صدر اردوان اور طالبان

September 15, 2021

یہ حقیقت ہے کہ امریکہ کے مسلسل جنگوں میں شکست سے دوچار ہونے کے بعد عالمی توازن تبدیل ہو کر رہ گیا ہے اور اس نئے عالمی تواز ن میں ترک صدر اردوان کی انتھک محنت اور اقتصادی، دفاعی صنعت اور ڈرونز کی تیاری میں دنیا کےطاقتور ترین ممالک کی صف میں شامل ہوچکا ہے جس کی وجہ سے دنیا کے کئی ایک ممالک اور خاص طور پر اسلامی ممالک اردوان کو اپنے لئے نجات دہندہ خیال کرنے لگے ہیں۔ دفاعی صنعت اور ڈرونز کی تیاری میں ترکی اس قدر آگے نکل چکا ہے کہ روسی میڈیا ترکی کی دفاعی صنعت اور ڈرانز کے بارے میں تعریفیں کرتے ہوئے نہیں تھکتا۔ ترکی کے ڈرونز کی وجہ سے آذربائیجان نے جو جنگ جیتی ہے اس کے بعد دنیا کو اس بات کا احساس ہوچکا ہے کہ اب بڑے اور جدید طیاروں کی جگہ مستقبل میں جنگ کا پانسہ ان ڈرونز کی وجہ سے ہی پلٹا جاسکے گا۔

طالبان کے ہمیشہ ہی سے ترکی اور صدر اردوان سے گہرے تعلقات رہے ہیں اور طالبان صدر اردوان سے بہت متاثر بھی دکھائی دیتے ہیں۔ ترکی کی افغانستان کے سابق صدر اشرف غنی کے دور میں بھی بڑی قربت رہی اور افغان باشندے اگر آج بھی ترکی اور صدر اردوان کے گن گاتے دکھائی دیتے ہیں تو اس کی سب سے بڑی وجہ افغانستان کےساتھ ترکی کے تاریخی تعلقات ہیں جو موجودہ دور میں بھی اسی طرح قائم ہیں۔ اب طالبان کے برسر اقتدار آنے کے بعد بھی ان تعلقات میں ذرہ بھر کوئی فرق نہیں آیا بلکہ اب طالبان ترکی کے ساتھ اپنے تعلقات کو مزید فروغ دینے کیلئے حکومت ِترکی سے مسلسل رابطے میں ہیں۔ صدر اردوان اور ان کے ساتھی طالبان کو مشکلات سے نکالنے اور کابل کے ہوائی اڈے کو بین الاقوامی پروازوں کے لئے کھلا رکھنے کیلئے ہر طرح کا تعاون بھی فراہم کر رہے ہیں۔ اگر طالبان کو اپنے وجود کو برقرا راور دنیا کے ساتھ رابطہ قائم رکھنا ہے تو صدر اردوان اور ان کی حکومت اس وقت طالبان کے لئے پل کا کردار ادا کرسکتی ہے لیکن اس کے لئے طالبان کو صدر اردوان کے مشوروں پر عمل کرنا ہوگا کیونکہ وہ اس بار طالبان کو کامیاب ہوتے دیکھنا چاہتے ہیں۔ طالبان کو چاہئے کہ وہ صدر اردوان کے مشوروں پر عمل کرتے ہوئے افغانستان میں ایک ایسی حکومت قائم کریں جس پر دنیا کو کوئی اعتراض نہیں ہو۔ طالبان کو موجودہ حالات میں کامیابی کے لئے اپنی پرانی روش سے باز رہنا ہوگا۔ طالبان اچھی طرح جانتے ہیں کہ ترک صدر اردوان ترکی ہی کے ایک مدرسے ’’امام خطیب مدرسے‘‘سے تعلیم یافتہ اور اسی وجہ سے مذہب اسلام پر بڑی سختی سے کاربند ہیں۔ وہ عالمِ اسلام کے دیگر تمام رہنمائوں سے اس لئے بھی مختلف ہیں کہ وہ عالمِ اسلام کی خدمت کرنے کو اپنا ا وڑھنا بچھونا سمجھتے ہیں جبکہ دیگر اسلامی رہنما اپنے اقتدار کی بقا کے لئے مغرب کی خدمت کرنا اپنا فرض سمجھتے ہیں۔

یہ حقیقت ہے کہ طالبان کو دنیا سے رابطہ قائم کرنے کے لئے کابل کے ہوائی اڈے کو مستقل بنیادوں پر کھلا رکھنے کی ضرورت ہے اور ترکی اس سلسلے میں قطر کے ساتھ مل کر ہوا ئی اڈے کے نظم و نسق کو سنبھالے ہوئے ہے۔ ترکی ہر لحاظ سے اس ہوائی اڈے کو نہ صرف چلانے کی بھر پورصلاحیت رکھتا ہے بلکہ اس ہوائی اڈے کی سیکورٹی ( جس کے بارے میں اندرونی طور پر مذاکرات جاری ہیں ) نظم و نسق کی ذمہ داری حاصل کرنے کے لئے پہلے ہی درخواست کرچکا ہے اور طالبان اس پر سنجیدگی سے غو ر بھی کررہے ہیں کیونکہ طالبان اس بات سے بخوبی آگاہ ہیں کہ ترکی ہی ایک ایسا ملک ہے جس پر افغانستان کی تمام نسلوں سے تعلق رکھنے والے افراد بھر پور اعتماد کرتے ہیں۔ افغانستان کے معاملے میں ترکی کو دنیا کے تمام ممالک پر برتری حاصل ہےکیونکہ اس نے نیٹو کے افغانستان میں قیام کے دوران ایسی خدمات سر انجام دی ہیں جو نیٹو کا کوئی بھی ملک سرانجام نہیں دے سکا۔ ترک فوجیوں کی جس طرح پشتون، تاجک، ہزارہ اور ازبک آئو بھگت کرتے رہے، اس کی کوئی مثال نہیں ملتی۔یعنی دوسرے معنوں میں افغانستان کےعوام صدر اردوان اور ترکی کے گرویدہ ہیں ، طالبان بھی ترک صدر اردوان کو کسی صورت ناراض نہیں کرسکتے اور صدر اردوان کی عالمِ اسلام پر گرفت اور ہر دلعزیزی کی وجہ سے دنیا سے اپنی حکومت تسلیم کروانے کے لئے وہ صدر اردوان ہی کے محتاج ہوں گے۔ صدر اردوان واضح طور پر کہہ چکے ہیں کہ طالبان کے اپنے ملک کے رسم و رواج ہیں اور وہ اپنے قومی رسم و رواج ہی کی پیروی کرنے اور مذہبی معاملات اور انسانی حقوق کی پامالی سے گریز کرتے ہوئے تمام مسائل کو حل کرنے کی کوشش کریں کیونکہ اسی طریقے سے وہ دنیا میں اپنی بات کہنے اور منوانے کے قابل ہوسکتے ہیں۔ طالبان کو بھی اس بات کا احساس ہے کہ صدر اردوان سے بہتر ان کو کوئی مشورہ نہیں دے سکتا۔