کشمیر ۔ ریفرنڈم کے بعد ریفرنڈم کیوں؟

August 02, 2021

عمران خان کے مسئلہ کشمیر کے بارے میں حالیہ بیان نے سب کو چونکا کر رکھ دیا، جس میں انہوں نےکہا کہ اقوامِ متحدہ میں کشمیر پر استصوابِ رائے میں اگر کشمیریوں نے پاکستان کے حق میں فیصلہ دے دیا تو حکومتِ پاکستان ایک اور ریفرنڈم کے ذریعے انہیں یہ اختیار دے گی کہ وہ فیصلہ کریں کہ وہ پاکستان کا حصّہ بننا چاہتے ہیں یا خود مختار کشمیر کے حامی ہیں۔یہ عجیب و غریب اور کنفیوژن سے بھر پور بیان ہے ۔ گو اس طرح کے بیانات عمران خان کی سیاست کا خاصّہ رہے ہیں۔ لیکن کشمیر وہ مسئلہ ہے جس نے گزشتہ 74سا ل سے برصغیر کے امن اور ترقی کو یرغمال بنایا ہوا ہے جس کے لیے انڈیا اور پاکستان میں 5جنگیں ہو چکی ہیںاور پاکستان اپنے آدھے حصّے سے محروم ہوچکا ہے۔ یہ وہ مسئلہ ہے جس نے ہماری کئی نسلوںکو غربت اور پسماندگی کی دلدل میں دھکیل دیا ہے اور جسکی وجہ سے پاکستان کے حساس صوبے بھی بھارتی سازشوں کی وجہ سے علیحدگی پسندی کا شکار ہو رہے ہیں۔ایسے مسئلے پر ہر بیان بہت سوچ بچار کے بعد دینا چاہیے۔اس بیان کا سیدھا سادا مطلب یہ ہے کہ اگر اقوام ِ متحدہ کے زیرِ انتظام کشمیری عوام پاکستان کے ساتھ الحاق کا فیصلہ کر تے بھی ہیں ۔ تو پاکستان اسے حتمی فیصلہ نہیں سمجھے گا اور انہیں ایک اور ریفرنڈم کے ذریعے اس فیصلے کو واپس لینے کا موقع فراہم کرے گا۔ یہ بیان اس خدشے کا اظہار بھی کرتا ہے کہ پاکستان نے انڈیا کے ساتھ کچھ لو اور کچھ دو کی بنیاد پر اس مسئلے کو حل کرنے کا فیصلہ کر لیا ہے۔ جس کا اظہار کچھ حلقوں کی جانب سے کافی دیر سے کیا جا رہا ہے کہ گلگت بلتستان اورآزاد کشمیر کو پاکستان کا حصّہ بنا دیا جائے جبکہ مقبوضہ جموں و کشمیر کو بھارت کا حصّہ تسلیم کر لیا جائے۔اگر 74سال کے بعد یہی فیصلہ کرنا تھا تو فیصلہ سازقوتوں سے پاکستانی عوام یہ سوال پوچھنے میں حق بجانب ہیں کہ پھر مشرقی پاکستان کو اس دشمنی کی بھینٹ چڑھانے کی کیا ضرورت تھی۔انڈیا کے ساتھ 5جنگوں کے ذریعے پاکستان کو معاشی طور پر تباہ کرنے کی کیا تُک تھی۔ ویسے تو کشمیر کو اپنا اپنا حصّہ قرار دینے کا موقف ہی ناانصافی پر مبنی تھا۔کیونکہ دونوں ملکوں نے استصوابِ رائے میں تھرڈ آپشن کو شامل نہیں کیا تھا کہ کشمیر یوں کو یہ حق دیا جائے کہ وہ پاکستان یا ہندوستان میں شامل ہونے کا فیصلہ کریں یا خود مختار کشمیر کا ۔ اس کا سب سے زیادہ نقصان کشمیریوں کے بعد پاکستان کو ہوا۔جسے نہ صرف اپنے سے 7گنابڑے دشمن کی جارحیت کا سامنا کرنا پڑا اور کشمیر لیتے لیتے مشرقی پاکستان سے بھی ہاتھ دھو نے پڑ ے بلکہ اس نے عالمی سطح پر بھی کشمیر کا ز کو سخت نقصان پہنچایا کیونکہ دنیا کیوں کشمیر انڈیا سے چھین کر پاکستان کے حوالے کرنے پر تیار ہوتی ۔ جبکہ ایک بڑا ملک ہونے کی وجہ سے اس کے مفادات انڈیا سے زیادہ وابستہ ہیں۔البتہ اگر کشمیریوں کو خود مختار کشمیر کے لیے بھی آپشن دیا جاتا اور اسے مذہب کے ساتھ نہ جوڑا جاتا ۔ تو دنیا بھر کے انصاف پسند عوام کی ہمدردیاں کشمیریوں کے ساتھ زیادہ ہوتیں اور شاید اب تک مسئلہ کشمیر حل ہو چکا ہوتا۔ ویسے بھی اگر زمینی حقائق کی بات کریں تو گزشتہ 74سال میں کشمیریوں نے ہندوستان کو بھی دیکھ لیا ہے اور پاکستان کو بھی ،یہ طے ہے کہ وہ بھارت کا حصّہ بننے کے لیے تیار نہیں ۔ جبکہ پاکستان بھی جو 1947میں ایک ان دیکھی جنّت کی طرح تھا۔ 74سال گزرنے کے بعد ایک نئے روپ میں سامنے آیا ہے وہ ملک جو اپنے بڑے حصے کو ساتھ نہیں رکھ سکا۔ جہاں آج تک یہاں کے عوام کو بھی ان کے بنیادی جمہوری حقوق حاصل نہیں۔ جو ملک سیاسی عدم استحکام اور معاشی تباہی کا شکار ہے۔ اس کے ساتھ الحاق کی خواہش ہماری خوش فہمی تو ہو سکتی ہے۔ زمینی حقائق اسکی تصدیق نہیں کرتے ۔ لگتا یوں ہے کہ ہماری فیصلہ ساز قوتوں کو اس خطرے یا حقیقت کا ادراک ہو چکا ہے لیکن اس کا حل جو انہوں نے سوچا ہے ۔ وہ یقیناََ اس کا پائیدار حل نہیں بلکہ ایک نئے مسئلے کا آغاز ہوگا۔ کشمیری عوام کی مرضی کے بغیر کسی ملک کو یہ حق نہیں دیا جا سکتا کہ وہ ان کے علاقے یا قسمت کا فیصلہ کرے۔ مسئلہ کشمیر کے منصفانہ اور پائیدار حل کے لیے ایک ہی ریفرنڈم یا استصوابِ رائے کی ضرورت ہے جس میں کشمیریوں کو تھرڈ آپشن بھی دیا جائے کیونکہ یہ ان کا بنیادی انسانی حق ہے۔ آخر میں کشمیر کے بارے میں میرا ایک قطعہ پیش ہے۔

کشمیرایسی دلہن جس کے دعوے دار دو

ہر کوئی کہتا ہے اس کو چھین لو

اس کی مرضی بھی تو کوئی پوچھ لے

اس کے من میں کیا ہے اور کیا چاہے وہ