محسنِ پاکستان کی عظیم میراث کون سنبھالے گا؟

October 14, 2021

میری جب بھی محسنِ پاکستان سے ملاقات ہوئی۔ میرا سوال یہی ہوتا تھا۔’’ڈاکٹر صاحب! آپ نے پاکستان کو باہر سے الحمد للہ محفوظ کردیا لیکن یہ اندر سے اب بھی غیر محفوظ ہے۔ اسے اندر سے محفوظ کون کرے گا اور کیسے؟‘‘۔ان کی آنکھوں میں ایک ملکوتی مسکراہٹ ابھرتی اور وہ کہتے ’’اندر سے بھی محفوظ میں اور آپ ہی کریں گے۔ اندر کی مضبوطی کیلئے تعلیم اور صحت عامہ ضروری ہے‘‘۔

پھر ایک بار محمد علی سوسائٹی کراچی میں ان کی رہائش گاہ پر تفصیلی گفتگو ہوئی تو انہوں نے بڑے پیار اور شفقت سے ان سارے منصوبوں کے بارے میں بتایا جو انہوں نے پاکستان کو اندر سے محفوظ کرنے کیلئے شروع کیے ہوئے ہیں۔ انہیں بھوپال سے عشق تھا۔ کراچی میں بھوپال والوں کے درمیان بیٹھ کر بھوپال کی باتیں کرکے خوش ہوتے تھے۔ بھوپال کے لوگ پاکستان کو اندر سے محفوظ کرنے کے منصوبوں میں دامے درمے قدمے سخنے ان کا ساتھ دے رہے تھے۔ ہماری کچھ ملاقاتیں عبدالحسیب خان صاحب کے توسط سے ہوئیں۔ ان سے ان کی رفاقت بھی تھی بے تکلفی بھی۔واٹس ایپ پر تبادلۂ پیغامات بھی جاری رہتا تھا۔ پاکستان بھر میں کتنے اسپتال، کتنے اسکول، کالج وہ اپنی پیرانہ سالی، بگڑتی صحت اور نا قدریٔ زمانہ کے باوجود چلارہے تھے۔ پاکستان کو ایٹمی قوت بناکر وہ آرام سے گوشہ نشیں ہوسکتے تھے مگر پاکستان سے درد مندی ، ملک کی اقتصادی پسماندگی اور پاکستانیوں میں احساس کمتری انہیں چین سے نہیں بیٹھنے دیتا تھا۔

ایٹمی پروگرام کے سلسلے میں وہ پاکستان کے سب حکمرانوں کے مدح خواں تھے۔ حقیقت بھی ہے اور پاکستانیوں پر فخر بھی ہوتا ہے کہ اپنے شدید سیاسی اختلافات، متضاد نظریات، ایک دوسرے سے متصادم رہنے والے حکمرانوں نے شہید ذوالفقار علی بھٹو کے شروع کیے ہوئے اس پروگرام کو آگے بڑھایا۔ عالمی قوتوں کے شدید دبائو کے باوجود یہ عمل جاری رہا۔ ہر حکمران نے اسے ایک قومی امانت سمجھا اس کی حفاظت کی۔ بین الاقوامی حاسدوں اور قومی منافقوں سے اسے چھپائے رکھا اور بالآخر 1998 میں پاکستان نے پہلا ایٹمی دھماکہ کردیا۔ یہ اعزاز تاریخ نے میاں نواز شریف کو بخشا۔

ڈاکٹر عبدالقدیر خان اس تاریخی خط کا بڑے فخر سے ذکر کرتے تھے جو انہوں نے بھٹو صاحب کو لکھا۔ وہ بھی پاکستانی قوم پرست تھے۔ انہوں نے انہیں فوراً بلالیا اور جو کچھ پاکستان کو ناقابلِ تسخیر بنانے کیلئے ضروری تھا۔ وہ ڈاکٹر صاحب کے سامنے رکھ دیا اور ان کے اس خط کے نتیجے میں پاکستان پہلا مسلم ایٹمی ملک بن گیا۔ اک خط کا ذکر وہ بڑے تاسف سے کرتے تھے۔ میاں نواز شریف کے دَور میں ایک بہت ہی اعلیٰ معیاری یونیورسٹی بنانے کی باتیں ہورہی تھیں۔ ڈاکٹر عبدالقدیر خان نے اسے اپنی قومی ذمہ داری سمجھا۔ ان کے ذہن میں ہمیشہ سے ایک بین الاقوامی معیار کی یونیورسٹی کا خواب تڑپتا تھا۔ ڈاکٹر صاحب نے اس کا پورا خاکہ تیار کیا۔ اس کی انتظامیہ۔ اس میں پڑھائے جانے والے علوم۔ کہاں کہاں سے اساتذہ مل سکتے ہیں۔ یونیورسٹی کی ڈگری کس طرح عالمی سطح پر تسلیم کی جائے گی۔ یہ سب تفصیلات ایک با ضابطہ منصوبے کی شکل میں اپنے ایک درد مندانہ خط کے ساتھ اپنے نامہ بر کے ذریعے اس وقت کے پلاننگ کمیشن کے وزیر جناب احسن اقبال کے دفتر میں بھجوادیں۔ ڈاکٹر صاحب جس طرح خود پُر جوش تھے۔ دوسروں کو بھی سمجھتے تھے۔ کہتے تھے کہ میں تو اسی شام کسی رسید کا انتظار کررہا تھا۔ لیکن وہاں سے تو کبھی کوئی جواب نہیں آیا۔ ایک خط کی اتنی پذیرائی اور ایک خط سے اتنی بے اعتنائی۔ دیکھنا یہ ہوتا ہے کہ مکتوب الیہ کون ہے۔مخیر اور صاحبانِ استطاعت کی ایک بڑی تعداد ڈاکٹر صاحب کے منصوبوں میں سرمایہ لگانے کو بے تاب رہتی تھی۔ کراچی سب سے پیش پیش تھا۔ سلطان چائولہ کے ہاں ایک سالانہ ناشتہ ہوتا ہے۔ جہاں سارے ایسے درد مند۔ خوشحال متمول پاکستانی جمع ہوتے ہیں ۔ ڈاکٹر عبدالقدیر خان خصوصی شرکت کیلئے آتے۔ یہاں پاکستان کو اندر سے مضبوط کرنے کیلئے سنجیدگی سے کوششیں ہوتیں۔ لاہور میں بھی پیسے والے حضرات و خواتین اس طرح عطیات دے رہے تھے ۔ دوسرے شہروں میں بھی یہی عالم رہا۔ بیرون ملک پاکستانی بھی دل کھول کر ڈاکٹر صاحب کے منصوبوں میں اپنا حصّہ ڈال رہے تھے۔

یہ تبصرہبجا طور پر ہوتا ہے کہ پاکستان ایٹمی ملک تو بن گیا لیکن عام معاملات میں، روز مرہ میں پاکستانیوں کا نقطۂ نظر سائنسی نہیں ہے۔ ہم ایک سوئی بھی نہیں بناتے۔ ہماری سوچ جذباتی ہے حقیقت پسندانہ نہیں۔ جب تک پاکستانیوں کی فکر اقتصادی۔ اور دنیوی معاملات کو دیکھنے کا انداز معاشی نہیں ہوگا۔ ہم آگے نہیں بڑھ سکتے۔ ڈاکٹر صاحب اس کا جواب یہی دیتے تھے کہ اس کا علاج جدید علوم کی تدریس اور تفہیم ہے۔ کراچی یونیورسٹی میں کئی تحقیقی ادارے اسی مقصد کیلئے قائم کئے گئے۔ دوسرے شہروں میں بھی یہ تحقیقی مراکز سردار یٰسین ملک۔ اور بہت سے مخیر پاکستانیوں کے تعاون سے قائم ہیں۔ کئی نسلیں فارغ التحصیل ہوکر نکل رہی ہیں۔

ڈاکٹر صاحب کو ریاست پاکستان کی طرف سے انتہائی اہم شخصیت کا پروٹوکول اور سیکورٹی ملی ہوئی تھی۔ میں نے انہیں لاہور۔ اسلام آباد اورکراچی میں تقریبات میں آتے دیکھا۔ تو ان کی آمد سے پہلے اس مقام کی پوری چیکنگ کی جاتی تھی۔

جو دل میں بس رہا ہے حکومت اسی کی ہے۔ ان کیلئے صدر پاکستان بننا میرے خیال میں کوئی اعزاز کی بات نہ ہوتی۔ اس ملک میں اسکندر مرزا سے لے کر اب تک کیسے کیسے صدر بن گئے۔ وہ دلوں کی مملکت کے صدر تھے۔ صدر رہیں گے۔ یہ اعزاز کسی اور کو حاصل نہیں ہوگا۔ وہ ایک مشن کیلئے اتارے گئے تھے۔ اللہ تعالیٰ نے ان سے وہ کام لے لیا۔ پاکستان میں کسی اور سائنسدان کو یہ محبت۔ عقیدت اور عشق نصیب نہیں ہوا۔ ایسا سائنسدان جس نے خواب کو حقیقت میں بدل دیا۔ جسے شعر و ادب سے بھرپور دلچسپی تھی۔ بہت سے اشعار از بر تھے۔ پسندیدہ اشعار کی ایک کتاب ’نوادرات‘ بھی مرتب کی تھی۔ ڈاکٹر صاحب کے جملوں میں بہت کاٹ ہوتی تھی۔ بعض اہم شخصیتوں کے بارے میں وہ جو اصطلاحات استعمال کرتے وہ ان صاحبان کی ذات کا پورا احاطہ کرتی تھیں۔وہ اپنے چاہنے والوں کیلئے علم۔ سائنس۔ سماجیات۔ صحت عامہ کی بڑی میراث چھوڑ کر گئے ہیں۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ اس عظیم میراث کو کون سنبھالتا ہے؟