محسنِ پاکستان کا شکوہ

October 17, 2021

ڈاکٹر عبدالقدیر خان سے میرا 30سے 32سال پرانا تعلق تھا، وہ مایک طریقے سے میرے بزرگ اور نہایت نفیس انسان تھے کہ کبھی انہوں نے اپنی بزرگی کا احساس نہیں دلایا۔ جس طرح خلیل بھائی خلیل بھائی کر کے بات کرتے تھے تو میں بھی ڈاکٹر صاحب ڈاکٹر صاحب کر کے مخاطب کرتا تھا۔جب ہماری کے این اکیڈمی کا 2000میں افتتاح ہوا تو میں نے ان کو دعوت دی، وہ کہنے لگے کہ آپ اس کو مکمل کرالیں تو پھر آئوں گاتاکہ میں یہ دیکھوں کہ آپ کا تعلیمی شوق اور ذوق کیا ہے؟ ملیر میں ہم نے پاکستان کا پہلا بورڈنگ ہائوس بنایا تھا، کے این اکیڈ می فائونڈیشن کے لئے کوئی امداد نہیں لی تھی۔ 25ایکڑ کا پلاٹ تھا ملیر کینٹ کے اندر میںنے 15مہینے میں دن رات 250مزدور لگا کر 6عمارتیں بنوائیں جن میں 3تعلیم، 1اکیڈمی، 1بورڈنگ ہائوس اور1جم کی عمارت تھی، اس میں آڈیٹوریم رہ گیا تھا جو بعد میں تعمیر ہونا تھااور 15مہینے میں افتتاح کر دیا۔ جب ڈاکٹر صاحب کو بتایا تو انہیں یقین نہیں آیا، میں نے کہا ڈاکٹر صاحب آپ آکر دیکھیں۔ وہ آئے تو بہت حیران ہوئےاور کہا کہ بھئی ،میںنے پاکستان میں اس سے اچھاکوئی انسٹی ٹیوشن نہیں دیکھا، اتنے قائدے سے بنایا گیاہے۔ ساتھ یہ بھی کہا اگرمجھے دوسرا جنم ملتا تو میں کے این اکیڈمی میں داخلہ لیتا۔ جب کھانے پر بیٹھے باتیں کر رہے تھے تومیں نے کہا، ڈاکٹر صاحب آپ کا کوئی ریگریٹ ہے، کہنے لگے کہ خلیل بھائی ایک ریگریٹ یہ ہے کہ منزل انہیں ملی جو شریک سفر نہ تھے۔ کہنے لگے کہ نام میرا،کام میرا اور میرے ایک جونیئرثمر مبارک کو لیجا کر آگے کھڑا کردیا۔ میں دیکھتا ہی رہ گیا کہ یہ دنیا کیا سے کیا ہو گئی ہے۔

میری 27ستمبر کو آخری دفعہ ان سےبات ہوئی جب میں کینیڈا میں تھا۔میرے پاس ڈاکٹر صاحب کے تینوں نمبر موجود ہیں۔ پہلے دونمبر بند تھے تیسرے نمبر پر انہوں نے فون اٹھایا۔ ڈاکٹر صاحب نے ’ہیلو‘کہاتو میں نے زور سے کہا الحمد للہ، کہنے لگے خلیل میاں کیا بات ہے ؟ میں نے کہا میں نے ایسی خبر سنی تھی جو میں آپ کو سنا نا نہیں چاہتا، آپ الحمدللہ حیات ہیں۔ کہنے لگے، میرے دشمن تو اب مجھے زندہ ہی مارنا چاہتے ہیں۔ انہوں نے دکھ کے ساتھ کہا دیکھیں خلیل بھائی الحمد للہ میں خیریت سے ہوں اب میں نے ریکور کر لیا ہے اور آج ہی مجھے میری پنشن کا نیا لیٹر آیا ہے جس میں 1لاکھ 5ہزار سے 1لاکھ 33ہزار 5سو4روپے ہو گئی ہے اور یہ 20جولائی کا لیٹر ہے جو مجھے آج ملا ہے۔

زندہ قومیں اپنے محسنوں اورہیروز کو کبھی فراموش نہیں کرتی ہیں اور ان کو ہمیشہ اپنے دلوں میں جگہ دیتی ہیں کوئی فرد چاہے کتنا ہی کسی ہیرو کی کردارکشی کرلے لیکن وہ ہمیشہ لوگوں کی نظر میں ہیرو ہی رہتا ہے۔ ڈاکٹر عبدالقدیر خان بھی قوم کے محسن اور ہیرو ہیں جنہوں نے انتھک محنت اور لگن سے پاکستان کے دفاع کو مضبوط بنایا۔ انہوں نے اپنی زندگی پاکستان کے نام کردی اور اپنا شاندار مستقبل اور پر آسائش زندگی ملک و قوم کے لیے قربان کردی۔ اگرچہ مغربی میڈیا نے ہمیشہ ان کی کردار کشی کی اور سابقہ حکمرانوں نے بھی اس میں حسب مقدور اپنا حصہ ڈالا لیکن وہ آج بھی عوام کی نظروں میں ہیرو ہی ہیں اور قوم روز اول کی طرح آج بھی ان سے اتنی ہی محبت کرتی ہے۔

بلاشبہ 28 مئی ایک جشن کا دن ہے اور اس میں بھی کوئی شک نہیں کہ ڈاکٹر عبدالقدیر خان قومی ہیرو ہیں۔ ایٹمی دھماکوں کے بعد نواز شریف حکومت صرف ایک ’’یوم تکبیر‘‘ کا جشن منا سکی کیونکہ اسی جرم کی پاداش میں12 اکتوبر 99ء کو ان کی حکومت کو گھر بھیج دیا گیا۔ جس طرح پہلے ذوالفقار علی بھٹو کو امریکہ نے ایٹمی پروگرام شروع کرنے کے ’’جرم‘‘ میں ’’نشان عبرت‘‘ بنایا، اسی طرح ایٹمی دھماکے کرنے کے ’’جرم‘‘ میں نواز شریف کو بھی تختہ دار تک پہنچانے کا منصوبہ تھا لیکن اللہ تعالیٰ کے فیصلے ’’کچھ اور‘‘ تھے۔ سعودی عرب اور کچھ دیگر اسلامی ملکوں (جو ایک مسلم ریاست کے ایٹمی طاقت بننے پر خوش تھے) کی مدد اور تعاون سے نواز شریف کی جان بخشی ہوگئی۔ نواز شریف کی جان تو بچ گئی لیکن قومی بے حسی کا ایک ایسا باب کھل گیا جو ابھی تک بند نہیں ہوسکا۔ امریکہ اور اس کے حواریوں نے ڈاکٹر عبدالقدیر خان کو ایٹمی پھیلائو کا ’’مجرم‘‘ قرار دیا اور پابندِ سلاسل کر دیا۔ پاکستان میں آمرانہ حکومت نے امریکی تائید میں ڈاکٹر عبدالقدیر خان سے بندوق کی نوک پر ’’اقرار جرم‘‘ کروایا اور ہیرو سے زیرو بنانے کی گھنائونی کوشش کی۔ چنانچہ ڈاکٹر عبدالقدیر خان کو ’’مشرفی‘‘ آمریت اور امریکہ کے رحم و کرم پر چھوڑ دیا گیا۔ ڈاکٹر صاحب کو قید تنہائی کی سزا دی گئی، ایک قومی ہیرو کو مجرم بنانے کی کوشش اور سازش کی گئی لیکن پاکستانی قوم ایمان کے ’’آخری‘‘ درجے پر فائز رہی اور اپنے دلوں میں اس کو برا جاننے پر اکتفا کرتی رہی۔ وکلا تحریک کی بدولت جب سیاسی قیادت وطن واپس آنے میں کامیاب ہوئی اور نئے الیکشن کی داغ بیل ڈالی گئی تو دوسری کچھ جماعتوں کے ساتھ ساتھ بالخصوص ایٹمی دھماکے کرنے والی جماعت مسلم لیگ (ن) نے ججز بحالی کے ساتھ ساتھ ڈاکٹر صاحب کا نام بھی اپنی الیکشن مہم میں استعمال کیا لیکن الیکشن کے بعد صرف امریکی اشیرباد کے لئے انہیں بھلا دیا گیا۔ بے حسی کی ایک ایسی ان دیکھی زنجیر ہے جس میں پوری قوم جکڑی ہوئی ہے۔بدقسمتی تو دیکھئے کہ زندہ قومیں قومی ہیرو کو پورے اعزاز کے ساتھ سپرد خاک کرتی ہیںمگر ڈاکٹر عبدالقدیر خان کے جنازے میں صدر مملکت،وزیر اعظم، وفاقی وزراء، مسلح افواج کے سربراہوںاور سندھ کے وزیر اعلیٰ کے سواکوئی بھی شریک نہیں تھا۔اس سے بڑی بدقسمتی پاکستانی قوم کے لئے اور کیا ہو سکتی ہے؟

(کالم نگار کے نام کیساتھ ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائےدیں00923004647998)