علم و دانش کا بحربے کراں... استاد حافظ اللہ بخش

October 17, 2021

کچھ لوگ اپنی شخصیت اور کردار سے اِک عالم کو اپنا گرویدہ کرلیتے ہیں اور دنیا سے چلے جانے کے بعد بھی ایسا خلا چھوڑ جاتے ہیں، جسے عشروں پُر نہیں کیا جاسکتا، خاص طور پر کسی عالم اور استاد کی جدائی ہزاروں، لاکھوں قلوب و اذہان پر براہِ راست اثرانداز ہوتی ہے۔ یہاں میں جس شخصیت کے کردار و عمل پر روشنی ڈالنے کی جسارت کررہی ہوں، وہ ہیں ہمارے استاد، حافظ اللہ بخش۔یوں تو اُن کی معتبر شخصیت کے کئی پہلو تھے،لیکن اُن سے میرا تعلق استاد اور شاگرد کا تھا۔

وہ انتہائی شفیق، متّقی، پرہیزگار اور عبادت گزار انسان تھے۔ اللہ تعالیٰ نے اُنہیں حج اور عمرے جیسی عظیم سعادت بھی نصیب فرمائی۔ انہوں نے دیہاتی پس منظر کے باوجود اعلیٰ تعلیم حاصل کی۔ عربی اور اسلامیات میں ماسٹرز تھے۔ نیز، چالیس برس تک درس و تدریس کے شعبے سے منسلک رہے۔ ان سے اکتسابِ فیض حاصل کرنے والے طلبہ کی ایک بڑی تعداد آج بھی ملک کی تعمیر و ترقی میں نمایاںکردار ادا کررہی ہے۔

استاد اللہ بخش، شاعر مشرق، ڈاکٹر محمّد علّامہ اقبال سے خصوصی عقیدت رکھتے تھے۔ ان کے ہزاروں اشعار انہیں زبانی یاد تھے، جو اکثر اپنی تقریر میں برمحل استعمال کرنے کے علاوہ نجی محافل میںخوش الحانی کے ساتھ بھی سنایا کرتے۔ علامہ کا مشہور کلام ’’شکوہ، جوابِ شکوہ‘‘ تو انہیں ازبر تھا۔ جب کہ وہ قیامِ پاکستان کے حالات و واقعات کے بھی عینی شاہد تھے۔

انہوں نے قیامِ پاکستان کے نتیجے میں بھارت سے ہجرت کرکے پاکستان آنے والے خاندانوں کی بحالی میں اہم کردار ادا کی، تو اپنی زندگی میں پیش آنے والی مشکلات کا بھی ہمیشہ نہایت جواں مَردی سے مقابلہ کیا۔ یہاں تک کہ آخری وقت تک فعال رہے۔ علم و دانش کے اس بحرِ بے کراں نے 8اگست 2021ء کو 80سال کی عمر میں داعئ اجل کو لبیک کہا۔ ہماری دعا ہے کہ ہزاروں طلبہ کو علم کی دولت سے مالا مال کرنے والے استاد، حافظ اللہ بخش کو اللہ ربّ العزت جنّت الفردوس میںاعلیٰ مقام عطا فرمائے، آمین۔ (فوزیہ ناہید سیال، لاہور)