نامیاتی عشق اور کشمیر!

August 01, 2021

کہتے ہیں کشمیر سے بھٹو کو نامیاتی عشق تھا، بہرحال عشق تو عشق ہوتا ہے نامیاتی ہو یا غیرنامیاتی۔ مطلب عشق کے آرگینک یا اِن آرگینک ہونے سے اس لئے کوئی فرق نہیں پڑتا کہ بھلا چاہنا ہر قسم کے عشق کا حَاصل ہے۔ یہ حقیقتاً عالمِ ذات میں درویش بنا دیتا ہے۔ عشق انساں کو پاگل نہیں ہونے دیتا۔ ذکر بعد از انتخابات ہو یا لائن کے دونوں جانب بسنے والے شکستہ حالوں کا یا پھر معاملہ کشمیریت بہرصورت ذہن و قلب ایک وِرد بولتا ہے کہ:

قربتیں ہوتے ہوئے بھی فاصلوں میں قید ہیں

کتنی آزادی سے ہم اپنی حدوں میں قید ہیں

نظریں اس پر مرکوز ہیں کہ آزاد جموں و کشمیر کا وزیراعظم اور صدر کون بنتا ہے مگر کچھ دل جلوں کو یہ تجسس ہے کہ کوئی کشمیریت کا علم بھلا تھامتا ہے؟ کوئی اسے تعصب کی عینک لگا کر دیکھے یا غیرجانبدار فراست سے، محسوس یہ ہوتا ہے کہ ذوالفقار علی بھٹو کا کشمیر سے عشق آرگینک تھا۔ وہ ایوب خان سے الگ اس تناظر میں بھی ہوئے۔ انہوں نے کئی برسوں سے بند کشمیر کا باب کھولا، یہاں تک کہا کہ ”کشمیر پاکستان میں ہے جو برلن کے مغرب میں ہے“۔ بھٹو نے دنیا کو باور کرایا کہ مسئلہ کشمیر ساری دنیا کے امن سے جڑا ہے، جواباً نہرو نے ’’نو وار معاہدہ ‘‘کی پیشکش کی تاہم بھٹو نے مسترد کردیا۔ بین الاقوامی سطح پر بھٹو کی یہ بازگشت بھی سنی گئی کہ ’’ہم کشمیر کے دفاع میں ہزار سال کی جنگ لڑیں گے“۔ بھٹو کا 5 فروری 1976مظفر آباد میں کہنا ’’میں بھی انسان ہوں غلطی کر سکتا ہوں لیکن کشمیر کے معاملے میں نیند میں بھی غلطی نہیں کرسکتا ‘‘۔ اپنی جگہ قائدین کیلئے ایک فارمولہ سیٹ کرتا ہے کہ کشمیریت و حریت اور حق خود ارادیت جسم کے اعضا کا نام ہے۔پھر بینظیر بھٹو نے بھی، اسلامی کانفرنس تنظیم میں کشمیریوں کو نمائندگی دی، بےنظیر حکومت میں پہلی بار حریت کانفرنس وفد نے اسلامی کانفرنس تنظیم کے اجلاس میں جگہ پائی۔ بی بی ہی نے بطور وزیراعظم 1990میں 5فروری کو سرکاری طور سے یوم اظہارِ یک جہتی قرار دیا۔ اس زمانے میں ممتاز کشمیری رہنما سید علی گیلانی نے بی بی کی کاوشوں کو کسی بھی لیڈر سے زیادہ کوشش کرنے والی قیادت قرار دیا۔

آزاد کشمیر 25جولائی 2021کی انتخابی مہم اور نتائج نے کئی اہم سوالات چھوڑے اور بہت سے سوالوں کے جواب بھی ملے۔ اندرون آزاد کشمیر میں پیپلز پارٹی کی حالیہ کامیابی نے اپنی جگہ ایک تاریخ رقم کی، ہارنے والی سیٹوں پر مقابلہ بھی خوب رہا تاہم نون لیگ اس تناظر میں ناکام دکھائی دی، یہ درست ہے کہ آزاد کشمیر الیکشن کی تاریخ ہی یہ رہی ہے کہ جو اسلام آباد میں عنانِ اقتدار رکھتا ہے وہ آزاد کشمیر پر بر سراقتدار ہوتاہے، بےشک اس کے لئے پاپڑ ہی کیوں نہ بیلنے پڑیں یا جس کی لاٹھی اس کی بھینس کے فلسفہ ہی کو عملی جامہ کیوں نہ پہنانا پڑے۔ کئی عرب ممالک کی ’’انتخابی جمہوریت‘‘ کا سا نقشہ سامنے آجاتا ہے۔ ممکن ہے یہ کالم سامنے آنے تک وزیر اعظم بننے کا حتمی فیصلہ ہوچکا ہو اور آزاد جموں و کشمیر کیلئے صدر کا نام بھیسامنے آچکا ہو۔ یہ تو نام سامنے آنےکے بعد ہی معلوم ہوگا کہ نئے صاحب کتنے نظریاتی اور کتنے حادثاتی ہیں؟ ایک رائے یہ بھی ہے کوئی نظریاتی ہو یا حادثاتی اس سے عہد حاضر میں کوئی زیادہ فرق نہیں پڑنے والا۔ کشمیر کے بین الاقوامی و مقامی ووٹرز سے قائدین تک اب اتنا گہرا نہیں سوچتے، یقیناً وہ نسلیں پریشاں ہیں جن کے اس پار دل دھڑکتے ہیں ، نوجوان نسل شاید گلوبل ولیج، ڈیجیٹل لائف، نوکری، لاہور و اسلام آباد وغیرہ کے گن گاتے ہیں، مظفرآباد کا طرزِ عمل کچھ اور وادئ نیلم کے باسیوں کی سوچ اور ہو سکتی ہے، غریب کشمیری اور امیر کشمیری کا بھی اپنا اپنا اندازِ فکر ہے، سرکاری ملازمین کی مجبوریاں اور بے روزگار کی اور، ’’سیلیبس و سیاق وسباق‘‘ مختلف اور سیاسی معاملات مختلف ہیں۔ پاکستان بھر میں پھیلے کشمیری ووٹ اور ڈومیسائل کا حق ضرور استعمال کرتے ہیں مگر ان کا 'فرض بھلا کیا ہوسکتا ہے؟ حالیہ الیکشن میں سب جماعتوں کے قائدین کی خوش الحانی و لحن داؤدی کی شعلہ بیانی بہت کچھ سمجھا رہی تھی۔ سو جان کی امان پاؤں تو ایک عرض کروں کہ ، جانے حق خود ارادیت کا گر موقع میسر آ بھی جائے تو نتائج کیا ہوں؟ اپنی اپنی ضروریات کے مطابق ہر صوبہ خودمختاری کی بات کرتا ہے لیکن سب سے بڑی ’’بات‘‘تو چیف سیکرٹری اور آئی جی یا وزیر امور کشمیر کی ہے! بہرحال پیپلزپارٹی کشمیر کے قائدین و کارکنان خراج تحسین کے مستحق ہیں۔ بہرحال ضلع باغ سے 19825ووٹ لینے والے سردار تنویر الیاس کو باقاعدہ ایک مہم کے تحت وزیراعظم آف فیوچر شو کیا گیا تھا جو وزیر اعلیٰ پنجاب جناب بزدار کے مشیر بھی ہیں تاہم ان کے مقابلہ پر پیپلزپارٹی کے ضیاءالقمر نے 14558 ووٹ لےکر سب کوحیران کردیا، دلچسپ بات یہ کہ سابق الیکشن میں اسی باغ میں نون لیگ کے مشتاق منہاس کو صحافیوں نے وزیراعظم باور کرا کر جتایا تھا مگر منہاس وزیراعظم نہ بن سکے۔ دیکھنا ہے، اس دفعہ کشمیر کا مخصوص میڈیا تنویر الیاس کو وزیراعظم بنا پاتا ہے؟ ویسے یونیورسٹی آف آزاد جموں و کشمیر کے ایک پروگرام میں، ہم بھی وہاں موجود تھے کہ صدر سردار مسعود خان نے پاکستان کے نامور لوگ جو کشمیر سے ہیں اس فہرست میں سردار تنویر الیاس کا حوالہ دیا تھا۔ایک بات طے ہے کہ اگر پی ڈی ایم کا جمال ہوتا تو انتخابی بھرم بھی کمال ہوتا، نون لیگ نے صرف مریم نواز پر انتخابی مہم چھوڑ کر بالغ نظری کا ثبوت نہیں دیا تھا، محاذ زیادہ تھے اور شہباز شریف ابھی اتنے بوڑھے نہیں ہوئے تھے۔ نون لیگ کے مقابلہ پر پیپلزپارٹی کے کم و بیش ایک درجن منتخب ممبران فہیم ہیں اور اقلیم آزاد کشمیر پر ان کی بطور اپوزیشن مضبوط گرفت ہوگی، سابق وزیراعظم ممتاز راٹھور کے صاحبزادے فیصل راٹھور اور خواجہ طارق سعید کی ایک نسل آگے بڑھی دوستی بھی سیاسی اعزاز و اعجاز اور فراست کا ایک نمونہ بنی، خواجہ طارق سعید نے فیصل راٹھور کے حوالے حلقہ کرکے اور پورے کشمیر میں مہم چلا کے خودکو کشمیر پیپلزپارٹی کی روح ثابت کیا، راجہ قمرالزماں ہوں یا چوہدری یاسین و لطیف اکبر یہ جیتیں یا ہاریں، انہیں، علی گیلانی سی فکر، سردار ابراہیم سی محنت، کے ایچ خورشید سی شرافت اور بھٹو سا کشمیریت سے نامیاتی عشق ثابت کرنا ہوگا۔ آزاد کشمیر حکومت سے کشمیریت سے عشق زیادہ ضروری ہے کہ اقوامِ متحدہ کو اصل کہانی کا ادراک ہو!