انوکھا لاڈلا کھیلن کو مانگے چاند

July 30, 2013

انوکھا لاڈلا جب چھوٹا تھا تب کھیلنے کے لئے چاند مانگتا تھا۔ یہ بات گلی کوچوں میں اس قدر مشہور ہوگئی کہ اڑوس پروس کے لوگ جب بھی انوکھے لاڈلے کو دیکھتے تو تالیوں کی تھاپ پر کورس میں گااٹھتے تھے، انوکھا لاڈلا کھیلن کو مانگے چاند ۔ یہ بول اس قدر مقبول ہوئے کہ گلی کوچوں سے نکل کر کراچی کی سڑکوں پر سنائی دینے لگے ۔ جس کسی کو دیکھو وہ گنگناتا پھرتا تھا ، انوکھا لاڈلا کھیلن کو مانگے چاند اور پھر دیکھتے ہی دیکھتے یہ بول ملتان ، چیچہ وطنی اور چوئسیدن سید شاہ سے ہوتے ہوئے لاہور پہنچے اور ایک فلم کی مقبولیت کا سبب بنے ۔ ان بولوں کی مقبولیت کا اندازہ آپ اس سے بھی لگا سکتے ہیں کہ بمبئی فلم انڈسٹری نے ایک فلم بنا ڈالی جس کا نام انہوں نے انوکھا لاڈلا رکھا ۔ فلم کی کہانی انوکھا لاڈلا نامی ایک شخص کے گرد گھومتی تھی جس نے سب کو گھما کے رکھ دیا تھا ۔ ادھر کا مال ادھر اور ادھر کا مال ادھر کرنا اس کا معمول کا مشغلہ تھا ۔ اس کے علاوہ دوسروں کے کام میں ٹانگ اڑانا اس کی عادت تھی ۔ پیسے لے کر صدیوں سے ایک ساتھ رہنے والوں کو آپس میں لڑانے اور محلوں کو میدان جنگ بنانے میں انوکھا لاڈلا مہارت رکھتا تھا ۔ جب انوکھے لاڈلے نے سپاری لینا شروع کی تو اس کی دہشت سے بمبئی کا شہر لرز اٹھا ۔ ویسے ، سپاری لینے کا محاورہ توآپ جانتے ہیں نا ؟ سپاری یوں تو پان اور گٹکے میں کھائی جاتی ہے مگر جرائم کی دنیا میں سپاری لینے کا مطلب ہے کسی کو قتل کرنے کا ٹھیکہ لینا ۔ عبدالرحمن بلوچ عرف رحمن ڈکیت کو مارنے کی سپاری دی گئی تھی، شہنشاہ کو مارنے کی سپاری دی گئی تھی، بلال شیخ کو مارنے کی سپاری دی گئی تھی۔ جرائم کی دنیا کے بڑے سخت اصول ہوتے ہیں، سپاری دینے والا کبھی ظاہر ہونے نہیں دیتا کہ اس نے کس کو سپاری دی ہے ۔ اس طرح سپاری لینے والا کسی بھی صورت میں سپاری دینے والے کانام اپنی زبان پر نہیں لاتا ۔ کرائے کے قاتل ٹارچر یعنی اذیتیں سہتے سہتے دم توڑ دیتے ہیں لیکن سپاری دینے والے کانام ظاہر ہونے نہیں دیتے ۔ فلم انوکھا لاڈلا میں ہیرو یعنی انوکھا لاڈلا پولیس اور سی آئی ڈی کے ٹارچر سہتے سہتے مرجاتا ہے لیکن سپاری دینے والے کانام نہیں بتاتا ۔ سپاری دینے والا ایک خبیث سیاست دان ہے ۔ وہ اپنے مخالفین کو ڈرانے دھکمانے اور نیچا دکھانے کے لئے کبھی ان کی بیوی بچوں کو اغوا کراتا ہے، ان کے گودام اور فیکڑیوں کو آگ لگواتا ہے، ضرورت پڑنے پر کرائے کے قاتل کوسپاری دیکر ان کو قتل کروادیتا ہے ۔ ایک عرصے سے انوکھا لاڈلا سیاست دان سیٹھ سے سپاری لے رہا تھا اور سیٹھ کے سیاسی حریفوں کو صفحہ ہستی سے مٹا رہا تھا۔ آخر کار پکڑا جاتا ہے، تفتیش کے دوران اذیتیں سہتے سہتے مرجاتا ہے لیکن سیٹھ کا نام ظاہر ہونے نہیں دیتا ۔ جرائم پیشہ سیاست دان سیٹھ پریس کانفرنس کرتا ہے اور پولیس پر ایک بے گناہ ، مخلص کارکن پر ہتّیا چار کرنے کا الزام لگاتا ہے ، اذیتیں دینے اور مار ڈالنے کا الزام لگاتا ہے ۔ شہر کے ایک پارک میں اس کا مجسمہ نصب کراتا ہے اور ایک شاندار تقریب میں وزیر اعلیٰ کے دست مبارک سے انوکھے لاڈلے کے مجسمے کی نقاب کشائی کراتا ہے ۔ وزیر اعلیٰ انوکھے لاڈلے کی خدمت خلق ، سچائی اور جواں مردی کو خراج تحسین پیش کرتا ہے ۔ فلم کے اختتام پر کریڈٹس یعنی اداکاروں کے نام ، کمیرہ مین ، میوزک کے ڈائریکٹر کانام ، پروڈیوسر کا نام اور ڈائر یکٹر کا نام انوکھے لاڈلے کے مجسمے کے پس منظر میں دکھاتے ہیں ۔
انوکھا لاڈلا فلم کی بے پناہ کامیابی کی گونج ہالی ووڈ میں سنائی دی ۔ کئی کمپنیوں نے انوکھا لاڈلا فلم انگریزی میں بنانے کا ارادہ ظاہر کیا ۔ ان کمپنیوں میں ایم جی ایم ، وارنر برادرز اور یونیورسل کمپنیاں بھی شامل تھیں لیکن کمپنیوں نے جب مرکزی خیال سنا تو ان کا ماتھا ٹھنکا ۔ وہ لگا تار مرکزی خیال ” انوکھا لاڈلا کھیلن کو مانگے چاند “ سنتے رہے اور سوچتے رہے ۔ اس بات سے کچھ عرصہ پہلے امریکی ایسٹرناٹ نیل آرمز اسڑانگ نے چاند پر اترکر دنیا کو حیران کردیا تھا ۔ نیل آرمز اسٹرانگ کی مہم جوئی نے چاند پر امریکہ کی اجارہ داری قائم کردی تھی ۔ امریکی اس بات پر آج تک نازاں ہیں ۔ امریکی فلم کمپنیوں نے لگاتار فلم کا مرکزی خیال سنا ۔ ” انوکھا لاڈلا کھیلن کو مانگے چاند “ ہالی ووڈ کے فلم سازوں نے یہ کہہ کر فلم بنانے سے انکار کردیا کہ یہ امریکیوں کی غیرت کاسوال ہے ۔ انوکھے لاڈلے کو کھیلنے کے لئے ہم چاند نہیں دے سکتے ۔ انہوں نے مزید کہا کہ جب تک دوسرا کوئی ملک چاند پر اپنا آدمی نہیں اتارتا تب تک چاند پر امریکہ کی اجارہ داری قائم رہے گی ۔ یوں ہالی ووڈ کے پروڈیوسروں نے فلم انوکھا لاڈلا بنانے سے انکار کردیا ۔ اس کے ساتھ ہی نہ جانے کیا ہوا کہ انوکھا لاڈلا نام کمانے کے بعد گمنامی کے اندھیروں میں گم ہوگیا ۔ کوئی نہیں جانتا کہ اسے کھیلنے کے لئے چاند ملا یا نہیں! چاند سے کھیلنے کی تمنا سے انوکھا لاڈلا خود دستبردار ہوا تھا یا حالات نے اسے دستبردار ہونے پر مجبور کیا تھا،کوئی نہیں جانتا ۔
یہ کل پرسوں کی بات ہے ۔ کسی نے مجھے بتایا کہ کھپی کے بھائی گپی کے ساتھ ایک شخص گاڑھی چھانتے ہوئے دیکھا گیا ہے ۔ وہ دور سے ہوبہو انوکھے لاڈلے جیسا لگتا ہے۔ میں نے انکار کرتے ہوئے کہا تھا ” یہ ہونہیں سکتا میرے مخبر ۔ کہاں جوڑیا بازار میں کھجور بیچنے والا انوکھا لاڈلا اور کہاں کھرب پتی کھپی کاارب پتی بھائی گپی ! تم نے غور سے نہیں دیکھا ہوگا ۔ وہ پیا پاپی ہوگا ۔ پیا پاپی گپی کے بچپن کادوست ہے ۔ وہ دونوں نانک واڑا اور بھیم پورہ میں تین پہیوں والی سائیکل چلایا کرتے تھے“ ۔ مخبر کے چلے جانے کے بعد میں نے سوچا کہ کیوں نہ میں خود جاکر انوکھے لاڈلے کو گپی کے ساتھ گاڑھی چھانتے ہوئے دیکھوں ! میں ان تمام کونوں کھدروں سے واقف ہوں جہاں گپی مجھ جیسے پھٹیچروں سے چھپ چھپ کر ملتا ہے ۔ مجھے یہ دیکھ کر تعجب ہوا کہ انوکھا لاڈلا اور گپی ضرورت سے زیادہ گاڑھی چھان رہے تھے۔ واپس اپنے ڈیرے پر پہنچنے کے بعد میں نے اپنے مخبروں کو بلایا اور ان کو انوکھے لاڈلے کے پیچھے لگادیا ۔ مخبروں کے ذریعے جو خبریں مجھ تک پہنچی ہیں وہ حیران کن ہیں ۔ انوکھے لاڈلے کے پاس ممبئی یا بمبئی میں بنی ہوئی سپرہٹ فلم انوکھا لاڈلا کی سی ڈی ہے ۔ وہ روزانہ دوتین مرتبہ فلم انوکھا لاڈلا دیکھتا ہے ۔ دیکھتے ہی دیکھتے وہ فلم انوکھا لاڈلا والے کردار جیسا ہو گیا ہے۔سوائے سپاری لینے کے انوکھا لاڈلا وہ تمام کام کرتا ہے جو فلم میں انوکھا لاڈلا کا کردار کرنے والا اداکار کرتا ہے۔ آج کل وہ کراچی کی قدیم بستیوں میں سے ایک بستی میں صدیوں سے ایک ساتھ رہنے والے لوگوں کو آپس میں لڑوا رہا ہے ۔ اس نے قدیم بستی کو میدان جنگ بنادیا ہے ۔ بستی چھوڑ چھاڑ کر لوگ پناہ گاہوں کی طرف بھاگے جارہے ہیں ۔ بستی بہت جلد خالی ہوجائے گی ۔ اس نیک کام میں گپی اور پاپی اس کی پشت پناہی کررہے ہیں ۔ انوکھا لاڈلا کھیلن کو مانگے چاند ۔