رومن اُردو سے جان چھڑائیں

October 04, 2021

محبوب علی پرکانی

رومن اردو کو دشمنِ اردو کہا جائے تو بے جا نہ ہو گا۔ رومن اردو سے اردو رسم الخط کو کیا خطرہ لاحق ہے؟تو اس کا اندازہ ترکی کے پہلے وزیر اعظم عصمت انونو کے ان الفاظ سے ہوسکتا ہےکہ " حرف انقلاب کا مقصد نئی نسل کا ماضی سے رابطہ منقطع کرنا اور ترک معاشرے پر مذہب اسلام کی چھاپ اور اثر و رسوخ کو کمزور بنانا ہے۔" (یا دداشتِ عصمت انونو، جلد دوئم، ص،223) یہ اسلام دشمن منصوبہ کامیاب رہا اور آنے والی نسل دیگر کتب تو دور کی بات قرآن مجید پڑھنے میں بھی دشواری کا سامنا کر رہی تھی کیونکہ قرآن مجید بھی عربی رسم الخط میں ہے۔

نتیجے کے طور پر سلطنت عثمانیہ کے زمانے میں لکھی جانے والی بیش بہا کتب کا خزانہ تو موجود تھا لیکن ترک ان کتابوں کو پڑھنے سے قاصر تھے اور کسی نے ان حالات کا کیا خوب تجزیہ کیا ہے کہ ترک قوم رات کو سوئی تو پڑھی لکھی لیکن صبح اٹھی تو ان پڑھ ہو چکی تھی ،کیونکہ ان کا واسطہ ایک ایسے رسم الخط سے پڑا تھا جس سے وہ نابلد تھے۔ ترک اس حادثے کو اب تک نہیں بھولے اور اسی حوالے سے صدر، رجب طیب ایردوان نے کہا تھا ’’دنیا میں مجھے ایسی کوئی قوم بتا دیں جو اپنی تاریخ اور تہذیب کے اصلی نسخوں ہی کو پڑھنے سے محروم ہو؟"

ہماری قوم بھی ہر گزرتے دن اپنے رسم الخط کو فرماموش کرتی جا رہی ہے۔پیغامات ہوں یا پھر موبائل کمپنیوں کی جانب سے موصول ہونے والے اشتہارات ،اب ہر جگہ رومن اردو نے پنجے گاڑھ لیے ہیں۔ اس بات سے قطع نظر کہ رومن اردو کا آغاز کب ہوا لیکن اسے "عروج" سوشل میڈیا پلیٹ فارمز جیسے کہ فیس بک، ٹوئٹر اور وٹس ایپ نے بخشا۔ابتدائی ایام میں جب موبائل فونز میں اردو کی بورڈ (Keyboard) میسر نہ تھا تو رومن اردو لکھنا سب کی مجبوری تھی لیکن اب یہ ہماری عادت بن گئی اور اب اردو کی بورڈ موجود ہونے کے باوجود ہم رومن اردو کو چھوڑنے پر راضی نہیں۔ کچھ افراد کا کہنا ہے کہ اردو کی بورڈ استعمال کرتے ہوئے اردو لکھنا مشکل اور وقت طلب کام ہے تو ان کے لیے عرض ہے کہ جاپانی اور چینی انٹرنیٹ بلکہ کسی بھی جگہ رومن رسم الخط کا استعمال نہیں کرتے بلکہ اپنے رسوم الخط کو ترجیح دیتے ہیں ۔

کیا اردو اب جاپانی اور چینی زبان سے بھی مشکل ہو گئی ہے، جو ہم اس سے دور ہو رہے ہیں؟ اسی طرح کچھ احباب اردو رسم الخط سے اس لیے بھاگتے ہیں کہ املا کی غلطی کے باعث کوئی ان کا مذاق نہ اڑائے، جیسے کہ اگر لفظ ’’کام‘‘ کو رومن اردو میں لکھنا ہو تو یوں لکھا جا سکتا ہے Kaam یا kam بلکہ Km لکھنے سے بھی کام بن جائے گا ،کیوں کہ اس کے لکھنے کا کوئی اصول نہیں لیکن اگر اردو رسم الخط کا استعمال کرتے ہوئے کام کو ’’قام‘‘ لکھ دیا تو غلطی ہے۔

رومن اردو کی جانب ہمارے جھکاؤ کی ایک بڑی وجہ یہ بھی ہے کہ ہم بحیثیت قوم انگریزی زبان سے بے حد مرعوب ہیں ،کیوں کہ ہمارے ہاں انگریزی بولنے اور لکھنے کو نوکری حاصل کرنے کے لیے لازم خیال کیا جاتا ہے اور حقیقت بھی یہی ہے کہ مقابلے کا کوئی بھی امتحان ہو انگریزی اس میں لازم ہوتی ہے ۔

یعنی انگریزی بطور مضمون ہی لازم ہوتی تو ٹھیک لیکن یہاں مطالعہ پاکستان ، حالات حاضرہ اور بیسیوں مضامین انگریزی میں لازم قرار دیے گئے ہیں۔جب لوگ انگریزی کو ہی سب کچھ سمجھیں گے تو وہ اردو کی جانب کیونکر آئیں گے اور اردو رسم الخط کو کیوں ترجیح دیں گے۔ اس کا حل یہی ہے کہ مقابلے کے امتحانات میں انگریزی کی جگہ اردو کو لازم قرار دیا جائے اس سے نہ صرف عوام کو اس کی اہمیت کا احساس ہو گا بلکہ وہ خود اردو رسم الخط کی جانب راغب ہونگے۔

ہمیں اس بات کو سمجھنے میں دیر نہیں لگانی چائیے کہ کسی بھی زبان کو بننے اور بگڑنے میں وقت لگتا ہے یا پھر یوں کہا جائے کہ آنے والی نسلیں زبان کی صورت بناتی یا بگاڑتی ہیں اور ہمارے ہاں ایک نسل تو رومن اردو لکھتے بڑی ہو گئی اگر اب بھی رومن اردو کا راستہ نہ روکا گیا تو اردو تحریر دیکھ کر لوگوں کو سمجھ ہی نہ آئے گی کہ لکھا کیا ہے ، جس زبان کا رسم الخط نہ رہے تو اس کے دامن میں موجود ادب کا بیش بہا سرمایہ بھی ضائع ہو جاتا ہے۔

وقت کی ضرورت ہے کہ عوام الناس میں آگاہی پھیلائی جائے ، بالخصوص تعلیمی اداروں میں خصوصی لیکچرز کا انعقاد کر کے نوجوانوں میں اردو رسم الخط کو استعمال کرنے کا جذبہ پیدا کیا جائے اور سوشل میڈیا پر رومن اردو کے خلاف تحریک چلائی جائے۔ تبھی ہم اپنے رسم الخط کے دفاع کا حق ادا کر پائیں گے۔