حُسنِ خُلق سیرتِ طیبہ کا امتیازی وصف

September 17, 2021

ڈاکٹر اقبال احمد اختر القادری

حضور اکرم ﷺ سے کسی نے عرض کیا، یارسول اﷲ ﷺ! دین کیا ہے؟ آپ ﷺ نے ارشاد فرمایا’’حُسن خُلق ‘‘پھر وہ شخص دائیں طرف سے آیا اور عرض کیا، یا رسول اﷲ ﷺ! دین کیا ہے؟ آپﷺ نے ارشاد فرمایا ’’حُسن خُلق‘‘ پھر وہ بائیں طرف سے آیا اور عرض کیا، یارسول اﷲ ﷺ ! دین کیا ہے؟ رسول اللہ ﷺنےارشاد فرمایا: ’’حُسن خُلق‘‘۔جب حبیب کریم ﷺ سے عرض کیا گیا، یا رسول اﷲﷺ !حُسن خُلق کیا ہے؟ تو آپﷺ نے یہ آیتِ مبارکہ تلاوت فرمائی: ’’معاف کرنے کو اپنے اوپر لازم کرلو،اور نیکی کا حکم دو اور جاہلوں سے اعراض کرو‘‘۔ پھر ارشاد فرمایا: حُسن خُلق یہ ہے کہ تو قطع تعلق کرنے والوں سے صلۂ رحمی کرے جو تجھے محروم کرے، تو اسے عطا کرے اور جو تجھ پر ظلم کرے تو اسے معاف کردے۔حسنِ خُلق ہی درحقیقت اسوۂ حسنہ کا اہم پہلو اور سیرتِ طیبہ کا امتیازی وصف ہے۔

امُ المومنین حضرت عائشہ صدیقہ ؓسے روایت ہے، انہوں نے فرمایا،’’آپﷺ کا خُلق قرآن پاک ہے‘‘۔ اﷲ تعالیٰ اپنے حبیب مکرم ﷺ کی تعریف فرماتے ہوئے قرآن پاک میں ارشاد فرماتا ہے: اور بے شک، تمہاری خوبو(خُلق) بڑی شان کی ہے۔

حضور اکرم ﷺ نے فرمایا: میں اس لیے بھیجا گیا ہوں کہ عمدہ اخلاق کو پایۂ تکمیل تک پہنچائوں اور قیامت کے دن میزانِ اعمال میں سب سے بھاری چیز خوفِ خدا اور حُسن خُلق ہوگا۔

ایک مرتبہ سرکارِدو عالم ﷺ سے عرض کیا گیا کہ یا رسول اﷲ ﷺ ! ’’نحوست‘‘ کیا ہے؟ ارشاد فرمایا ’’بدخُلقی‘‘ کسی نے عرض کیا،مجھے نصیحت کیجیے۔ ارشاد فرمایا ’’جہاں بھی رہو، اﷲ تعالیٰ سے ڈرتے رہو‘‘ اس شخص نے عرض کیا، مزید کچھ ارشاد فرمائیے، فرمایا ’’ہربرائی کے بعد نیکیاں کرو، کیوں کہ نیکیاں بُرائیوں کو مٹادیں گی‘‘۔ اس شخص نے عرض کیا، مزید کچھ ارشاد فرمائیے،حضور اکرم ﷺ نے فرمایا ’’لوگوں سے حُسن سلوک کرو اور حُسن خُلق سے پیش آؤ‘‘۔

حضرت عبداﷲ بن عمرؓ سے مروی ہے حضور اکرم ﷺ اکثر یہ دعا فرمایا کرتے تھے،’’اے اﷲ! میں تجھ سے صحت، سلامتی اور حُسن خُلق کا سوال کرتا ہوں‘‘۔

حضرت اُسامہ بن شریکؓ سے مروی ہے کہ میں اعرابیوں کی مجلس میں حاضر ہوا تو میں نے دیکھا کہ وہ حضور ﷺ سے پوچھ رہے تھے کہ انسان کو عطا شدہ بھلائیوں میں سے کون سی بھلائی عمدہ ہے؟ حضور اکرم ﷺ نے ارشاد فرمایا: ’’حُسن خُلق‘‘۔

تاج دارِدو عالم ﷺ نے ارشاد فرمایا: ’’قیامت کے دن مجھے سب سے زیادہ محبوب اور مجھ سے قریب تر وہ لوگ ہوں گے جو تم میں سب سے بہترین خُلق رکھتے ہیں‘‘۔

حضرت فضیلؓ سے روایت ہے کہ حضور ﷺ سے عرض کیا گیا کہ فلاںعورت رات کو عبادت کرتی ہے، دن کو روزہ بھی رکھتی ہے، مگر وہ بد خُلق ہے،اپنی باتوں سے ہمسایوں کو تکلیف دیتی ہے۔فرمایا ’’اس میں بھلائی نہیں، وہ جہنمیوں میں سے ہے‘‘۔

حجۃ الاسلام امام غزالیؒ حضرت ابوالدرداءؓ سے مروی روایت نقل فرماتے ہیں کہ میں نے رسول اﷲ ﷺ کو یہ ارشاد فرماتے سنا: سب سے پہلے میزانِ عمل میں حُسن خُلق اور سخاوت رکھی جائے گی، جب اﷲ تعالیٰ نے ایمان کو پیدا فرمایا تو اس نے عرض کیا، اے اﷲ! مجھے قوت عطا فرما، تو اﷲ تعالیٰ نے اسے حُسن خُلق اور سخاوت سے تقویت دی، جب اﷲ تعالیٰ نے کُفر کو پیدا فرمایا تو اس نے عرض کیا، الٰہی مجھے قوت عطا کر، تو اسے بُخل اور بدخُلقی سے تقویت بخشی گئی۔

حضور اکرم ﷺ سے دریافت کیا گیا: کون سے مومن کا ایمان افضل ہے؟ حضور علیہ السلام نے ارشاد فرمایا ،جس کا خُلق سب سے بہتر ہوگا۔ ایک موقع پر ارشاد فرمایا کہ بلا شبہ، اگر تم لوگوں کی، مال و دولت کے ذریعے امداد نہیں کرسکتے تو ان کی خندہ پیشانی اور حُسن خُلق سے مدد کرو، نیز فرمایا، بدخُلقی اعمال کو اس طرح ضائع کردیتی ہے، جیسے سرکہ شہید کو خراب کردیتا ہے۔

حضرت ابوہریرہؓ سے مروی ہے کہ میں نے رسول اﷲ ﷺ سے سنا‘ آپﷺ نے ارشاد فرمایا، انسان کی شرافت اس کا دین ہے، اس کی نیکی حسن خلق ہے اور اس کی مروت اس کی عقل ہے۔

حضرت ابن عباس ؓ سے مروی ہے کہ حضور اکرم ﷺ نے فرمایا، تین خصلتیں ہیں،جس شخص میں وہ تینوں یا ان میں سے ایک پائی جائے، اس کے کسی عمل کو شمار میں نہ لانا، پرہیز گاری جو اﷲ تعالیٰ کی نافرمانی سے باز رکھتی ہے،حلم جس سے وہ بے وقوف کو روک دیتا ہے، حُسن خُلق جس سے متصف ہو کر وہ زندگی بسر کرتا ہے۔

حضرت جریر بن عبداﷲ ؓ سے مروی ہے کہ حضور تاجدار دوعالم ﷺ نے فرمایا: بے شک تم ایسے جوان ہو کہ اﷲ تعالیٰ نے تمہاری خلقت کو بہترین کیا ہے،لہٰذا تم اپنا خُلق بہترین کرو۔ حضرت براء بن عازبؓ سے مروی ہے حضور اکرم ﷺ عام لوگوں سے زیادہ خوب صورت اور بہترین خُلق کے حامل تھے۔

حضور انور ﷺ سے دریافت کیا گیا کہ انسان کی زیب و زینت کس بات میں ہے؟ آپﷺ نے فرمایا: کلام میں نرمی، کشادہ روئی اور خندہ پیشانی کا اظہار۔جو شخص لوگوں سے احسان کرتا اور حُسن خُلق سے معاملہ رکھتا ہے، ایسا انسان لوگوں کو گوارا اور پسند رہتا ہے، لوگ جگہ جگہ اُس کی تعریف کرتے ہیں اور یہی اس کے حُسن خُلق کی دلیل ہے۔

آج ہمارا معاشرہ جن حالات سے دو چار ہے، ایسے میں حُسن خُلق کی اشد ضرورت ہے، حُسن خلق کے ذریعے نفرتوں کو محبت میں تبدیل کیا جاسکتا ہے۔ عداوتوںکو اُلفتوں میں بدلا جاسکتا ہے، دوریوں کو نزدیکیوں میں اور عصبیتوں کو چاہتوں میں ڈھالا جاسکتا ہے،دہشت گردی اور دشمنی کے بُتوں کو گرا کر امن و بھائی چارہ قائم کیا جاسکتا ہے۔ ظالم پر کرم کرکے حُسن خُلق کی بدولت سکون حاصل ہوسکتا ہے۔ حُسن خُلق کے ذریعے قطع تعلق کرنے والوں سے تعلقات استوار کیے جاسکتے ہیں۔ اسی مثالی عمل سے اپنے گناہوں کو نیکیوں میں بدلا جاسکتا ہے۔