سلامِ نو: تشنگی کی تھی، نہیں تھی اُن کو پانی کی طلب

August 15, 2021

تشنگی کی تھی، نہیں تھی اُن کو پانی کی طلب

تھی بہتر کو حیاتِ جاودانی کی طلب

کر رہا تھا اِک طرف باطل یزیدی شکل میں

عیش و عشرت، دیں فروشی، حکمرانی کی طلب

اِک طرف تھی، حق کے متوالوں کی بس یہ آرزو

جو مٹے اسلام پر، اُس زندگانی کی طلب

اصغر ششماہ نے کی، کتنی دانائی کے ساتھ

اِک تبسّم کے جلو میں خوں فشانی کی طلب

ہاں کبھی جب وقت پڑتا ہے، تو کرتا ہے ضرور

دین، ہم شکل پیمبر کی جوانی کی طلب

یہ عَلم عباس کا ہم پر ہے کچھ ایسا محیط

خُلد میں بھی ہم کریں گے اس نشانی کی طلب

خود مشیت اُن پہ نازاں، زیرِ سجدہ جو کریں

ناز سے خود کارگاہِ امتحانی کی طلب

معجزہ بنتِ نبیؐ کا زیرِ لب رہتا ہے تب

دل سےجب ہوتی ہے مجھ کواِک کہانی کی طلب

بس، درِ شبّیر سے وابستگی ہو دائمی

تھی حبیب و حُر، زُہیر و اُمّ ہانی کی طلب

کیوں نہ لُکنت ہو کہ ہے ذکرِ حُسینؓ ابنِ علیؓ

اے خدا! ہے اس گھڑی معجز بیانی کی طلب

ہو درِ آلِ نبیؐ سے واسطہ تو کیا نہ ہو

آشیاں سے ماسوا، خُلد آشیانی کی طلب

ہاں قمر، شہ کے مصائب سن کے حالت اب یہ ہے

چشمِ تر کو ہے، فزوں تر اِک روانی کی طلب