نظریاتی ورثہ چھوڑنے والے رہنما مرا نہیں کرتے

September 05, 2021

جب جب کوئی استقامت کا پہاڑ بنا، وہ فلک بوس ضرور ہوا۔ کوئی چاہ کر بھی اسے سورج کی ابتدائی کرنوں اور چاند کی پہلی ٹھنڈی چاندنی سے محروم نہیں کر پایا۔ فطرت ہمیشہ چشمِ بینا کے حامیوں اور اصول پسندوں کی راہ میں آنکھیں بچھاتی رہی ہے! استقلال اور اخلاص کسی کنویں سے کئی دہائیاں پانی بھرتے رہیں، تو یہ غیرمعمولی بات ہے۔ سید علی گیلانی کا جانا اپنی جگہ دکھ کا دریچہ کھلنے کے مترادف ضرور ہے مگر وہ شخص جو کشمیریت کے فلسفہ اور حریت کے گلستان کا باغباں تھا یقیناً اس کے نظریہ کی نکہتیں اور اس کی بات کی وقعتیں تو کشمیر سے پورے عالم تک اپنا کمال و جمال رکھتی ہیں۔ جو لوگ عمر بھر نظریہ کی آبیاری کرتے ہیں، وہ جدا ہوکر بھی اتنی آسانی سے جدا کہاں ہوتے ہیں۔

اس شخص سے تعارف اس کی ’’رودادِ قفس‘‘ سے ہوا، وہ قفص کہ جس سے کبھی وہ نہ نکلے اور قفس ان سے نکلا، وہ روداد کہ جو عزم سے شروع اور کبھی بزم بن کر اور کبھی رزم بن عزم ہی پر ختم۔ 5 عشروں تک حریت کے نگہبان اور حامی پاکستان کا بھرم اور جدوجہد کا نظم رہنے والے سید علی گیلانی وہ استعارہ تھے جن کی عمل انگیزی کو کشمیری فضاؤں اور حریت کی ہواؤں سے سمیٹ کر دفن کرنا ممکن نہیں۔ یہ سمجھنا کہ اس باب کے بند ہونے سے مطالعاتی باب بھی اپنی انتہا کو پہنچا ، اسے خام خیالی کے علاوہ کچھ نہیں سمجھا جاسکتا۔ بھارتی عدم جمہوری رویوں اور اقوامِ متحدہ کے سلیقوں کو ازسرنو جائزہ لینا ہوگا۔ جسے آزادی دینی تھی اسے بھارتی آئین کی دفعات 370 اور 35(اے) کو سبوتاژ کرنے کا تحفہ دے کر تصور کر لیا گیا کہ انسانی حقوق اور انسانی حقوق کی علمبرداری اور حریت پسندی پر قابض ہوگئے، یہ عاقبت نااندیشی نہیں تو کیا ہے؟ کیا چشم فلک جو زخم زخم کشمیر کی روزانہ عکسبندی اقوامِ عالم اور عالمی قوتوں و عالمی ثالثوں کو بھیجتی ہے اس سے عالمی ٹھیکیداروں اور عالمی عدالتوں کی آنکھیں نہیں کھلتیں؟ بوسنیا میں کیا ہوا تھا اور فلسطین میں روز کیا ہوتا ہے؟ کیا ان زخموں پر مرہم رکھنے کے بجائے غور طلب جذبوں اور علاج کے منتظر گھاؤ بھرنے کے بجائے شرپسندوں کا اسلاموفوبیا کا خود ساختہ جن بوتل سے نکالنا درست اقدام ہے؟

حیرت نہیں ہوئی جب ایک جوہری توانائی کے حامل اکنامیکل چوک کا دعویٰ رکھنے والے اور روئے زمین پر جمہوریت کے سب سے بڑے دعویدار نے 92 سالہ شخص کی میت اور سچ پر مبنی حمیت کی توہین کی، لاشوں سے خوفزدہ اور لرزاں بھارتی نظام اور بھارتی آئین زندہ انسانوں سے میتوں تک کو گر انصاف فراہم نہیں کرسکتا تو اس کے سیکولرزم کا بھانڈا اور کتنی بار عالمی نظر کے سامنے پھوٹے؟ یا پھر عالمی نمبردار ہی بتائیں، کہ کتنے جنازوں کی بےحرمتی، انسانیت کی مزید کتنی تذلیل، کتنی عصمت دریوں کی تعداد، کتنی زباں بندی، کتنے جسموں کے چیتھڑوں کی اڑان، جوان سینوں کے گولیوں سے چھلنی ہونے کے مناظر اور بزرگی کی بےحرمتی اس کے میرٹ کی زنجیرِ عدل کو ہلانے کیلئے درکار ہے ؟


عالمی تجزیہ کاروں، امن کے نوبل انعام یافتگان، عالمی انصاف اور عالمی مشاہدات کے گڈ اور بیڈ عناصر ، پھر عالمی تنظیموں کے انسان دوست اہلکاروں اور آدم خور درندوں کو کب موقع میسر آئے گا کہ وہ جنوبی سوڈان ( 2011) اور مشرقی تیمور ( 2002) کے حالات و واقعات کی تحریک و تاریخ، پس منظر و پیش منظر ، ریفرنڈم اور خودمختاری کا موازنہ مقبوضہ جموں و کشمیر سے کرکے دیکھیں گے؟ وہ آسٹریلیا جس نے مشرقی تیمور کے ریفرنڈم اور خودمختاری کو تقویت اور فراہمی منزل تک پہچانے میں اہم کردار ادا کیا وہ آکر نہ سہی ڈیجیٹل طریقے ہی سے سہی، مقبوضہ جموں و کشمیر کی حالتِ زار کا کب منصفانہ جائزہ لے گا ؟ حد نہیں ہوگئی ادھر سید علی گیلانی کی روح نے پرواز کیا اور ادھر سیکورٹی فورسز نے حیدر پورہ میں ان کی قیام گاہ کے گرد حصار بنا لیا۔ ڈرونز اور ہیلی کاپٹروں کی نگرانی گویا کشمیر کا کوئی چھوٹا بڑا علی زندہ برداشت نہ مردہ برداشت، عید برداشت نہ عاشورہ برداشت، رمضان برداشت نہ شبِ قدر برداشت اور انسان برداشت نہ انسان دوستی برداشت۔ عدم برداشت کو ہوا دینے والے احمق اور انصاف دشمن اسے عالمی فلش پوائنٹ اور غضبناک آتش فشانی تک تو لے آئے ہیں اور کہاں تک لے جانے کا ارادہ ہے؟ بگاڑ کی انتہاؤں کو بناؤ کے فہم ہی سے حدود میں رکھنا ممکن ہوتا ہے! کیا اس ڈیجیٹل دور میں بھی جنازوں کو چھیننا اور شہریوں کو مذہبی رسومات سے دور رکھنا اقوام عالم کو نہیں جھنجوڑتا؟ حق رائے دہی جہاں کہیں بھی چھینی جائے، ریاست چھینے یا فرد یہ سنگین جرم ہے۔ بابا کی سوچ پر پہرے اور میت پر حصار محض اس لئے تھا کہ وہ فکری اعتبار سے سیدھے ، سادہ اور صاف گو تھے، وہ کشمیری ہونے پر فخرکیا کرتے اور پاکستانی کہلانے پر روحانی مسرتوں سے سرشار ہوتے، مقبوضہ پارلیمنٹ میں ہوئے یا ٹیبل ٹاک میں ، آزاد سانس لیتے یا پس دیوار زنداں ان کا مؤقف صاف اور شفاف تھا۔ ذہن نشیں رہے کہ، 1961 تا 1965 تک یو این ایمبیسڈر رہنے والے ادلائی سٹیونسن نے کہا تھا، میرے نزدیک آزاد سوسائٹی وہی ہے جہاں غیر معروف و نامعلوم آدمی بھی محفوظ ہو اور سقراط کا کہنا ہے اپنی تلاش کرو، اپنے متعلق سوچو!

تاریخ و تحریک کے طلبہ اس حقیقت سے بخوبی آشنا ہیں کہ آتش و آہن کی بو کو ناقابلِ برداشت گرداننے والوں اور امن کے پجاریوں کی راہ تکتے تکتے کشمیریوں کی آنکھیں پتھر تو نہیں ہوں ہوگی مگر انسانیت بےتابی سے منتظر رہے گی۔ انسانیت کو ازخود ایک مذہب یا کم از کم ایک فلسفہ کا نام دینے والے عالمی اشارے و شمارے و استعارے بھی جانے یہاں کیوں خاموش ہو جاتے ہیں، اس پر آکسفرڈ، ایم آئی ٹی، ہارورڈ، کیمبرج، سٹینفورڈ،میری لینڈ، میلبورن، ایچ ای سی پیرس، ذی جیانگ، دہلی، قائداعظم اور مظفرآباد جیسی یونیورسٹیوں کو زود فہم، گہری اور غیر جانبدار ریسرچ کرکے عالمی میڈیا پر پبلش کرنی چاہئے۔ عہد حاضر کا یہ سب سے بڑا سماجی و سیاسی و تہذیبی و انٹرنیشنل افیئرز سبجیکٹ مقبوضہ جموں و کشمیر ہی ہے، عالمی اداروں کے سنگ سنگ عالمی معیار کا رنگ رکھنے والی تحقیقی دانش گاہوں کو متذکرہ فیلڈ اور کشمیریات کے حوالے سے اپنی کریڈیبلیٹی کو تقویت بخشنی چاہئے! علم انسانی اظہار ، انسانی سہولت کاری، انسانیت کی بقا اور زندگانیوں سے آگاہ تحقیق کا نام ہے!