ڈائجسٹ: اُمید

September 19, 2021

آمنہ آفاق

خوب صُورت ،اسٹائلش ، ماڈرن طرز کے بنے آفس پر نظر دوڑانے کے بعد اس نے ایک نظر اپنے شکن آلود ہ لباس پر ڈالی، تو لباس سے زیادہ شکنیں اس کے ماتھے پر اُبھر آئیں ’’واہ رے مولا! تیری شان ،کسی کو اتنا دیا کہ بڑےبڑے بنگلے، عالی شان عمارتیں، دفاتر بنا لیے اور کسی کے پاس دو وقت کی روٹی کے بھی پیسے نہیں‘‘ایک شکوہ اُس کی زبان پر آیا ہی تھا کہ امّاں جی کی نصیحت کانوں میں گونجی ”شکوہ نہیں بیٹا! اللہ کا شُکر کرنا ہے، اس کی رضا میں راضی رہنا ہے پُتّر! تُو کیوں اپنی زبان کو شکووں سے آلودہ کرکے اپنی دنیا اور آخرت دونوں برباد کر دینا چاہتا ہے؟“ اس نے جلدی جلدی توبہ استغفارکی اور انٹرویو کے لیے ویٹنگ ایریا کی جانب قدم بڑھا دیئے۔

”پُتّر جی!!کیسا رہا انٹرویو؟“ امّاں جی نےمصلّے پر بیٹھے بیٹھےپوچھا۔ وہ وہیں ان کے پاس آکر نیم دراز ہو گیا۔ ایک شکوہ اس کی زبان پر آنے ہی والا تھا کہ امّاں جی کی نصیحتوں کے ڈر سے چُپ ہو گیا۔ ”بس آپ دُعا کر رہی ہیں ناں، کرتی رہیں…میری قسمت میں روزگار سے لگنا ہوگا ،تو لگ جاؤں گا۔ مجھے خود نہیں پتا، کب آئے گا وہ دن ، آئے گا بھی یا نہیں… “ آخری جملہ اُس نے بڑبڑاتے ہوئے ادا کیا، تو امّاں جی کے کانوں تک پہنچنے سے بچ گیا۔”ہاں بیٹا!ضرور ملے گی روزی روٹی ، میرے ربّ سوہنے کا کرم ہے، ہمیں آج تک بھوکا نہیں سُلایا ۔

بھلے سے دال روٹی ہی سہی، مگر دو وقت کی حلال روٹی میں بہت ذائقہ ہوتا ہے اور برکت بھی۔“ امّاں جی کی باتیں صبروشکر سے شروع ہوکر صبر و شکر ہی پرختم ہوجاتی تھیں۔وہ جانے کس مٹّی کی بنی تھیں۔ اب وہ امّاں جی کو کیا بتاتا کہ اس قدر تعلیم یافتہ ہونے کے باوجود بھی روزگار ملنا آسان نہیں کہ یہاں ترجیح قابلیت نہیں، ذاتی تعلقات ہیں۔ کبھی کوئی سفارش، تو کبھی رشوت اس کے روزگار کی راہ میں حائل ہو جاتی ہے۔ ایسے میں اماں جی سے اپنی مایوسی چُھپانا اس کے لیے مزید کٹھن ہو تاجا رہا تھا۔

”امّاں جی!انٹرویو کے لیےجا رہا ہوں، دُعا کیجیے گا کہ بات بن جائے ،ورنہ آج تو آ کر اپنی ساری ڈگریاںجلا دوں گا۔“ امّاں جی کے سامنے بہت احتیاط سے بولنے والا، آج غم و غصّے میں اپنا حوصلہ کھو بیٹھا تھاکہ وہ بار بار کی حوصلہ شکنی سے بہت تھک چُکا تھا۔” نہ پُتر جی! نہ… اب نہ جا،ایسی بات کرکے جانے سے، نہ جانا ہی بھلا۔“ امّاں جی کے پہلی بار اس طرح بات کرنے سے وہ شرم سار سا ہو گیا اور ان کےپاس دو زانو بیٹھ گیا،اسی اثنا چھوٹی بہن بھی بھائی کی فکر مند شکل دیکھ کر اُس کے پاس آ گئی۔ ”بیٹا تُو جانتا ہے کہ تیرے سارے مسئلوںکی جڑ صرف اور صرف تیری مایوسی اور نا اُمیدی ہے۔ تُو نے اپنے ربّ پر بھروساکرنا سیکھا ہی نہیں،اُس ربّ پر جو تُجھے مجھ سے بھی ستّر گُنا زیادہ چاہتا ہے۔

بس تیرا توکّل ہونا چاہیے کہ تیرا ربّ ہمیشہ تیرے ساتھ ہے،یاد رکھ! جب تیرا اس پر بھروسا مضبوط ہوگا، تو تُو اس کی محبت پائے گا ،اس کی تقسیم پر راضی رہے گا اور جو اپنے مالک کی تقسیم پر راضی ہوتا ہے ناں ، وہ اس کا قرب پاتا ہےاور بھلا اُس کے قرب سے بڑھ کرکوئی چیز ہوسکتی ہے؟“ ”امّاں! مگر مَیں جب بھی اپنے گھر کی خستہ حالی دیکھتا ہوں، تو دل خون کے آنسو روتا ہے، مَیں اپنی بہن تک کے لیے کچھ نہیں لا پاتا۔ سوچتا ہوں کہ میری بدقسمتی کی وجہ سے یہ کہیں گھر ہی نہ بیٹھی رہ جائے۔

”تیری بدقسمتی کی وجہ سے نہیں بیٹا،مایوسی کی وجہ سے۔ مجھے بتا !آخر تُو اتنا مایوس کیوں ہے؟اس بار پکّا یقین، پکّا عقیدہ کر کے جا کہ ربّ تیرے ساتھ ہےاور تُو ہر حال میں اس کے ہر فیصلےپر راضی رہے گا۔ آزمائشیں ربّ کا قرب حاصل کرنے کے لیے ہی آتی ہیں۔ اپنی ماں کو دیکھ جوانی ہی میں بیوگی کی چادر اوڑھی تو کوئی راستہ ہی نہیں سُجھائی دیتا تھا۔ بس پھرربّ کا سہارا لیا اور دیکھ ،وہ مشکل دَور کس قدر آسانی سے گزر گیا۔ ایک رات بھی ہم بھوکے نہیں سوئے، تُونے اعلیٰ تعلیم حاصل کی، چھوٹی تعلیم مکمل کر رہی ہے، یہ سب میرے اللہ کا کرم نہیں تو اور کیا ہے۔‘‘

آج امّاں جی کی ہر بات نے اسے لاجواب کر دیا تھا۔ اور اب وہ ایک نئے حوصلے کے ساتھ انٹرویو کے لیے تیار تھا۔ امّاں جی کی نصیحتوں اور اس کے عزم و حوصلے کے سبب آفس کا ائیر کنڈیشنڈ ویٹنگ رُوم اُسے تازگی بخش رہا تھا۔ آج پہلی مرتبہ انٹرویو کے لیے آئے امیدواروں کی لمبی قطار دیکھ کر بھی وہ پریشان نہیں ہورہا تھا، پُرامید تھا۔

وقت گزرتا جا رہا تھا، وہ اپنی باری کا منتظر تھا۔آہستہ آہستہ امیدوار کم ہوتے جارہے تھے ،کچھ بڑبڑا کر اِدھر اُدھر ٹہل کر واپس جگہ پر بیٹھ جاتے اور کچھ ٹہلتے ہی چلے جاتے۔ اس کے دل کی دھڑکنیں تیز ہو رہی تھیں، لیکن آج وہ پختہ ایمان کے ساتھ آیا تھا، اس لیے نا امید نہیں تھا۔

پھر ماں کی نصیحت بھی اس کو مایوسی کا شکار نہیں ہونے دے رہی تھی۔ تین گھنٹے ایک ہی جگہ پر بیٹھے بیٹھے اس نے کتنی ہی دُعائیں پڑھ ڈالیں۔”عجیب تماشابنایا ہوا ہے ان لوگوں نے“ پاس بیٹھے نوجوان نے اُٹھتے ہوئے سرگوشی کی تو وہ بس سر ہلا کے رہ گیا۔ اُسے یہ جاب بھی ہاتھ سے جاتی محسوس ہو رہی تھی، اب وہ بالکل تنہا رہ گیا تھا۔

اتنے میں انٹر کام پر بیل ہوئی، ”مسٹردانش! آپ کو اندر بلایا ہے“ استقبالیہ پر بیٹھی لڑکی نے اُسے مخاطب کیا، تو وہ دھڑکتے دل کے ساتھ اُٹھ کر اندر چل دیا۔ اندر کا ماحول اے سی کی ٹھنڈک اور رُوم اسپرے کی پُر فریب مہک نے مسحورسا کر رکھا تھا۔سامنے بیٹھے دونوں نفوس بہترین شخصیات کے مالک تھے۔”جی مسٹر دانش! آپ کی فائل ہم نے دیکھ لی ہے۔ باقی آپ کی صلاحیتیں اور کارکردگی ہمیں تب پتاچلے گی ،جب آپ مکمل ایمان داری سے اپنے فرائض سرانجام دیں گے“ ”کیا مطلب سر؟ مَیں کچھ سمجھا نہیں…؟؟ “

اُسے جیسے اپنی سماعتوں پر یقین ہی نہیں آرہا تھا۔ اٹکتےاٹکتے پوچھا تو مینیجر نے اُس کی جانب مُسکرا کر دیکھتے ہوئے کہا ”آپ کا سلیکشن ہوگیا ہے دانش صاحب! آپ کل سے آفس جوائن کر سکتے ہیں“ اس کی سانس جیسے بحال ہوئی ”مگر سر…! میرا انٹرویو…؟؟ “ اس نے کچھ کہنے کے لیے تمہید باندھی۔ ”دیکھیے مسٹر دانش! ہمارے ادارے کی شروع ہی سے یہ کوشش رہی ہے کہ ہم کسی قابل اور سیلف میڈ نوجوان کو ہائر کریں، آپ کا تعلیمی ریکارڈ کافی متاثر کُن ہےاور جتنی دیر آپ نے انٹرویو کا انتظار کیا، اس سے یہ صاف ظاہر ہے کہ آپ ضرورت مند بھی ہیں، تو ہم نے یہ طے کیا ہے کہ یہ جاب آپ ہی کو دی جائے ۔

آپ کے پاس تعلیم ، قابلیت ہے، بس تجربہ نہیں ،تواِن شاء اللہ یہاں کام کرکےآپ کوتجربہ بھی حاصل ہو جائے گا اور آگے بڑھنے کے مواقع بھی ملیں گے۔“ مینیجر نے بات مکمل کی تو وہ اپنے اندر گہرا سکون محسوس کر رہا تھا۔ اظہارِ تشکّر سے آنکھیں لبریز تھیں۔ اس نے دونوں مہربانوں کا شکریہ ادا کیا اورکمرے سے باہر نکل آیا۔

واپس جاتے ہوئے وہ بس یہی سوچ رہا تھا کہ اللہ پاک کیسے اپنے بندوں کے لیے آسانیاں پیدا کرتا اور مشکلات سے نکلنے کے راستے بناتا ہے۔ وہ ربّ ہمیں آزماتا تو ہے، لیکن آزمایش میں کبھی تنہا نہیں چھوڑتا۔ ہم ہی نا شُکرے ہیں، جو آزامایش کی رات ذرا طویل ہونے پر طلوعِ آفتاب کی اُمید چھوڑ دیتے ہیں، ایک پَل کے لیے بھی یہ نہیں سوچتے کہ جو ربّ سمندر کی سات گہرائیوں اور زمین کے اندر بسنے والی مخلوق تک سے بے خبر نہیں، وہ اشرف المخلوقات کے آنسوؤں سے کیسے بے خبر رہ سکتا ہے۔