رُوحانیت، تصوّف

July 22, 2013

میں نے اپنے یکم جولائی کے کالم میں آپ کی خدمت میں دوکتب پر تبصرہ پیش کیا تھا۔ ایک جناب مختار علی خان پر توروحیلہ کی کتاب ”غالب کے غیر مدوّن فارسی مکتوبات“ اور دوسری جناب محمد ریاض قادری کی کتاب 'An account of the mysterious lives of the great saints and mystics of Islam' ۔ اس کتاب پر تبصرہ کرتے ہوئے میں نے رُوحانیت (Mysticism) اور تصوّف(Sufism) کے بارے اپنی سمجھ بوجھ کے مطابق کچھ لکھا تھا اور عرض کیا تھا کہ میں اس موضوع پر مزید کچھ لکھنے کی جسارت کروں گا اور یہ کالم اُسی کالم کا سلسلہ ہے۔
بہت سے لوگ یہ سمجھتے ہیں کہ محض کسی بات کا علم ہونا اس پر عمل کے لئے کافی ہے۔ اگر ایسا ہوتا تو ارسطو، افلاطون، کانت، ہیگل اور برٹرینڈرسل وغیرہ دنیا کے سب سے نیک بندے ہوتے اور دنیا انہی کی پیروی کرتی۔ مگر انسان کی طبیعت ایسی نہیں ہے جیسا کہ لوگ سمجھتے ہیں۔ عمل اور کردار کا تعلق اندر کی دنیا سے ہے، انسان کے قلب و ضمیر سے ہے اور اس کے اندر کی دنیا کو ٹھیک کرنا اتنا آسان نہیں جتنا کہ لوگ اس کو سمجھتے ہیں۔ دراصل آج کل ہر بات میں یورپ اور امریکہ کی نقّالی کو بڑا کمال سمجھا جاتا ہے۔ ہمارے چند کم تعلیم یافتہ صحافی و تجزیہ نگار عموماً چند مغربی مفکّروں کے نام درمیان میں ڈال کر اپنی عقل و فہم کا ڈنکہ بجانا چاہتے ہیں۔ مغرب میں چونکہ سائنس کا بڑا زور ہے اور ٹیکنالوجی کا استعمال بے دریغ ہوتا ہے، یہ علم کو معیشت کی ترقی کا ذریعہ بنائے ہوئے ہیں اس سے ہمارے ”دانشور“ متاثر ہر کر سمجھنے لگے ہیں کہ انسان کا سب سے بڑا مسئلہ ہے خوانگی، سائنس و ٹیکنالوجی، یعنی اگر سب لوگ پڑھنا لکھنا سیکھ لیں، سائنس و ٹیکنالوجی کے ماہر ہوجائیں تو بس بیڑا پار ہے، جنت ہاتھ آجائے گی۔ کوئی نہیں سوچتا کہ سائنس و ٹیکنالوجی ایک فرد کو انسان نہیں بنا سکتی اور نہ وحشی لوگوں کو مہذب بنا سکتی ہے بلکہ اگر وحشی لوگ ٹیکنالوجی پر عبور حاصل کرلیں تو وہی حشر ہوتا ہے جو ہٹلر نے دوسری جنگ عظیم میں کیا تھا اور جو ابھی بُش، اوباما، بلیئر، سرکوزی کے حلیفوں نے عراق کا، افغانستان کا، لیبیا کا اور ہمارا کیا ہے۔
انسان کی شخصیت، سیرت، کردار اور اقدار کی حفاظت، فروغ اور ترقی کے لئے ہمارے سامنے واحد نمونہ اللہ تعالیٰ کا بتایا ہوا راستہ ہے اور اس کے بھیجے ہوئے پیغمبروں کا نمونہ ہے۔ ہمارے پاس اس کام کے لئے بہترین نمونہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی حیات مبارکہ ہے۔ انسان کے باطن کو روشن کرنے کا جو کارنامہ آج تک تاریخ میں سب سے بڑا کارنامہ ہے وہ ہمارے پیارے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کا ہی ہے۔ آپ نے بمشکل ساڑھے بائیس سال کے قلیل عرصہ میں ایک بہترین معاشرہ، اعلیٰ اقدار کی حامل اُمت اور ایک ایسی مثالی ریاست قائم کرکے دکھلادی جس کی مثال تاریخ انسانی میں آج تک ہمارے سامنے نہیں آئی۔ غور کیجئے آپ نے یہ کام اتنے قلیل عرصہ میں کیسے انجام دے دیا؟ آپس میں سیکڑوں برسوں برسرپیکار رہنے والے قبائل کو کیسے آپ نے مساوات، اخوّت اور باہمی احترام و محبت کا خوگر بنادیا؟ کیا آپ نے یہ کام مادی وسائل سے کیا یا ریاست کی طاقت سے آپ نے یہ کام لیا؟ ظاہر ہے کہ جواب نفی میں ہے۔ اس دورانیہ کے آدھے وقت تک تو آپ کے پاس نہ ہی دولت تھی اور نہ ہی سیاسی قوّت، پھر جو کچھ وسائل مدینہ منورہ میں فراہم ہونے لگے تو بھی آپ کی قائم کردہ ریاست میں نہ ہی پولیس تھی اور نہ ہی خفیّہ ادارے اور لوگ۔ اگر کوئی فرد گناہ کرتا تو خود ہی آکر اقرار جرم کرکے اپنے لئے سزا کی درخواست و مطالبہ کرتاکہ آخرت کے عذاب سے بچ جائے پھر وہ کیا بات تھی جس نے مدینہ منورہ میں رہنے والے مسلمانوں کی زندگی بدل ڈالی۔ ان کی سوچ، ان کے رویّے، ان کی پسند نا پسند، دوستی دشمنی، کھانے کمانے، شادی بیاہ، میل جول، آپس میں لین دین کے طور طریقے سب کے سب اس طرح بدل گئے کہ ماضی کی دشمنی، حسد، بغض، کینہ، لالچ، تکبّر، غرور، خودپسندی کا نام ونشان باقی نہ رہا۔ مکہ سے مدینہ کی ہجرت خود اس کی سب سے بڑی دلیل و ثبوت ہے۔ مہاجر اور انصار میں تمیز نہ رہی سب مسلمان تھے اور ایک دوسرے کے بہن بھائی تھے۔اس تبدیلی کی بنیاد تزکیہ نفس تھی جس کو قرآن نے حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی بعثت کے مقاصد میں شمار کیا ہے۔ سورہ جمعہ آیت 2، میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے”وہی ذات ہے جس نے اُمّی لوگوں میں انہی میں سے ایک رسول بھیجا تاکہ ان کے سامنے اس کی آیات کی تلاوت کرے اور ان لوگوں کاتزکیہ کرے، ان کو کتاب اور حکمت کی تعلیم دے“۔ غور کیجئے یہاں تعلیم کا ذکر تزکیہ کے بعد آیا ہے۔ تو رسول صلی اللہ علیہ وسلم کا اصل کارنامہ یہ ہے کہ آپ نے دلوں کی دنیا بدل ڈالی، لوگوں کے اندر کی آلائشوں کو صاف کیا، ان کے باطن کے اندھیروں کو ختم کیا اور جب وہ پاک صاف ہوکر ہدایت اور نیکی کے راستے پر چلنے کے لئے آمادہ ہوگئے تو ان کو کتاب اور حکمت کی تعلیم دی۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے تزکیہ نفس اور روحانی تربیت کا کام اپنے عملی نمونہ سے کیا۔ انسانوں کا دلی رشتہ اللہ سے جوڑ دیا۔ اللہ تعالیٰ سے دلی رشتہ جوڑناہی اصل میں تصوف ہے، روحانیت ہے جب یہ کیفیت پیدا ہوجاتی ہے تو دلوں سے خوف اور غم رخصت ہو جاتا ہے۔ کلام مجید میں بار بار فرمایا گیا ہے ”خبردار! اللہ کے ولی وہ ہوتے ہیں کہ ان پر نہ خوف اثر کرتا ہے اور نہ وہ غم کرتے ہیں“۔ جب انسان کا رشتہ اللہ سے مضبوط ہوجاتا ہے تو اس کے سامنے دنیا کی ہر طاقت ہیچ ہوجاتی ہے۔ اس کو اللہ پر بھروسہ ہوتا ہے۔ اللہ کی رضا کے مقابلہ میں اس کو کسی کی پروا نہیں ہوتی۔ یہی روحانیت ہے اور اس کیفیت کا حامل ولی اللہ ہے۔
مسلمانوں کی تاریخ میں ایسی لاتعداد نامور شخصیات ہیں جنہوں نے اصلاح اور تزکیہ نفس کے میدان میں بڑے بڑے کارنامے انجام دیئے ہیں۔ جہاں شہنشاہ، بادشاہ اور سپہ سالار ناکام ہوئے وہاں روحانیت کی دنیا میں حکومت کرنے والے بزرگ کبھی ناکام نہیں ہوئے۔ جب کبھی مسلمانوں پر بُرا وقت آیا انہی روحانی بزرگوں نے مسلمانوں کے دلوں کو سنبھالا، ان کو حوصلہ دیا اور اُمید کی راہ دکھائی۔ جب بغداد تباہ ہوا تو روحانیت کی ایک لہر اُٹھی اور اولیائے کرام نے لوگوں کو اپنے باطن کی فکر کرنے کی تلقین کی۔ اس طرح انہوں نے یہ سبق دیا کہ مسلمانوں کی اصل قوّت ان کی روحانی قوّت ہے۔ اصل چیز دنیاوی چیزیں نہیں بلکہ اللہ تعالیٰ سے رشتہ محبت ہے، معرفت کا رشتہ اور اطاعت کا رشتہ ہے۔ جتنا انسان اللہ کی اطاعت خلوص سے کرتا ہے اتنی ہی اس کی معرفت میں اضافہ اور اللہ سے قربت بڑھتی جاتی ہے۔ شیخ فرید الدین عطار کی کتاب تذکرةُالاولیاء میں لاتعداد ولی اللہ کے مصدقہ حالات درج ہیں۔مولانا جلال الدین رومی  کا ذکر پچھلے کالم میں کیا تھا یہ ایک عظیم روحانی معلم اور مربیّ ہوئے ہیں جنہوں نے انتہائی نازک دور میں جب مسلمان پریشانیوں کا شکار تھے ان کو سنبھالا اور روشنی کے مینار ثابت ہوئی۔ اسپین میں شیخ الکبیر شیخ محی الدین العربی، وسط ایشیاء میں حضرت بہاء الدین نقشبندی، بغداد میں حضرت جنید، ہندوستان میں خواجہ معین الدین اجمیری ، بابا فرید الدین گنج شکر، حضرت نظام الدین اَولیاء  اور ان کے علاوہ تقریباً عالم اسلام کے ہر گوشہ میں روحانیت کا چراغ روشن کرنے والے بزرگ رہے ہیں جنہوں نے اسلام اور پیغمبر اسلام کی تعلیمات کے مطابق مسلمانوں کی روحانی اور اخلاقی تربیت کا عظیم الشان کام کیا ہے۔ انہی بزرگوں کا فیض ہے کہ آج بھی ہم لوگ اپنی ساری غلطیوں کے باوجود اسلام کے سیدھے راستے کو پہچانتے ہیں اور اس پر چلنے کی کوشش بھی کرتے ہیں۔
لیکن ہر شعبہ کی طرح اس میدان میں بھی جعلساز ہیں اور ہمیشہ رہے ہیں۔ اسی وجہ سے مولانا روم نے فرمایا ہے کہ یاد رکھو بازار میں کھوٹے سکّوں کی موجودگی اس بات کا ثبوت ہے کہ کہیں کھرے سکّے بھی رائج ہیں کیونکہ کھوٹے سکّے ہی کھرے سکّوں کی جگہ چلائے جاتے ہیں لہٰذا جب کبھی ایسے جعلساز لوگ تمہیں نظر آئیں جو روحانیت کے نام پر مادی فوائد سمیٹ رہے ہوں اور لوگوں کی تربیت و اصلاح کے بجائے ان سے چندہ، نذرانے بٹورنے میں لگے ہوں تو تمہیں چاہئے کہ ان کو رد کرکے حقیقی اولیائے کرام کی تلاش کرو۔ اگر تم خلوص سے تلاش کرو گے تو تمہیں ضرور ایسے حقیقی نیک و پیارے اللہ کے بندے مل جائیں گے۔ دیکھئے ایسے نیک، پارسا، مخلص، دیندار ولی اللہ لوگوں کو پہچاننا کچھ ایسا مشکل بھی نہیں۔ ان کی پہچان کا یہ طریقہ ہے کہ دیکھو کہ کیا (1) وہ جو کہتے ہیں اس پر خود عمل پیرا ہیں۔ (2) ان کی طرز زندگی ہمارے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے نمونہ کے مطابق ہے۔ (3) ان کے اعمال شریعت کے احکام کے مطابق ہیں۔ (4) ان کی صحبت میں بیٹھ کر، ان کی گفتگو، نصیحتیں سن کر ایمان مضبوط ہوتا ہے، خوف خدا پیدا ہوتا ہے، آخرت یاد آتی ہے، اللہ سے محبت بڑھتی ہے اور اخلاقی بیماریوں جیسے حَسد، غیبت، بغض، کینہ، تکبّر و غرور، بخل، غصّہ، ریاکاری اور لالچ سے نفرت اور ان کی جگہ خلوص، سچائی، عاجزی، سخاوت، اعلیٰ ظرفی اور استغفار اور استغفار کی صفات پیدا ہوتی ہیں۔ ان گزارشات کی روشنی میں ہم اپنے لئے صحیح مُرشد، صحیح ولی اللہ کا انتخاب کرسکتے ہیں اور اپنی روحانی زندگی سنوار سکتے ہیں ورنہ محض علم کے ذریعہ اصلاح نہیں ہو سکتی۔ حضرت علی کرم اللہ وجہہ نے فرمایا ہے کہ ”لاتعداد تعلیم یافتہ لوگوں نے اپنا مستقبل اس لئے تباہ کرلیا کہ وہ دین سے نابلد و بے بہرہ تھے، ان کا علم آخرت میں ان کے کچھ کام نہ آیا“۔اپنے پچھلے کالم میں عرض کرچکا ہوں کہ ہر مذہب میں ایسے بندے پائے جاتے ہیں جو محبت اِلٰہی اور تصوف میں کھو کر اپنی ذات کو بھول جاتے ہیں، خود سے بے تعلق ہوجاتے ہیں اور بعض اوقات مجذوبیت کی کیفیت طاری ہوجاتی ہے اور وہ دین و دنیا سے غافل ہو کر صرف اللہ کی محبت و قربت میں اپنے وجود سے بے خبر ہوجاتے ہیں ہمارے یہاں ایسے صوفی کو ولی اللہ تصور کیا جانے لگتا ہے حالانکہ ولی اللہ کا درجہ اس سے بلند ہے اس کی ذات سے عموماً بہت سی کرامات، کشف یعنی ایسی قلبی کیفیت جس کے ذریعہ ان کو پوشیدہ اُمور کا علم یا احساس ہوجاتا ہے منسوب کی جاتی ہیں۔