قومی سیاسی پارٹیاں اور خطّے کا مستقبل

August 05, 2021

کورونا کی یلغار یا افغانستان میں شدت پکڑتی خانہ جنگی۔پاکستان کی قومی سیاسی پارٹیوں کو اس حوالے سے کوئی تشویش نظر نہیں آتی۔

آپ کا کوئی عزیز اس مہلک بیماری میں مبتلا ہوجائے تو آپ کو جماعت اسلامی کے علاوہ کسی بھی قومی سیاسی جماعت سے کوئی مدد نہیں مل سکتی۔ ہماری ایک قریبی عزیز بزرگ خاتون اس کرب سے گزر رہی ہیں۔ ان کے لئے آکسیجن کی مانگ ہوتی ہے۔ اکیلی رہتی ہیں۔ اس لئے کسی خاتون خدمت گزار کی ضرورت بھی رہتی ہے۔ الخدمت میں عنایت اسماعیل سے رابطہ کرتے ہیں۔ آکسیجن سلنڈر والی ایمبولینس بھی ان کے توسط سے مل جاتی ہیں۔دیگر مسائل کے حل میں بھی مدد ملتی ہے۔ کورونا کی یہ چوتھی لہر تو بہت ہی بھیانک ہے۔ چین کے دو صوبوں میں بھی نئے متاثرین کی خبریں ہیں۔ وہاں نظم و ضبط ہے۔ اس لئے فوری اقدامات کے ذریعے قابو پایا جارہا ہے۔ایک ہم ہیں۔ اب بھی ایک بڑی تعداد ویکسی نیشن سے گریز کررہی ہے۔ عجیب لوگ ہیں ہم بھی۔ خود کشی کے رجحانات والی قوم۔ وہ پابندیاں جو ہماری صحت اور تحفظ کے لئے ہوتی ہیں۔ ہم ان کی خلاف ورزی افضل جہاد سمجھتے ہیں۔ اب جب موت قریب آتی دکھائی دے رہی ہے تو ویکسی نیشن کے لئے قطاریں زیادہ لمبی ہورہی ہیں۔

میرا قلم مجھ سے سوال کررہا ہے کہ ہماری قومی سیاسی جماعتوں کا اپنے ہم وطنوں سے رشتہ کیا صرف جلسے جلوسوں میں گنتی بڑھانے کے لئے ہے اور انتخابات میں صرف بیلٹ پیپر تک محدود ہے۔ باقی ہم کیسے جئیں۔ کیسے مریں۔ اس کے لئے نہ حکومتی پارٹی فکر مند ہوتی ہے نہ کوئی اور سیاسی جماعت۔ مسجدیں قرون وسطیٰ میں مرکز کی حیثیت رکھتی تھیں۔ ایوانِ صدر بھی۔ سپریم کورٹ بھی۔ جی ایچ کیو بھی۔ علاج گاہ بھی۔ اب آئمہ اور خطیب حضرات بہت کم اپنے محلے والوں کا اس حوالے سے خیال رکھتے ہیں۔ ہم تو ﷲ کا شکر ادا کرتے ہیں کہ گلشن اقبال بلاک 3کے خطیب اور امام مولانا ہدایت اللہ سدو خانی جامع مسجد صدیق اکبرؓ کو انسانی خدمات کا مرکز بھی بنارہے ہیں۔ الثقافہ ٹرسٹ کے زیر اہتمام پانچ چھ ایمبولینسیں بھی ہر وقت خدمت کے لئے کھڑی رہتی ہیں۔ آکسیجن سلنڈر بھی موجود ہیں۔ اس حوالے سے خدمات کا دائرہ بڑھارہے ہیں۔ محلے والے بھی اس کار خیر میں ان کے ساتھ ہیں۔ یقیناً ملک میں اور بھی ایسے درد مند آئمہ اور خطیب ہوں گے جو اسی طرح خلق خدا کی خدمت کا جذبہ رکھتے ہوں گے۔

کورونا کی وبا ہمارے ایک دیرینہ رفیق، شاعر، نقاد، جمہوری جدو جہد کے ساتھی نقاش کاظمی کو بھی اپنے ساتھ لے گئی۔ وہ ایک طویل عرصہ سے صاحب فراش تھے۔ مگر اب صحت یاب ہورہے تھے۔ اپنی انقلابی شاعری تخلیق کررہے تھے کہ اچانک ان کی رحلت کی خبر آگئی۔ کراچی کی ادبی محفلوں کی وہ جان تھے۔ کئی کتابوں کے مصنّف۔ اللہ تعالیٰ ان کے درجات بلند کرے اور ان کے پیاروں کو صبر جمیل عطا کرے۔

افغانستان میں پھر خانہ جنگی شروع ہے۔ اس وقت ہرات لشکر گاہ اور قندھار کی گلیوں میں پھر خون بہہ رہا ہے۔ مائیں، بہنیں، بزرگ، بیٹیاں پھر خوف کا شکار ہیں۔ تاریخ گواہ ہے کہ افغانستان کے حالات پاکستان پر ہمیشہ اثر انداز ہوتے ہیں۔ویسے تو پورا پاکستان ہی ان کی زد میں آتا ہے مگر بلوچستان، خیبر پختونخوا اور خاص طور پر حال ہی میں ضم ہونے والے فاٹا کے اضلاع۔ وہاں ابھی سے خطرے کی گھنٹیاں بج رہی ہیں۔ ڈیورنڈ لائن پر خار دار باڑ لگائی جا چکی ہے مگر وہ ستم زدگان کا راستہ نہیں روک سکے گی۔

ان 20برسوں میں امن، استحکام اور جمہوریت کی خاطر امریکہ، یورپ اور ان کی قائم کردہ کرزئی اور اشرف غنی حکومتوں کا ساتھ دینے والے افغانستان چھوڑنے کے لئے راستے تلاش کررہے ہیں۔ انخلاکی پروازیں جاری ہیں۔ 18مئی کو قائم کی جانے والی High Council For National Reconciliation بے اثر ثابت ہورہی ہے۔ پہلے یہ امکانات تھے کہ بین الافغان مذاکرات کے بعد موجودہ حکومت اور طالبان(امارات اسلامیہ) کی مشترکہ حکومت کا قیام عمل میں آئے اور افغانستان میں انتقال اقتدار کے لئے پُرامن جمہوری راستہ اختیار کیا جائے مگر یہ اب ممکن نہیں رہا۔ اب خانہ جنگی شروع ہوچکی ہے۔ پہلے پہلے لگ رہا تھا کہ طالبان آسانی سے کابل فتح کرلیں گے۔ لیکن اب مزاحمت ہورہی ہے۔ امریکہ انخلاکے باوجود پھر فضائی قوت استعمال کررہا ہے۔مشکل یہ ہے کہ افغانستان سے ساری خبریں مغربی خبر رساں ایجنسیوں کے ذریعے آتی ہیں۔ اسلامی دنیا کا اپنا کوئی میڈیا نہیں ہے۔ طالبان نے بھی اس طرف کوئی توجہ نہیں دی ہے۔اپنی کوئی ویب سائٹ کوئی ٹی و ی چینل شروع نہیں کیا۔

میں تو پھر اپنی قومی سیاسی جماعتوں، پاکستان تحریک انصاف،پاکستان مسلم لیگ(ن) ، پاکستان پیپلز پارٹی، پاکستان مسلم لیگ( قائد اعظم)، جمعیت علمائے اسلام، جماعت اسلامی، عوامی نیشنل پارٹی، بلوچستان عوامی پارٹی، پشتون خوا ملی عوامی پارٹی، بلوچستان نیشنل پارٹی، متحدہ قومی موومنٹ سے گزارش کروں گا کہ وہ اپنی مرکزی مجالس عاملہ کے ہنگامی اجلاس منعقد کریں۔ افغانستان سے آنے والی خبروں کا جائزہ لیں۔ یہ کوئی وقتی معاملات نہیں ہیں۔ جو کچھ ہورہا ہے ۔ پاکستان پر اس کے اثرات آئندہ کئی برسوں تک رہیں گے۔ ان سیاسی پارٹیوں سے وابستہ پاکستانیوں کی جان اور مال کو خطرے لاحق ہوسکتے ہیں۔ افغانستان اور دوسرے عالمی امور پر اپنے کارکنوں کی رہنمائی بھی ان پارٹیوں کی ہی ذمہ داری ہے۔ ہماری معیشت متاثر ہوگی۔ امن زد میں آئے گا۔ ان سیاسی پارٹیوں کے کارکنوں کے خاندان بھی پریشان ہوں گے۔ اس لئے ان پارٹیوں کی ذمہ داری ہے کہ وہ کوئی افغان پالیسی مرتب کریں۔ اپنے علاقوں میں امن برقرار رکھنے کی تدابیر سوچیں۔ وہ جمہوریت کے تحفظ کا روز ذکر کرتی ہیں۔ پاکستان میں جمہوری عمل افغانستان میں جمہوری عمل کے نہ ہونے سے پہلے بھی متاثر ہوا ہے۔ اب بھی ہوگا۔ یہ پارٹیاں طے کریں کہ اگر کابل میں امارات اسلامیہ(طالبان) کی حکومت قائم ہوتی ہے تو کیا پاکستان کو اسے فوراً تسلیم کرلینا چاہئے۔ چین اور طالبان کے درمیان رابطے ہورہے ہیں۔ چین کے موقف پر بھی ہماری نظر ہونی چاہئے۔ ان پارٹیوں کے عہدیداروں اور کارکنوں کو بھی اپنی پارٹی قیادت پر دبائو ڈالنا چاہئے کہ وہ اپنی واضح پالیسی تشکیل دیں۔ کارکن ہی ان پارٹیوں کی طاقت ہیں۔ صرف مخالفین کے خلاف نعرے اور سوشل میڈیا پر کردار کشی ہی تو ان کا منصب نہیں ہے۔