تین سال ۔’’کامیابیاں اور ناکامیاں‘‘

August 29, 2021

عمران خان حکومت بالآخراپنے تین سال مکمل کرنے میں کامیاب ہو گئی ہے، اپوزیشن اپنی تمام ترکوشش کے باوجود حکومت گرانے میں ناکام رہی تین سال پورے کرنے میں حکومت کا کوئی کمال ہے اور نہ ہی اس کی کوئی حکمت عملی بلکہ 6،7ارکان کی بیساکھیوں پر قائم حکومت اپوزیشن کی صفوں میں ’’ نا اتفاقی‘‘ اور’’ مؤثر حکمتِ عملی کے فقدان‘‘ نے پاکستان کی تاریخ کی ’’ غیر مقبول ترین‘‘حکومت کو تقویت پہنچائی ہے۔ بلاول بھٹو زرداری ، شہباز شریف کو عمران خان کے خلاف تحریک عدم اعتماد کی کامیابی کی صورت میں عبوری مدت کے لئے وزیر اعظم بنوانا چاہتے تھے لیکن اس تجویز کی منظوری کی راہ میں عمران خان حائل ہو گئے انہوں نے شہباز شریف کو برطانیہ جانے ہی نہیں دیا رہی سہی کسر’’ لندن مقیم‘‘ محمد نواز شریف نے تحریک عدم اعتماد کی تجویز ’’ویٹو‘‘ کر کے رَد دی، ان کی رائے ہے کہ اسٹیبلشمنٹ کی آشیر باد کے بغیر کوئی تحریک عدم اعتماد کامیاب نہیں ہو سکتی۔ پی ٹی آئی نے 26اگست 2021کو اپنی حکومت کے تین سال مکمل ہونے پر جشن منایا ، اس سلسلے میں جناح کنونشن سنٹر میں تقریب کا اہتمام کیا گیا جس میں وزیر اعظم نے اپنی حکومت کی تین سال کی کار کردگی بارے بلند بانگ دعوے کئے، انہوں نے اپنی 22سالہ جدوجہد کا ذکر کیا اور کہا کہ ’’ایسا وقت بھی آیا جب ہم صرف 5،6 لوگ رہ گئے مشکل وقت میں ہمیں گھبرانا نہیں چاہئے وزیر اعظم نے حکومت گرانے کے لئے مافیا کے فوج کے پیچھے پڑنے کا ذکر تو کیا ہے لیکن اس کی وضاحت نہیں کی انہوں نے دعویٰ کیا کہ ’’عوام میں خوش حالی آرہی ہے ہمارے اعدادو شمار اسحٰقٰ ڈار والے نہیں، اصلی ہیں‘‘۔ کرنٹ اکاؤنٹ خسارہ 20ارب ڈالر سے کم کر کے 8.1ارب ڈالر ہو گیاہے۔ اگر سعودی عرب، متحدہ عرب امارات اور چین ہماری مدد نہ کرتے تو مشکلات میں اضافہ ہو جاتا وزیر اعظم نےجن اعشاریوں کا ذکر کیا ہے، اس پر شادیانے بجانا بجا ہے لیکن پچھلے تین سال کے دوران مہنگائی اور بے روزگاری نے لوگوں کے چہروں پر سے مسکراہٹ چھین لی ہے پی ٹی آئی نے تین سال کے دوران آزاد جموں و کشمیر اور گلگت میں اپنی حکومتیں قائم کر لی ہیں لہٰذا یہ پی ٹی آئی کی سب سے بڑی کامیابی قرار دی جا سکتی ہے پچھلے تین سال سے حکومت اور اپوزیشن ’’دست و گریباں‘‘ ہیں، پارلیمنٹ کے اندر اور باہر شاید ہی کوئی دن سکون سے گزرا ہو ایف اے ٹی ایف سے متعلق کچھ قوانین میں حکومت کو اپوزیشن کا تعاون حاصل رہا لیکن اس میں مقتدر اداروں نے بھی فعال کردار ادا کیا۔ بیشتر قوانین کی منظوری میں اپوزیشن حائل رہی جن کی منظوری کے لئے حکومت کو پارلیمنٹ کے دونوں ایوانوں سے منظوری لینا پڑی اسی طرح نیب قانون میں ترامیم اور انتخابی اصلاحات جیسے اہم بل حکومت اور اپوزیشن میں ’’تعلقات کار‘‘ بہتر نہ ہونے کی وجہ سے تا حال التوا میں پڑے ہیں حکومت ان بلوں کی منظوری میں من مانی کرنا چاہتی ہے لیکن اپوزیشن اس کے عزائم کی راہ میں حائل ہے پاکستان کا کوئی شہری مہنگائی سے متاثر ہوئے بغیر نہیں رہ سکا۔

پاکستان میں پچھلے تین سال کے دوران کرپشن میں بے پناہ اضافہ ہوا ٹرانسپیرنسی انٹرنیشنل کی رپورٹس جیتا جاگتا ثبوت ہیں، وزیر اعظم عمران خان خود بھی مہنگائی کا اعتراف کرتے ہیں تو انہوں نے اب تک مہنگائی کا نوٹس لینے کے سوا کچھ نہیں کیا۔ حکومت معیشت کا رُخ صحیح ہونے اور ٹیک آف کرنے کے دعوے بھی کر رہی ہے لیکن اس کے عام آدمی کی زندگی پر مثبت اثرات نظر نہیں آرہے۔ عام آدمی حکومت سے نالاں نظر آتا ہے اس کی اشک شوئی کے لئے حکومت نے کوئی ٹھوس اقدام نہیں کیا۔ مہنگائی پر قابو پانے کے لئے حکومت اور اپوزیشن کا مل بیٹھنا ضروری ہے لیکن وزیر اعظم جو پوری اپوزیشن کو ’’چور ڈاکو‘‘ کہہ کر پکارتے ہیں وہ اس کی غلط پالیسیوں کو ہی مہنگائی کا باعث سمجھتے ہیں۔ پچھلے تین سال کے دوران اپوزیشن کا شاید ہی کوئی لیڈر ہو جسے عمران حکومت نے’’ جیل یاترا‘‘ نہ کروائی ہو۔ کوئی لیڈر جیل سے رہا ہو کر آتا ہے تو دوسرے کیس میں جیل بھجوانے کی تیاری شروع کر دی جاتی ہے جمعیت علما ئے اسلام کے امیر مولانا فضل الرحمٰن کو 2019 میں تنہا حکومت گرانے سوجھی لیکن انہیں اسلام آباد سے مایوس واپس لوٹنا پڑا۔ 20 ستمبر2020 کو اپوزیشن کی 10سیاسی جماعتوں نے حکومت گرانے کے لئے 26نکاتی ایجنڈے کے حصول کیلئے’’ پاکستان ڈیمو کریٹک موومنٹ‘‘ کی تشکیل دی، عوام کی طرف سے رسپانس سے لگتا تھا کہ حکومت چند دنوں کی ’’مہمان‘‘ہے لیکن اس اتحاد کو 6ماہ بھی نہیں ہو پائے، پی ڈی ایم سیاسی جماعتوں کی اعلیٰ قیادت کے مفادات کی سیاست کی بھینٹ چڑھ گئی دیکھتے ہی دیکھتے پی ڈی ایم کا شیرازہ بکھر گیا۔ پی ڈی ایم نے فروری مارچ 2021 میں اسلام آباد لانگ مارچ کرنے کے ساتھ اسمبلیوں سے استعفے دینے تھے لیکن پیپلز پارٹی نے استعفوں اور لانگ مارچ کے آپشن کے استعمال سے قبل ’’تحریک عدم اعتماد‘‘ کا پیش کرنے پر زور دیا پی ڈی ایم سربراہی اجلاس میں آصف علی زرداری کی جانب سے نواز شریف کو واپس نہ آنے پر کی’’ طعنہ زنی‘‘ نے پی ڈی ایم اور پیپلز پارٹی کے راستے الگ کر دئیے رہی سہی کسر حکومتی اتحاد میں شامل سینیٹرز کی مدد سے یوسف رضا گیلانی کو سینیٹ میں قائد حزب اختلاف بنوانے نے نکال دی عملاً پی ڈی ایم دو گروپوں میں تقسیم ہو کر مفلوج ہو گئی، پی ڈی ایم سوات میں ایک بڑا جلسہ منعقد کر سکی ہے جو در اصل امیر مقام شو تھا اب دوسرا بڑا جلسہ کراچی کا ہے جس کی میزبان جمعیت علما ئےاسلام ہے سر دست پی ڈی ایم نے اسلام آباد کا رخ نہیں کیا مریم نواز آزاد جموں کشمیر میں بڑے بڑے جلسوں سے خطاب کرنے کے جاتی امرا میں گوشہ نشین ہو گئی ہیں جب کہ مفاہمت کے بادشاہ’’ شہباز شریف‘‘ پی ڈی ایم کے جلسوں میں اپنی موجودگی کا احساس دلا رہے ہیں حکومت اپنے تین سال مکمل ہونے پر میڈیا کو بظاہر ’’میڈیا ڈویلپمنٹ اتھارٹی‘‘ کا تحفہ دینے پر تلی ہے اور آزادی صحافت کا گلہ گھونٹنے کا پروگرام بنایا گیا ہے۔ تمام صحافتی تنظیمیں اس مجوزہ قانون کی مخالفت کر رہی ہیں۔ انہوں نے پہلی بار اس بات کا اعتراف کیا کہ فوج ، عدلیہ اور سیاست دانوں سے غلطیاں ہوئی ہیں، میں نے بھی غلطیوں پر تنقید کی ہے تاہم انہوں نے ’’تعاون‘‘ پر فوج کا شکریہ ادا کیا۔