وہ لاہور کہیں کھو گیا

September 05, 2021

(گزشتہ سے پیوستہ)

رائے ونڈ جنکشن ریلوے اسٹیشن اور لاہور ریلوےا سٹیشن پر لکڑی کے دو ایسے کیبن ہیں جو شاید پورے پاکستان کے کسی ریلوےا سٹیشن پر نہیں، رائے ونڈ ریلوے اسٹیشن کا کیبن 1921سے آج تک کافی حد تک اپنی اصل صورت میں موجود ہے۔ لاہور ریلوےا سٹیشن کا کیبن 1916میں تعمیر ہوا۔ یہ لوہے کے بڑے بڑے ستونوں پر کھڑا ہے۔ جب ہم نے اس کیبن کو دیکھا تھا شاید یہ اس طرح نہیں تھا۔ یہ دونوں کیبن گوروں ہی نے تعمیر کئے تھے جبکہ ہم نے انہیں تباہ کرنے کی قسم کھا رکھی ہے۔ رائے ونڈ والے کیبن کا گرائونڈ فلور چونے کی عمارت کا ہے اورپوری منزل چاروںطرف سے اور چھت تکونی لکڑی کی ہے۔ جو سو برس ہونے کے باوجود نہ تو بارش سے اب تک ٹپکی ہے نہ اس کو دیمک لگی ہے۔ اس کے فرش تک لکڑی کے موٹے موٹے سلیب کے ہیں ،اگلے برس یہ کیبن پورے سو برس کاہو جائے گا افسوس اسی سال اس کو تباہ کر دیا جائے گا کیونکہ کانٹا تبدیل کرنے کا جو نیا سسٹم سی پی آئی آرہا ہے اس کے بعد تاریخی، روایتی اور اس خوبصورت کیبن روم کی ضرورت نہیں رہے گی، چونکہ نئے سسٹم میں اب کانٹا بھی ا سٹیشن ماسٹر اپنے کمرے سے کمپیوٹر اور بجلی کی مدد سے تبدیل کر سکے گا۔تاریخی لاہور کے پہلے ریلوے اسٹیشن کوٹ لکھپت میں یہ نیا سسٹم نصب کیا جا چکا ہے، جس کے بعد لیورز کے ذریعے کانٹا تبدیل کرنے کا بڑا مضبوط اور بہترین نظام ختم ہو جائے گا۔ حالانکہ ریلوے کو چاہئے کہ وہ اس نئے نظام کو اس تاریخی کیبن میں نصب کر دے یا پھر اس کیبن کو محفوظ کرے۔کوٹ لکھپت اسٹیشن سے یاد آیا کہ جب ہم نے اپنے پچھلے کالم میں کوٹ لکھپت اسٹیشن پر بھارتی فضائیہ کی بمباری کا ذکر کیا تھا، تو ہمیں میو اسپتال و کنگ ایڈورڈ میڈیکل کالج شعبہ اونکالوجی (کینسر) کے سابق سربراہ پروفیسر ڈاکٹر شہریار کا فون آیا ، انہوں نے بتایا کہ جب 1971کی پاک بھارت جنگ ہو رہی تھی تو کوٹ لکھپت ریلوے اسٹیشن پر بمباری ہوئی تو وہ اس وقت اسٹیشن کے قریب تھے، انہوں نے بتایا کہ پہلے بھارتی طیارے ہنٹر نے گولیاں برسائیں۔ ان دنوں جو جہاز فضائیہ استعمال کرتی تھی تو ہدف یعنی ٹارگٹ کے لئے پائلٹ کو نیچی اڑان بھر کر نشانہ لینا پڑتا تھا۔ جب اس بھارتی طیارے نے گولیاں برسائیں تو لوگ ادھر ادھر بھاگے۔ کچھ لوگ اسٹیشن کے قریب کھیتوں میں بھاگ گئے اور کچھ ریلوے اسٹیشن کی عمارت کی طرف بھاگے۔ اسی اثنا میں اس بھارتی طیارے نے بہت بڑا بم پھینکا۔ ڈاکٹر شہریار کے مطابق ہم فوراً سٹیشن پر پہنچے اور کئی زخمیوں کو لاہور جنرل اسپتال اور دوسرے اسپتالوں کی طرف روانہ کیا۔ ڈاکٹر شہریار نے پاکستان میں پہلی مرتبہ کینسر کا بہت بڑا اسپتال بنایا ہے جہاں سو فیصد علاج مفت ہوتا ہے۔ یہ پانچ سو بستروں کا اسپتال ہے۔ بہت خدمت ِ خلق کر رہے ہیں۔ ہم کئی مرتبہ عرض کر چکے ہیں کہ لاہور کے تمام ریلوے اسٹیشن لاہور کے دیہاتی علاقوں میں تھے اور لاہور کے ہر طرف کھیت ہوا کرتے تھے۔ اب ہر طرف ہائوسنگ اسکیمیں ہیں۔ ایک زمانے میں ایسے لکڑی کے کیبن جن کی تکونی چھت کو بارش اور دھوپ سے بچانے کے لئے اُن کے چاروں طرف شیڈ ہوتے تھے اور پھر چاروں طرف کھڑکیاں جہاں سے کیبن مین چاروں طرف لائنوں پر نظر بھی رکھ سکتا ہے۔ چونے کی عمارتیں ہوتی تھیں۔ ہم نے ایسے بہت سے کیبن دیکھے تھے ،ان لکڑی کے کیبنوں کی دیکھ بھال نہ کی گئی اور ان کی جگہ اینٹوں کے بدنما کیبن بنا دیئے گئے۔

رائے ونڈ جنکشن ا سٹیشن پر اس کیبن روم میں جو لیورز لگے ہوئے ہیں ان کے نٹ بولٹ تک پر انگریزوں نے ابھرے ہوئے سن ڈالے ہوئے ہیں۔ ہمیں یہاں پر 1903,1908میں تیار کردہ نٹ بولٹ ان لیورز کو اپنی گرفت میں لئے ہوئے نظر آئے۔ ہم بہت دیر تک اس لکڑی کے خوبصورت کیبن میں رہے اور سوچتے رہے جب یہ سارا علاقہ جنگل اور کھیتوں سے بھرا ہوا ہو گا، تو یہ اسٹیشن اس ماحول میں کتنا خوبصورت لگتا ہو گا؟ یہ کوئی بہت زیادہ پرانی بات نہیں۔ صرف 60/50برس پرانی بات ہے۔ پھر ہم اس کیبن روم کے نیچے چلے گئے جہاں ان لیورز کے ذریعے کانٹا تبدیل کرنے کا پورا نظام لگا ہوا تھا۔ کسی بجلی اور گیس کی ضرورت نہیں۔ بدترین موسم میں بھی یہ نظام کام کرتا رہتا ہے، اب ریلوے والے جو نیا نظام لا رہے ہیں وہ بجلی کے ذریعے چلے گا اور اس کی دیکھ بھال بھی بہت زیادہ کرنا پڑے گی۔ ہمارے ہاں تو ہر بارش میں ہر ریلوے ا سٹیشن پر فٹ سے دو فٹ پانی کھڑا ہو جاتا ہے اور اس نئے سسٹم کے ہم نے جو بکس لگے ہوئے دیکھے ہیں وہ زمین سے صرف ایک فٹ اونچے ہیں۔ بقول بعض تجربہ کاروں کہ یہ سسٹم زیادہ دیرپا نہیں جبکہ انگریز کا یہ سسٹم مزید سو برس تک کام کر سکتا ہے۔ رائے ونڈ ا سٹیشن پر ہی نٹ بولٹ بنانے کی پاکستان کی سب سے بڑی فیکٹری ہے۔ پھر نٹ بولٹ باہر سے کیوں منگوائے جاتے ہیں؟ اس پر بات کریں گے تو ناگوار گزرے گی۔

انگریز واقعی بڑا سمجھ دار تھا۔ اس ریلوے اسٹیشن پر ایک جھوٹا ریلوے کا 4بستروں پر مشتمل اسپتال بھی ہے جہاں مسافروں اور ریلوے کے عملے کو علاج و معالجے کی سہولتیں حاصل ہیں۔ جب ہم چار بجے یہاں پہنچے تو پتہ چلا کہ اسپتال تو بند ہو چکا ہے حالانکہ اس اسپتال کو 24گھنٹے کھلا رہنا چاہئے۔

(جاری ہے)