دنیا بھر میں ماحولیاتی آلودگی اور عالمی درجہ حرارت میں اضافے کی وجہ سے خدشہ ظاہر کیا گیا ہے کہ 2050 تک کافی پیدا کرنے والے بیشتر ممالک میں کافی کے بیج کی پیداوار 88 فیصد تک کم ہوجائے گی۔
نیشنل اکیڈمی آف سائنسز کی حالیہ رپورٹ میں اس بات پر بھی روشنی ڈالنے کی کوشش کی گئی ہے کہ کافی کی پیداوار میں اہم کردار ادا کرنے والی شہد کی مکھیوں کو عالمی درجہ حرارت میں اضافے کی وجہ سے کس قدر نقصان ہو سکتا ہے۔
رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ تقریباً دو تہائی فصلیں ایسی ہیں جن میں مکھیاں بطور زر گل منتقل کرنے کا کام کرتی ہیں اور اگر یہ مکھیاں کم یا ختم ہوجائیں تو ہمارے کسانوں کو شدید مشکلات کا سامنا کرنا پڑے گا۔
جیسے جیسے زمین کا درجہ حرارت بڑھ رہا ہے، شہد کی مکھیاں اور کافی کی فصلیں شدید متاثر ہوں گی اور یہ ایسے علاقوں میں منتقل ہوجائیں گی جہاں ان کی بقا آسان ہو۔
ورمونٹ یونیورسٹی کے ٹیلر رکیٹس کا کہنا ہے کہ نکاراگوا، ہندوراس اور وینزویلا جیسے ممالک کیلئے یہ ممکن نہیں ہوگا۔ یہ ایسے علاقے ہیں جہاں پہاڑ بہت کم ہیں، اسلئے کافی کی پیداوار اور شہد کی مکھیوں کا پہاڑی علاقوں کی طرف منتقل ہونا ممکن نہیں۔
ان علاقوں میں کافی کے کھیت اور شہد کی مکھیوں کو شدید نقصان ہوگا کیونکہ اس بیش قیمت فصل کو اگانے کیلئے درجہ حرارت موزوں نہیں رہے گا۔
کمپیوٹرز کی مدد سے حاصل کیے جانے والے جدید ماڈلز کو دیکھ کر ماہرین اس نتیجے پر پہنچے ہیں کہ آئندہ تین دہائیوں میں کافی کی پیداوار پر شدید منفی اثرات مرتب ہوں گے اور اس کی پیداوار 88 فیصد تک کم ہوجائے گی۔