پیپلز پارٹی پنجاب سنگین بحران کا شکار

August 05, 2021

پاکستان پیپلز پارٹی پنجاب میں سنگین بحران کا شکار ہو چکی ہے، یہ بحران اس وقت شروع ہوا جب صوبائی صدر قمر زمان کائرہ، جنرل سیکرٹری چودھری منظور احمد اور پنجاب اسمبلی میںپارلیمانی لیڈر سید حسن مرتضیٰ سے زبردستی استعفے طلب کر کے استعفوں کو فوری منظور بھی کر لیا گیا، ان استعفوں کی بظاہر وجہ بتائی گئی کہ صوبائی عہدیداروں کی تین سالہ مدت مکمل ہو چکی تھی جس کے بعد تینوں عہدیدار رضاکارانہ طور پر مستعفی ہو گئے تاکہ نئی صوبائی قیادت کا چنائو ممکن ہو، لیکن ان استعفوں کی اصل وجہ خوشاب میںہونے والے ضمنی الیکشن تھے جن میںپیپلزپارٹی کا امیدوار چند سو ووٹ لینے کے بعد عبرتناک شکست سے دوچار ہو گیا۔ پیپلزپارٹی پنجاب میںگزشتہ پانچ سال اور بالخصوص رواں سال مئی سے بدترین بحرانوںسے گزر رہی ہے۔

پیپلزپارٹی پنجاب دو پارٹی سسٹم کے ذریعے چلانے کی ناکام کوششیںہو رہی ہیں، یعنی اوپر پیپلزپارٹی پارلیمنٹرین کی بالادستی ہے جس میں ماسوائے آصف علی زرداری کے کوئی متحرک عہدیدار موجود نہیں اور نیچے پیپلزپارٹی کا تنظیمی ڈھانچہ موجود ہے، جس میں شامل جیالے کارکن ہر اچھے برے وقت میں میدان عمل میںموجود ہوتے ہیں۔

بظاہر پارٹی چیئرمین بلاول بھٹو ہیں لیکن ڈوریں آصف علی زرداری کے ہاتھوں میں ہیں، پاکستان پیپلز پارٹی پنجاب میں بحران کا آغاز اس وقت وقت ہوا جب بلاول بھٹو نے بطو پارٹی چیئرمین اپریل 2016میں پنجاب کی صوبائی، ڈویژنل اور ضلعی تنظیموںکو معطل کر دیا۔ دو سال تک پنجاب تنظیم معلق رہنے کے بعد 2018کے عام انتخابات کے قریب قمر زمان کائرہ کو صدر، ندیم افضل چن جنرل سیکرٹری اور مصطفیٰ نواز کھوکھر کو صوبائی سیکرٹری اطلاعات کی ذمہ داریاں سونپ دی گئیں۔

قمر زمان کائرہ نے آخر وقت تک اپنی وفاداری کا مظاہرہ کیا لیکن ندیم افضل چن عام انتخابات کے قریب تحریک انصاف میںشامل ہو گئے اور الیکشن میںحصہ بھی لیا لیکن ناکام ہو گئے جبکہ مصطفیٰ نواز کھوکھر سینیٹ الیکشن میںموقع غنیمت سمجھ کر سندھ کی نشست سے سینیٹر منتخب ہو گئے، بعد ازاں صدر قمر زمان کائرہ کے ساتھ جنرل سیکرٹری چودھری منظور اور سیکرٹری اطلاعات حسن مرتضیٰ کو بنا دیا گیا، تینوںعہدیداروں نے سر دھڑ کی بازی لگائی اور صوبہ میں پارٹی کو متحرک اور فعال کر دیا لیکن رواں سال مئی میں خوشاب الیکشن کا بہانہ کر کےتینوںکو عہدوںسے اچانک فارغ کر دیا گیا جس سے پارٹی میںدوسری بار بحرانی کیفیت پیدا ہو گئی۔

پنجاب تنظیم معطل کرنے کے بعد سابق وزیر اعظم راجہ پرویز اشرف کو بطور چیف آرگنائزر تقرری کے احکامات جاری ہو گئے، پارٹی چیئرمین بلاول بھٹو نے انھیں پنجاب میں پارٹی کو از سر نو منظم کرنے کے لئے سینئر رہنمائوں سے ملاقاتیں کر کے نئی تنظیموں کے بارے مشاورت اور اضلاع کے دورہ جات کی ہدایت کی لیکن گزشتہ تین ماہ سے راجہ پرویز اشرف پنجاب کے تنظیمی معاملات گوجر خان بیٹھ کر چلانے میںمصروف ہیں اور یہ منصوبہ کہ ان کی چیف آرگنائزر تعیناتی کے بعد پنجاب میں پیپلزپارٹی کی فوری طور پر تنظیم سازی ہو گی ناکام ہو گیا۔ اس وقت صورتحال یہ ہے کہ پیپلزپارٹی پنجاب اور لاہور دونوں تنظیمیں غیرفعال اور غیر متحرک ہو چکی ہیں۔ لاہور کے صدر حاجی عزیزالرحمان چن کو گزشتہ ماہ دل کا دورہ پڑا، اتقاق ہسپتال میںسرجری کے بعد ڈاکٹر انھیں مکمل آرام کا مشورہ دے چکے ہیں جبکہ صوبائی تنظیم پہلے ہی معطل ہو چکی ہے۔

پیپلزپارٹی پنجاب اور لاہور کا کوئی پرسان حال نہیں، صوبائی آرگنائزر گوجر خان میںاپنے قومی اسمبلی کے حلقہ میںمصروف ہیں تو لاہور کے صدر ’’مرد بیمار‘‘ ڈاکٹروںکے مشورے پر سیاسی سرگرمیاں محدود کر کے آرام کر رہے ہیں۔ پنجاب کے چیف آرگنائزر راجہ پرویز اشرف عہدہ سنبھالنے کے بعد صرف دو مرتبہ لاہور میں پارٹی اجلاسوںکے لئے تشریف لائے ہیں اور تنظیمی معاملات سینئر نائب صدر اسلم گل اپنے ہاتھوںمیںلئے ہوئے ہیں۔

پارٹی حلقوں میں فیصل صالح حیات، رانا فاروق اور راجہ پرویز اشرف کے پنجاب میں نئے صدر کے لئے نام لئے جا رہے ہیں جبکہ صوبائی جنرل سیکرٹری کے لئے حسن مرتضیٰ، آصف بشیر مانگٹ امیدوار ہیں، پنجاب میںپارٹی کو بحران سے نکالنے کے لئے گزشتہ تین ماہ کے دوران پہلے بلاول بھٹو لاہور تشریف لائے جنھوں نے لاہور تنظیم بھی فارغ کرنے کا عندیہ دیا ۔

آصف زرداری نے سابق وزیر اعلیٰ پنجاب منظور احمد وٹو سے ملاقات کی، بلاول ہاوس میں ہونے والی ملاقات میں منظور وٹو، آصف علی زرداری، راجہ پرویز اشرف بھی موجود تھے، آصف علی زرداری سابق گورنر پنجاب اور پیپلزپارٹی وسطی پنجاب کے صدر مخدوم احمد محمود کے گھر بھی گئے جہاں پیپلزپارٹی پنجاب کے سابق صدر قاسم ضیا کو خاص طور پر مدعو کیا گیا تاہم قاسم ضیا کسی طور صوبائی عہدے کے خواہشمند نہیں، بعدازاں آصف زرداری فیصل صالح حیات کے گھر پہنچ گئے اور صوبائی تنظیم سازی کے حوالے سے تفصیلی تبادلہ خیال کیا گیا۔

پنجاب میںپارٹی بحران کے حوالے سے ذرائع کا کہنا ہے کہ بلاول بھٹو رواںماہ عاشورہ کے بعد لاہور کا دورہ اور سیاسی ملاقاتیںکریںگے، پیپلز پارٹی کو پنجاب کی سیاست میں دوبارہ متحرک کرنے کے لئے قیادت کو ایسے صوبائی صدرکی تلاش ہے جو کروڑوں روپے خرچ کر سکتا ہو، راجہ پرویز اشرف مرکز کی سیاست، قومی اسمبلی کے ایوان اور گوجر خان میں اپنے قومی اسمبلی کے حلقہ میں دلچسپی رکھتے ہیں، نیزسابق وزیر اعظم کی حیثیت سے پنجاب کا عہدہ قبول نہیں کریںگے، رانا فاروق جسمانی طو ر پر کمزور ہو چکے ہیں اور پنجاب کے دورے کرکے تنظیم کو فعال کرنا ممکن نہیںہو گا، قیادت کے مطلوبہ معیار پر فیصل صالح حیات پورا اترتے ہیں۔

فیصل صالح حیات اس سے پہلے بھی پیپلزپارٹی پنجاب کے صدر رہ چکے ہیں تاہم پرویز مشرف حکومت کے دوران انھوں نے پیپلزپارٹی کے ٹکٹ سے کامیاب ہو کر پیپلز پارٹی پیٹریاٹ کی بنیاد رکھی تھی ۔ پیپلزپارٹی پنجاب کے سینئر نائب صدر اسلم گل کہتے ہیں کہ پنجاب میں صرف صدر، جنرل سیکرٹری اور سیکرٹری اطلاعات کے عہدے تحلیل کئے گئے ہیں، باقی تمام ڈویژنل اور ضلعی تنظیمیںموجود ہیں۔

پیپلزپارٹی تین برسوں کے دوران قیادت کی ہدایت پر پنجاب میںہونے والے ضمنی الیکشن میں پی ڈ ی ایم میںشامل مسلم لیگ ن کے امیدواروں کی حمایت کرتی رہی تاہم کنٹونمنٹ الیکشن میں پہلی باربھرپور حصہ لے گی، آئندہ ماہ ستمبر کے دوران لاہور، اوکاڑہ، سیالکوٹ، اٹک، سرگودھا، راولپنڈی، کھاریاں اور جہلم کنٹونمنٹ میں ہونے والے بلدیاتی الیکشن میں ہر جگہ مقابلہ ہو گا۔