زمین ، پلاٹ اور فائل

October 17, 2021

گزشتہ کالم میں جنوبی پنجاب میں پھیلی غربت اور عوام کی حالت زار کا ذکر کیا تو ملک بھر سے پیغامات آنا شروع ہو گئے۔ کراچی کے دوستوں نے گلہ کیا کہ سب سے زیادہ ٹیکس دینے والا اور ریونیو اکھٹا کرنے والا شہر برباد ہو کر رہ گیا ہے۔ شہرمیں آلودگی، صفائی ، ٹرانسپورٹ اور ٹریفک کے مسائل ہیں۔ پانی کی فراہمی انتہائی محدود ہے، روزگار کے مواقع کم ہوتے جا رہے ہیں۔ بلڈر مافیاجائز یا ناجائز تعمیرات کو آگے فروخت کر کے صاف بچ نکلتے ہیں اور غریب عوام پیسہ خرچ کر نے کے باوجود گھروں سے بید خل کر دیئے جاتے ہیں۔ پاکستان بھرسے اور اطراف کے ممالک سے آنے والوں کو یہ شہر رو زگار فراہم کرتا ہے مگرافسوس اس بات کا ہے کہ صوبائی اور مرکزی حکومت اس شہر کو نظر انداز کر رہی ہیں۔ اندرون سندھ بھی ہر طرف غربت، انتہا پسندی ، بد انتظامی اور کرپشن نظر آتی ہے۔ خشک سالی اور دریائوں میں پانی کی کمی نے سندھ میں زراعت کو ناقا بل تلافی نقصان پہنچایا ہے مگر شوگر ملوں کیلئے گنے کی کاشت میں اضافہ ہو رہا ہے جو زیر زمین پانی کو تیزی سے نچوڑ رہا ہے۔ حکومت کی طرف سے خطیر رقوم مختص کئے جانے کے باوجود تعلیم اور صحت کے شعبے میں تنزلی آئی ہے۔

ملک کے سب سے بڑے صوبے بلوچستان میں بھی حالات زیادہ مختلف نہیں ہیں۔ تعلیم کی کمی ، قبائلی رسم و رواج ، خراب طرز حکمرانی ، سیاسی عدم استحکام ،بیرونی مداخلت، امن و عامہ کی صورتحال اور حکومتی رٹ کی کمزوری اس صوبے کی ترقی میں بڑی رکاوٹ ہے۔ صوبے میں سی پیک منصوبے کے تحت گوادر شہر،بندرگاہ اور شاہراہوں کی تعمیر پر خطیر رقم خرچ کی جا رہی ہے، تکمیل کے بعد یقیناً یہ منصوبہ ملک اور صوبے کی معاشی ترقی میں اہم کردار ادا کرئے گا۔ اس وقت سی پیک منصوبے پر کام کی رفتار تیز کرنے کی ضرورت ہے جبکہ مقامی آ بادی کے تحفظات اور جائز مطالبات کو بھی سنجیدگی سے زیر غور لایا جانا چاہئے۔ آغازِ حقوق بلوچستان پیکیج سے لیکر ابتک صوبے میں ترقی کیلئے بھاری رقوم اور وسائل فراہم کئے گئے مگر عوام تک ان کے ثمرات پوری طرح نہیں پہنچ پائے۔جس کی وجہ سرکاری یا غیر سرکاری اداروں کی کرپشن یا نااہلی ہو سکتی ہے۔ بلوچستان اور خیبر پختونخوا میں کثیر تعداد میں افغان مہاجرین موجود ہیں جبکہ افغانستان کی موجودہ غیر یقینی صورتحال دیکھتے ہوئے مزید مہاجر پاکستان آسکتے ہیں جسکے لئے ابھی سے تیاری کرنا ہوگی۔

خیبر پختونخوا میں افغان مہاجرین کی کثیر تعداد میں موجودگی کے باوجود جفاکش پشتون اور ہزارہ وال نسبتاً بہتر حال میں ہیں۔ پشتونوں کی بڑی تعداد افغانستان کیساتھ تجارت اور ٹرانسپورٹ کے کاروبار سے وابستہ ہے مگر افغانستان میں حالیہ تبدیلیوں کے بعد تجارتی سرگرمیوں میں کمی آئی ہے جس کا اثر خیبر پختونخوا میں رہنے والوں پر براہِ راست ہو گا۔ شمالی علاقہ جات، گلگت بلتستان اور گلیات میں سہولتوں کی فراہمی، امن و عامہ کی صورتحال میں بہتری سے سیاحتی سرگرمیوں میں اضافہ ہوا ہے جس سے مقامی لوگوں کی معاشی حالت بہتر ہوئی ہے۔

ملک کے دوسرے علاقوں کی طرح پنجاب میں بھی تیزی سے بڑھتی ہوئی بے ہنگم آبادی کا سارا بوجھ بڑے شہروں پر پڑرہا ہے اور حکومت تمام تر کوششوں کے باوجود عوام کی توقعات پر پورا اترنے میں ناکام نظر آتی ہے۔ حالت یہ ہے کہ غریب اور لوئر مڈل کلاس بڑی مشکل سے بجلی کے بل ، بچوں کے تعلیمی اخراجات اور گھر کے خرچے پورے کر رہی ہے جبکہ بڑے بزنس مین، زمیندار ، افسر اور سیاست دان زمین، پلاٹ اور فائلوں کی خریدو فروخت کے دھندے میں مصروف ہیں اور ان کی ضروریات کو پورا کرنے کیلئے سر سبز و شاداب زمینوں کو کنکر یٹ کی عمارتوں میں تبدیل کیاجا رہا ہے ، بچوں کے کھیلنے کے میدانوں کو بزنس و نچرز کیلئے استعمال میں لایا جا رہا ہے۔

وائے ناکامی متاعِ کارواں جاتا رہا

کارواں کے دل سے احساسِ ضیاں جاتا رہا

(مضمون نگار سابق وزیر اطلاعات پنجاب ہیں)

(کالم نگار کے نام کیساتھ ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائےدیں00923004647998)