پی ٹی آئی نے مہنگائی پر قابو پالیا تو پنجاب بھی مٹھی میں ہوگا

September 16, 2021

انٹیلی جنس سربراہوں نے اسلام آباد میں ہونے والے اس اہم اجلاس میں شرکت کی ان میں چین ،روس ،ایران ،ازکستان ،قازکستان ، تاجکستان، ترکمانستان شامل تھے۔ اس اجلاس میںافغانستان کی صورتحال پر تفصیلی غور کیا گیا ،بھارت کی غیر ضروری سرگرمیوںسے متعلق پاکستانی تحفظات کا بھی جائزہ لیا گیا اور خطے میں دہشت گردی کی کارروائیوںکو روکنے کیلئے باہمی تعاون کا بھی فیصلہ کیا گیا اور دوسرے کو خفیہ اطلاعات بھی فراہم کرنے پر اتفاق کیا گیا۔

اس وقت بھارت بالکل تنہا ہے اس کے اتحادی بھی اس کا ساتھ نہیںدیتے نظر آرہے ، طالبان نے اب تک جو اقدامات کئے ہیںوہ عالمی توقعات کے مطابق کئے ہیں ماضی کے ان کے طرز عمل کے برعکس ہیںاس وقت افغانستان شدید مالی بحران کا شکار ہے عوام غذائی قلت کا بھی شکار ہیں پاکستان واحد ملک ہے جو فوری طور پر مصیبت میں گہرے افغان عوام کی مدد کر رہا ہے کئی جہاز کھانے پینے کی اشیا ء لے کر افغانستان کے مختلف شہروں میں پہنچا رہے ہیں۔

مگر پاکستان تنہا ان کی ضروریات پوری نہیںکر سکتا اس لئے پاکستان اقوام متحدہ امریکہ ، برطانیہ اور دیگر ممالک پر زور دے رہا ہے کے افغان عوام کو تنہا نہ چھوڑے ان کی بھر پور مدد کریں بلخصوصافغانستا ن کے منجمند 9ارب ڈال انہیں فراہم کئے جائیںنہیںتو افغان عوام فاقہ کشی کا شکار ہو جا ئیں گے اور انارکی پھیلے گی افغانستان عدم استحکام کا شکا ر ہو جائے گا۔

پاکستان میںسیاسی صورتحال کا تجزیہ کیا جائے تو ایک طر ف بھارت افغانستان میںپاک فوج کی مداخلت کا ڈھنڈورا پیٹرہا ہے دوسری طرف بھارت کے اس بیانیہ کو مسلم لیگ (ن)کی نائب صدر مریم نوا ز نے یہ بیان دے کر تقویت دے دی ہے کہ پاکستان کوافغانستا ن میںمداخلت نہیںکر نی چاہئے اور افغان عوام کو ہی اپنے مستقبل کا فیصلہ کرنا چاہئے ۔

مریم نوا زصاحبہ کو شاہد اس بات کا ادراک نہیںکہ پاکستانی عوام بھارت نواز بیانات کو بالکل پسند نہیں کرتے پاکستانیوںکا یہ حال ہے کہ وہ کرکٹ،ہاکی اور دوسری گیموں کے بھارت کے ساتھ مقابلے کو زندگی موت کا مسئلہ بنا لیتے ہیںاسی بیانیہ کی وجہ سے مسلم لیگ (ن)کو آزاد کشمیر میںزبر دست شکست کا سامنا کرنا پڑا ، ان دنوں طویل عرصہ کے بعد پی ڈی ایم نے حکومت کے خلاف جلسے جلوس نکالنے کا سلسلہ شروع کیا ہے مولانا فضل الرحمٰن نے حکومت کے خلاف دوبارہ تحریک شروع کر دی ہے مگر اس تحریک کے کامیابی کے امکانات بہت کم دکھائی دیتے ہیںکیوں کہ پیپلزپارٹی اور مسلم لیگ (ن)کے لیڈر آپس میں لڑ رہے ہیںاور ایک دوسرے کو اسٹیبلشمنٹکا حمایتی قرار دے رہے ہیں۔

مسلم لیگ (ن)،جے یو آئی پیپلزپارٹی کے درمیان محاز آرائی اس قدر بڑھ گئی ہے کہ پیپلزپارٹی والے ن لیگ اور مولانا فضل الرحمٰن کے خلاف تابڑ توڑحملے کر رہے ہیں ،اور یہ دونوںجماعتیں پیپلزپارٹی پر اسٹیبلشمنٹ کے ساتھ تعاون کے الزامات لگا رہے ہیں ، بلاول بھی انہیں منافق قرار دے رہے ہیں، پی ڈی ایم میںابھی وہ قوت نہیں کہ وہ عمران حکومت کو گرا سکیں اور نہ ہی مسلم لیگ (ن )کی قیادت آئندہ الیکشن سے پہلے عمران یا بزدار حکومت کو گرانا چا ہتی ہے مسلم لیگ ن کی قیادت دو دھڑوں میں تقسیم ہے ایک دھڑا میاں شہباز شریف اور دوسرا دھرا مریم نوا ز کے ساتھ ہے اب ان دونوںدھڑوںکے بیانات بھی ایک دوسرے کے خلاف سامنے آنا شروع ہو گئے ہیں۔

مولانا فضل الرحمٰن نے یہ بیان دیا ہے کہ وہ اب اسلام آباد میںدھرنا دیں گے۔دیکھنا یہ ہے کہ یہ دھرنا کس حد تک کامیاب ہو گااور کیا اس دھرنے کی وجہ سے حکومت گھر چلی جائے گی ، پہلی بات یہ ے مولانا فضل الرحمٰن فوری طور پر الیکشن چاہتے ہیںجبکہ پی ڈی ایم میںشامل بڑی جماعت مسلم لیگ ن فوری الیکشن کی حامی نہیں،پیپلز پارٹی کے چیئرمین بلاو ل بھٹو زرداری جنوبی پنجاب کے دورے سے پرامید ہیںکہ کم از کم جنوبی پنجاب میںان کو کچھ سیٹیں مل جائیںجبکہ سینٹرل پنجاب میںپیپلزپارٹی ابھی اس پوزیشن میںنہیںآئی۔

بلاول بھٹو نے یہ بیان دیا ہے کہ وہ اب دوستوںپر نہیںجیالوںپر انحصار کریں گے کاش اس بات کا احساس انہیں بہت پہلے ہو جاتا تو پیپلزپارٹی کیلئے بہتر ہوتا ،پنجاب میں قمر زمان قائرہ اور چوہدری منظور کو پارٹی کو منظم کرنے کی ذمہ داریاں سونپی گئیں تھی نہ وہ ناراض جیالوں کو راضی کر سکے اور نہ ہی وارڈکمیٹیوںکی سطحپر وہ تنظیمیںبنا سکے وہ بری طرحناکام ہوئے انہوںنے لاہور ،اسلام آباد اور لالہ موسیٰ تک اپنے آپ کو محدود رکھا کسی ضلع یا تحصیل میںپیپلز پارٹی کی وارڈکمیٹیاں نہیں بنائی گئی جو پیپلزپارٹی کا طرہ امتیاز تھا دیکھنا یہ ہے کہ راجہ پرویز اشرف آئندہ انتخابات سے پہلے سینٹرل پنجاب میںپارٹی کو کیسے منظم کرتے ہیں،بلاول بھٹو کی کوشش ہے کہ جہانگیر ترین کو کس طرح کر اپنے ساتھ ملا لیں اور جنوبی پنجاب میںکچھ نشستیں حاصل کر لیں ۔

دیکھنا یہ ہے کہ بلاول بھٹواب کس حد تک کامیاب ہوتے ہیں، وزیر اعظم عمران خان بڑے بڑے منصوبوںپر بھر پور توجہ دے رہے ہیںان کے دور میںدو ڈیموںپر کام شروع ہونےکا فیصلہ اور ان کی تکمیل تاریخی حیثیت کی حامل ہو گی۔ مگر وزیر اعظم عمران خان کی اپوزیشن صرف مہنگائی ہے اگر مہنگائی پر قابو پا لیں تو تحریک انصاف پنجاب سے اچھی نشستیں حاصل کر سکتی ہیںاور پنجاب انکی مٹھی میں آسکتا ہے ۔ اگرچہ عوام نے مہنگائی کے باوجود آزاد کشمیر اور گلگت بلتستان میںتحریک انصاف کو کامیاب کیا اس کی بڑی وجہ امریکہ کوا ڈے دینے کیلئے امریکہ کے سخت دبائو کے سامنے ڈٹجانا کشمیر کے حوالے سے بھارت کے خلاف سخت موقف کو اختیار کرنا ہے۔

وزیر اعظم عمران خان کو چاہئے کے ان کے دوررس نتائج کے منصوبوں کا ملک کو آئندہ فائدہ ضرور ہو گامگر عوام کی سہولتوںکیلئے فوری اقدامات بھی ضروری ہیںجن میںمہنگائی کو کنٹرول کرنا سرفہرست ہے ۔موجودہ حکومت نے ہیلتھ کارڈ ،کسانوںاور جوانوںکو قرضہ دینے کی سکیمیںشروع کیںہیںدیکھنا یہ ہے کہ ان سکیموں پر کس حد تک عمل ہوتا ہے ،اس بات پر بھی کڑی نظر رکھنے کی ضرورت ہے کہ کیا یہ قرضہ غریبوںسے رشوت کے طو ر پر پیسے لے کر دیئے جائیں گے یا بے روز گار نوجوانوں اور کسانوںکو از خود قرضہ مل جائے گا۔

وزیر اعلیٰپنجاب سرادار عثمان بزدار کو تاخیر سے با اختیار وزیر اعلیٰ بنایا گیا ہے تین سال تک تو ان پر تلوار لٹکتی رہی کہ پتہ نہیںوہ وزیر اعلیٰ ر ہیں گے یہاں نہیںیہ ہی وجہ ہے کہ بیوروکریسی بھی ان کے ساتھ تعاون نہیںکر تی تھی اور نہ ہی ان سے ڈرتی تھی ، وزیر اعلیٰ پنجاب نے اب بڑے پیمانے پر کام شروع کیا ہے اور انہوں نے جنوبی پنجاب اور سینٹرل پنجاب میں بہت سے منصوبے شروع کئے ہیںاب دیکھنا یہ ہے کہ کیا اب یہ منصوبے آئندہ الیکشن سے پہلے مکمل ہوتے ہیںاور کیا ان کے ثمرات عوام تک پہنچتے ہیںیا نہیں ادھر حکومت اور چیف الیکشن کمشنر کے درمیان جنگ شروع ہو گئی ہے۔

اس کا آغاز الیکشن کمیشن کی طرف سے الیکٹراونک ووٹنگ سسٹم کے مسترد ہونے کئے جانے کے بعد، گزشتہ دنوںقائمہ کمیٹی برائے پارلیمانی امور کے اجلاس میںحکومت کی طرف سےچیف الیکشن کمشنر اور ممبران پر سخت الزامات لگائے گئے جن کی وجہ سے حکومت اور الیکشن کمیشن کے درمیان تصادم کی صورت پیدا ہو گئی اجلاس میں وفاقی وزیر برائے ریلوے اعظم ہوتی نے سنگین الزامات لگاتے ہوئے کہا کہ چیف الیکشن کمشنر کے نواز شریف سے قریبی رابطے رہے ہیںاور الیکشن کمیشن اپوزیشن ماوتھ پیس بن گیا ہے انہوں نے پیسے پکڑ لئے ہیںان کی غیر جانبداری بری طرح متاثر ہوئی لہذا چیف الیکشن کمشنر استعفیٰ دیں جس پر الیکشن کمیشن کے ارکان اجلاس سے احتجاجاًواک آئوٹ کر گئے ۔