الزام تراشی اور قومی نفسیات

May 09, 2016

چیف جسٹس جناب انور ظہیر جمالی نے قانون کی تعلیم کے موضوع پر ہفتے کو کراچی میں ایک سیمینار سے خطاب کرتے ہوئے ہمارے بنیادی قومی امراض کی نہایت درستگی کے ساتھ نشان دہی کی ہے۔ اپنے خطاب میں انہوں نے اس حقیقت کو اجاگر کیا کہ اپنی ذمہ داریوں سے پہلو تہی کرتے ہوئے صرف اپنے حقوق کا مطالبہ اور دوسروں پر الزام تراشی کا کلچر ہمارے معاشرے میں پروان چڑھ رہا ہے۔انکا کہنا تھا کہ بنیادی اور اہم معاملات پر متفقہ لائحہ عمل تیار نہ ہونا ملک کا سب سے بڑا المیہ ہے۔چیف جسٹس نے اس امر کی وضاحت کی کہ مثبت ذہن کیساتھ سوچ بچار سے مثبت نتائج برآمد ہوتے ہیںجبکہ ہم نے بحیثیت قوم منفی سوچ کی روش اپنا رکھی ہے جس کی بناء پر بنیادی معاملات پر متفقہ فیصلے نہیں ہوپاتے۔آج ملک میں ایک دوسرے پر الزام لگانے کا چلن عام ہے۔ہر شخص حقوق کی بات کرتا ہے لیکن اپنی ذمہ داریاں اور فرائض نبھانے کو تیار نہیں۔انکا کہنا تھا کہ قانون کی عملداری کا نفاذ صرف عدلیہ کی نہیں پورے معاشرے کی ذمہ داری ہے۔ انہوں نے اس امر پر افسوس کا اظہار کیا کہ قیام پاکستان کو سات دہائیاں ہونے کو آئیں مگر اب تک قومی زبان سرکاری زبان اور ذریعہ تعلیم کے طور پر نافذ نہیں ہوسکی۔ ان کا کہنا تھا کہ ہمیں اپنے عدالتی نظام کو بھی جلد از جلدقومی زبان اردو میں منتقل کرنا اور پوری دنیا کی طرح پاکستان میں بھی قانون کی تعلیم قومی زبان میں دیئے جانے کا اہتمام کرنا ہوگا۔انہوں نے قانون کی بہتر تعلیم کو عدلیہ کی بہتری کیلئے ضروری قرار دیا اور کہا کہ اسکے نتیجے میں عدالتوں کو آئین کے مطابق فیصلے کرنے میں مدد ملے گی۔ تعلیمی معیار کی ابتری کا ذکر کرتے ہوئے چیف جسٹس نے کہا کہ ملک میں خواندگی کی شرح 58فیصد ہے مگر اکثر گریجویٹ تک نہ انگریزی میں اپنا مدعا درست طور پر بیان کرسکتے ہیں نہ اردو میں۔چیف جسٹس نے بجاطور پر ترقی کیلئے انسانی وسائل کے معیار کو بہتر بنانے پر زور دیا جو قدرت نے ہمیں انیس کروڑ سے متجاوز آبادی کی شکل میں فراہم کیے ہیں۔ تعلیم و تربیت کے نظام کو اپنی اقدار اور ضروریات کے مطابق ڈھال کر اور معیار کو بلند کرکے بلاشبہ ہم بھی ترقی یافتہ قوموں کی صف میں ممتاز مقام حاصل کرسکتے ہیں۔چیف جسٹس کا یہ اظہار خیال برسرزمین حقائق سے پوری طرح ہم آہنگ ہے۔ بے بنیاد اور بے ثبوت الزام تراشی ، ایک دوسرے پر ہر معاملے میں شکوک و شبہات آج ہمارے قومی کلچر کا جزوِ اعظم ہے۔ اپنی ذمہ داریوں کی ادائیگی سے انحراف ، دوسروں پر الزامات اور اپنی حق تلفی کا شکوہ معاشرے کے تمام طبقات میں عام ہے۔افراد ہی نہیں ریاستی ادارے بھی اسی مرض کا شکار نظر آتے ہیں۔سیاستدان ایک دوسرے سے بھی ان ہی حوالوں سے نبردآزما ہیں اور ریاست کے دوسرے اداروں سے بھی۔ سیاسی حلقے حالات کی خرابی کا ذمہ دار اسٹیبلشمنٹ اور سول و ملٹری بیورو کریسی کو قرار دیتے ہیں جبکہ بیورو کریسی اور فوج سیاستدانوں کو ذمہ دار گردانتی ہے۔ اس کے نتیجے میں معاشرے میں بے اعتمادی اور مایوسی بڑھ رہی ہے جو ترقی کے سفر کیلئے زہر قاتل ہے۔ معاشرے الزام تراشی اور شکوک و شبہات کی فضا میں نہیں باہمی اعتماد و تعاون کے ماحول میں ترقی کرتے ہیں۔الزام تراشی اور شکوک و شبہات کا کلچر معاشروں کو تقسیم کرکے رکھ دیتا ہے۔الزام تراشی ، اپنے فرائض سے روگردانی اور صرف اپنے حقوق کی بات کرنے کے نتیجے میں معاشرے میں منفی جذبات پروان چڑھتے ہیں ، قومی نفسیات میں ناامیدی کا زہر گھل جاتا ہے اور ترقی کے بجائے زوال وا نحطاط ایسے معاشروں کا مقدر بن جاتا ہے۔ لہٰذا دنیا میں ترقی کرنے کیلئے پاکستانی معاشرے کے تمام اجزاء کو ایک دوسرے سے مربوط ہوکر آگے بڑھنا ہوگا ، دوسروں سے شکوے سے پہلے اپنے فرائض کی ادائیگی کا اہتما م کرنا ہوگا۔ انسانی وسائل کو بہتر تعلیم و تربیت کے ذریعے زیادہ سے زیادہ کارآمد بنانا ہوگا ، اس مقصد کیلئے معیار تعلیم کو بلند کرنا اور تعلیم کو عام کرنے کیلئے قومی زبان کے مکمل نفاذکو یقینی بنانے جیسے تمام بنیادی فیصلے جلد از جلد کرنے ہونگے کیونکہ ان میں پہلے ہی بہت تاخیر ہوچکی ہے۔