی سوچا نہیں گیا ۔لائیو سٹاک اور محکمہ زراعت والے اربوں روپے کے فنڈزکھا جاتے ہیں ان کے افسروں کے ذاتی فارم ہا ئوس ہیں۔