• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
پاک، ایران تعلقات اور دہشت گردی
وزیرِ اعظم، عمران خان دورۂ ایران کے موقعے پر ایرانی صدر، حَسن روحانی اور ایرانی رہبرِ اعلیٰ، آیت اللہ خامنہ ای سے ملاقات کر رہے ہیں

مارچ اور اپریل میں پاکستان سمیت دیگر علاقائی ممالک میں دہشت گردی کے ایسے خوف ناک واقعات رونما ہوئے کہ پورے خطّے ہی میں تشویش کی لہر دوڑ گئی، جب کہ وزیرِ اعظم پاکستان، عمران خان کے دورۂ ایران کا مقصد بھی دہشت گردی کے واقعات کا تدارک اور دونوں ممالک کے درمیان پائے جانے والے تنائو کا خاتمہ تھا۔ یہی وجہ ہے کہ انہوں نے ایرانی حُکّام کو یقین دلایا کہ وہ کسی کو بھی اپنی سرزمین کسی دوسرے مُلک کے خلاف استعمال کرنے کی اجازت نہیں دیں گے اور دونوں ممالک کی سرحدوں کی حفاظت کے لیے پاک، ایران ریپڈ ریسپانس ری ایکشن فورس کے قیام پر اتفاق اسی سلسلے کی کڑی ہے۔ ادھر ایسٹر کے موقعے پرسری لنکا میں گرجا گھروں اور ہوٹلوں میں خود کُش حملوں کے نتیجے میں 350سے زاید ہلاکتوں نے، جن میں کئی غیر مُلکی بھی شامل تھے، اقوامِ عالم کو سوگ وار کر دیا۔ نیوزی لینڈ کے بعد سری لنکا میں رونما ہونے والے اندوہ ناک واقعے سے اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ دہشت گرد کہیں بھی اور کسی بھی وقت خون کی ہولی کھیل سکتے ہیں۔ نیز، یہ سوال بھی پیدا ہوتا ہے کہ کیا اس خطّے کی لیڈر شپ دہشت گردی سے نمٹنے کے لیے تیار ہے؟

عمران خان کے دورۂ ایران سے چند روز قبل بلوچستان کے ساحلی شہر، اورماڑہ میں سیکوریٹی فورسز کے 14اہل کاروں کو شناخت کے بعد بس سے اُتار کر شہید کرنے کا افسوس ناک واقعہ پیش آیا تھا۔ اس واقعے کے کچھ دن بعد وزیرِ خارجہ، شاہ محمود قریشی نے پریس کانفرنس کرتے ہوئے کہا کہ یہ کارروائی بی آر اے نامی دہشت گرد تنظیم نے کی، جس کے ایران میں کیمپس ہیں۔ نیز، وہ توقّع کرتے ہیں کہ ایرانی حُکّام اس قسم کی تنظیموں کے خلاف کارروائی کریں گے۔ قبل ازیں، کوئٹہ کے علاقے ہزار گنجی میں ایک خود کُش دھماکے کے نتیجے میں ہزارہ برادری سے تعلق رکھنے والے 20افراد جاں بحق ہوئے تھے، جب کہ مارچ میں ایران میں ہونے والے ایک خود کُش حملے میں پیرا ملٹری فورس، پاس دارانِ انقلاب کے 27گارڈز لقمۂ اجل بنے تھے۔ ایران نے دہشت گردی کے اس واقعے کا الزام پاکستان پر عاید کیا اور بعد ازاں ایرانی صدر، حَسن روحانی نے ٹیلی فونک گفتگو کے دوران عمران خان سے دہشت گردوں کے خلاف کارروائی کا مطالبہ کیا، جب کہ پاس دارانِ انقلاب کے سربراہ، میجر جنرل محمد علی جعفری نے پاکستانی سرزمین میں خود کارروائی کرنے کی دھمکی تک دے ڈالی، جس پر ایرانی سپریم لیڈر، آیت اللہ خامنہ ای نے انہیں عُہدے سے ہٹا دیا۔پاکستانی وزیرِ خارجہ نے اپنی پریس کانفرنس کے دوران دہشت گردی کی روک تھام کے لیے چند اہم اقدامات کا ذکر کیا تھا، جن پر پاکستان نے عمل درآمد شروع کر دیا ہے۔ ان اقدامات میں نئی سدرن کمان کا قیام، ایران سے ملحقہ سرحد کی مؤثر نگرانی کے لیے نئی فرنٹیر کور کی تشکیل، ایران و پاکستان کی باہمی مشاورت سے بارڈر سینٹرز کا قیام اور پاک، ایران سرحد پر باڑکی تنصیب شامل ہے۔

پاک، ایران تعلقات اور دہشت گردی
وزیرِ اعظم، عمران خان دورۂ ایران کے موقعے پر ایرانی صدر، حَسن روحانی اور ایرانی رہبرِ اعلیٰ، آیت اللہ خامنہ ای سے ملاقات کر رہے ہیں

اگر اس پس منظر کو سامنے رکھا جائے، تو عمران خان کے دورۂ ایران کا مقصد واضح ہو جاتا ہے۔ عمران خان اور حَسن روحانی کی مشترکہ پریس کانفرنس میں پاک، ایران ریپڈ رسپانس ری ایکشن فورس کے قیام کا ذکر کیا گیا ، جس کی تفصیلات دونوں ممالک کے سیکوریٹی سربراہان طے کریں گے۔ گو کہ اس موقعے پر دو طرفہ تجارت، پاک، ایران گیس پائپ لائن اور گوادر، چاہ بہار پورٹ کے اشتراک کاذکر بھی ہوا، لیکن مجموعی طور پر اقتصادی تعاون پس منظر میں چلا گیا۔ ایرانی رہبرِ اعلی، آیت اللہ خامنہ ای سے ملاقات کے بعد عمران خان نے کہا کہ نئے پاکستان کو ایران جیسے انقلاب کی تلاش ہے اور وہ بھی اپنے مُلک میں امیر و غریب کا فرق مٹانا چاہتے ہیں، جب کہ ایرانی صدر، حَسن روحانی نے کہا کہ کوئی تیسرا مُلک پاک، ایران تعلقات کو نقصان نہیں پہنچا سکتا۔ اپنے دورۂ ایران میں عمران خان نے ایرانی حکومت کو جو یقین دہانیاں کروائیں، وہ ایک خیر خواہ اور برادر مُلک کا سربراہِ حکومت ہی کروا سکتا ہے۔ پاکستانی وزیرِ اعظم کا کہنا تھا کہ ماضی میں ایران میں دہشت گردی کے لیے پاکستانی سرزمین استعمال ہوئی۔ تاہم، فی الوقت ایران کی جانب سے ایسا کوئی بیان سامنے نہیں آیا اور نہ ہی ایران سے پاکستان جا کر دہشت گردی کرنے والوں کے خلاف کوئی کارروائی کی گئی ہے۔ اس ضمن میں تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ خطّے کی موجودہ صورتِ حال کے پیشِ نظر پاکستان کو محتاط خارجہ پالیسی اپنانا پڑے گی۔ یاد رہے کہ امریکا، ایران اور عالمی طاقتوں کے درمیان ہونے والے جوہری معاہدے سے علیحدہ ہو چُکا ہے۔ علاوہ ازیں، واشنگٹن نے پاس دارانِ انقلاب کو دہشت گرد فورس قرار دیا ہے اور ایران سے تیل خریدنے والے ممالک کو حاصل استثنیٰ بھی ختم کر دیا ہے۔ استثنیٰ ختم کرنے کا اعلان کرتے ہوئے امریکی وزیرِ خارجہ، مائیک پومپیو کا کہنا تھا کہ اس فیصلے کا مقصد ایران پر دبائو بڑھانا ہے، کیوں کہ واشنگٹن، تہران کو مشرقِ وسطیٰ میں پائی جانے والی افراتفری کا ذمّے دار سمجھتا ہے۔ ایران اور امریکا کے درمیان پائی جانے والی کشیدگی کو دیکھتے ہوئے یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ ایران اور پاکستان کے مشترکہ دفاعی منصوبے کتنے سود مند ثابت ہوں گے۔ یاد رہے کہ ہمارے تجارتی مفادات امریکا اور یورپ سے وابستہ ہیں اور ان ممالک کے لیے ہماری برآمدات کا حجم 40فی صد سے زاید ہے۔ گو کہ چین اور تُرکی نے استثنیٰ ختم کرنے کے امریکی فیصلے کو مسترد کر دیا ہے، لیکن اس کے اثرات جلد یا بہ دیر ضرور ظاہر ہوں گے، جب کہ سعودی عرب نے امریکی فیصلے کی حمایت کرتے ہوئے تیل کی کمی پوری کرنے کا یقین دلایا ہے۔ تاہم، پابندی کے اعلان کے فوراً بعد تیل کی قیمتیں 73ڈالرز فی بیرل سے تجاوز کر گئیں۔ تیل کی برآمد پر عاید پابندی کی وجہ سے ایران کی آئل ایکسپورٹس10لاکھ بیرل یومیہ سے بھی کم ہو گئیں، جب کہ پہلے یہ 25لاکھ بیرل یومیہ تھیں۔ تیل کی کم قیمتوں کے باعث پیدا ہونے والے بُحران، تجارت میں کمی اور ایرانی ریال کی قدر میں گراوٹ نے، جو اس وقت 40ہزار ڈالرز کا ہے، ایرانی معیشت کا بھٹہ بِٹھا دیا ہے اور صدر روحانی کو اپنی اقتصادی پالیسیز پر اندرونِ مُلک بے تحاشا تنقید کا سامنا ہے۔

اس میں کوئی دو رائے نہیں کہ پاکستان کو اپنے پڑوسی ممالک کے ساتھ بہترین روابط قائم کرنے چاہئیں اور ان میں ایران قابلِ ذکر ہے، جس نے سب سے پہلے پاکستان کو ایک آزاد ریاست کے طور پر تسلیم کیا۔ نیز، اس نے بھارت سے جنگوں کے دوران بھی ہمارا ساتھ دیا اور آر سی ڈی جیسے اقتصادی فورم اور دفاعی معاہدوں میں بھی ہمارا ہم قدم رہا، لیکن مشرقِ وسطیٰ کی حالیہ صورتِ حال نے نئے چیلنجز پیدا کر دیے ہیں۔ ایران نے بشار الاسد کی حمایت میں شام میں 7برس تک فوجی مداخلت کی اور شامی فوج کی فتح میں اہم کردار ادا کیا، جس کا وہ نہ صرف برملا اعتراف کرتا ہے، بلکہ اپنی مداخلت کا جواز بھی پیش کرتا ہے۔ یاد رہے کہ شام میں خانہ جنگی کی وجہ سے تقریباً 5لاکھ شامی مسلمان ہلاک اور کم و بیش ایک کروڑ 20لاکھ بے گھر ہوئے، جس کے سبب تارکینِ وطن کا عالمی بُحران پیدا ہوا اور ان کی آہ و بکا اور خستہ حالی نے پوری اُمتِ مسلمہ پر منفی اثرات مرتّب کیے۔ شامی خانہ جنگی کے دوران ہی داعش نےزور پکڑااور پھر اس کا خاتمہ بھی ہوا۔ اسی طرح کُرد مسئلہ اُبھر کر سامنے آیا اور سعودی عرب، ایران تنازعے کو ہوا ملی۔ لہٰذا، مشرقِ وسطیٰ کی موجودہ صُورتِ حال میں پاکستان ایک تنی ہوئی رسّی پر چل رہا ہے اور سعودی عرب اور ایران کے ساتھ تعلقات میں توازن قائم رکھنا اس کے لیے کسی چیلنج سے کم نہیں۔

پاک، ایران تعلقات اور دہشت گردی
خود کُش حملے کا نشانہ بننے والے کولمبو کے ایک گرجا گھر میں پھیلی تباہی کا منظر

 ایران کے بھارت سے بھی قریبی تعلقات ہیں۔ اس کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ نئی دہلی عالمی پابندیاں عاید ہونے کے باوجود تہران سے تیل خریدتا رہا۔اس سے بھی اہم چاہ بہار پورٹ ہے، جسے بھارت بحرِ ہند میں گوادر بندر گاہ کے مساوی اہمیت دیتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ نئی دہلی نے اس کی تعمیر پر سرمایہ کاری کی اور اس کے نتیجے میں وہ افغانستان سے اپنی تجارت بحال کرنے میں کام یاب ہوا۔ یہاں یہ سوال بھی پیدا ہوتا ہے کہ کیا ایران اور بھارت کی اس قُربت کو دیکھتے ہوئے پاکستان کو ایران کو اپنے تحفّظات سے آگاہ نہیں کرنا چاہیے تھا اور عمران خان وزیرِ اعظم پاکستان کی حیثیت سے اس صورتِ حال سے یقیناً لاعلم نہیں ہوں گے۔ پھر ہمیں یہ بھی یاد رکھنا چاہیے کہ پاکستان کے خلیجی ممالک سے غیر معمولی مفادات وابستہ ہیں۔ مثال کے طور پر اقتصادی بُحران پر قابو پانے کے لیے حال ہی میں سعودی عرب اور متّحدہ عرب امارت نے پاکستان کو اربوں ڈالرز اور مؤخر قیمتوں پر تیل فراہم کیا۔ نیز، 45لاکھ سے زاید پاکستانی تارکینِ وطن کی ترسیلاتِ زر کسی بیل آئوٹ پیکیج سے زیادہ اہمیت رکھتی ہیں۔ گرچہ اقتدار میں آنے سے قبل عمران خان پاکستانی حُکم رانوں کے غیر مُلکی دوروں پر معترض رہے ، لیکن سربراہِ حکومت ہونے کے ناتے دوسرے ممالک سے تعلقات استوار یا بہتر کرنا اُن کی ذمّے داری ہے۔ تاہم، ناقدین کا کہنا ہے کہ وہ غیر مُلکی دوروں کے دوران معاشی و خارجہ اُمور کے سلسلے میں بات کرتے ہوئے اُس احتیاط کا مظاہرہ نہیں کرتے، جو پاکستان کا تاثر بہتر بنانے کے لیے اُن کے منصب کا تقاضا ہے۔ نتیجتاً، حکومتی ارکان کو وضاحتیں پیش کرنا پڑتی ہیں۔ مثلاً، دورۂ ایران کے اختتام پر حَسن روحانی کے ساتھ پریس کانفرنس کرتے ہوئے انہوں نے ایران میں دہشت گردی کے لیے پاکستانی سرزمین کے استعمال کا اعتراف تو کیا، لیکن میڈیا کے سامنے ایران میں موجود بی آر اے کی پناہ گاہوں، اس کی پاکستان میں دہشت گردی اور اس پر پاکستان کی تشویش کو باور نہ کروا سکے، جب کہ اس سے قبل معروف امریکی اخبار، نیویارک ٹائمز کو انٹرویو دیتے ہوئے انہوں نے کہا تھا کہ 1980ء کی دہائی میں پاکستانی اداروں نے مجاہدین تیار کیے تھے ، تب ان کی ضرورت تھی، لیکن اب نہیں۔ہو سکتا ہے کہ یہ بات دُرست ہو، لیکن ماضی میں ہم اسے الزام قرار دے کر مسترد کرتے رہے ہیں اور اگر اس بات کا اعتراف کرنا ہی تھا، تو وزیرِ اعظم کا کسی غیر مُلکی سر زمین پر اس قسم کا بیان دینا دانش مندی نہیں اور اس کے نتیجے میں پیچیدگیاں جنم لے سکتی ہیں۔ نیز، اس بات کے اظہار کے لیے دیگر طریقے بھی اختیار کیے جا سکتے تھے۔ اسی طرح جب پاکستانی وزیرِ خارجہ ایران میں موجود بی آر اے کے کیمپس کی نشان دہی اور ایران سے ان کے خلاف کارروائی کا مطالبہ کر چُکے تھے، تو عمران خان کو ایرانی سر زمین پر یہ بات دُہرانے میں کیا اَمر مانع تھا۔ اس سلسلے میں بعد ازاں حکومت کی جانب سے یہ وضاحت پیش کی گئی کہ وزیرِ اعظم بند کمرے میں ایرانی رہنمائوں کے سامنے اپنے تحفّظات پیش کر چُکے تھے۔ اسی طرح عمران خان نے ایران میں فرانس کی بہ جائے جاپان اور جرمنی کی جنگوں اور مشترکہ سرحدوں کی جو مثال پیش کی، وہ بھی اُن کے مُشیروں اور معاونین پر ایک بوجھ بن چُکی ہے۔ کسی لیڈر کی جانب سے بیرونِ مُلک اپنی سیاسی بصیرت کا اظہار کوئی غلط عمل نہیں، لیکن اظہار کرتے وقت مُلکی مفادات اور وقار کا خیال رکھنا ہی سفارت کاری کی شان ہے۔ تاہم، یہ رموز تجربہ سکھاتا ہے۔ علاوہ ازیں، ہمارے اربابِ اقتدار اور سیاست کو بھی سمجھ لینا چاہیے کہ خارجہ امور کی اپنی نزاکتیں ہوتی ہیں۔

پاک، ایران تعلقات اور دہشت گردی
سری لنکن صدر، میتھری پالا سری سینا

دوسری جانب سری لنکا میں دہشت گردوں کے ہاتھوںبے دردی اور وحشیانہ انداز سے 350سے زایدافراد کی ہلاکت نے نہ صرف اس چھوٹے سے جزیرے کو سوگ وار، بلکہ پوری دُنیا کو غم زدہ بھی کر دیا۔ ہلاک شدگان میں 45بچّے اور دُنیا کے متعدد ممالک سے تعلق رکھنے 38افراد بھی شامل تھے، جب کہ زخمیوں کی تعداد 500سے زاید بتائی جاتی ہے۔ اس اندوہ ناک واقعے کے بعد پورے مُلک میں ایمرجینسی نافذ کر دی گئی۔ یاد رہے کہ سری لنکا میں 30سالہ خانہ جنگی کے خاتمے کے بعد یہ سب سے بڑا سانحہ ہے۔سری لنکن حکومت نے اس دہشت گردی کا ذمّے دار توحید نیشنل جماعت (ٹی این جے) سے تعلق رکھنے والے افراد کو ٹھہرایا، لیکن ساتھ ہی یہ بھی کہا کہ دہشت گرد کسی بین الاقوامی نیٹ ورک کی مدد کے بغیر اتنی بڑی واردات نہیں کر سکتے تھے اور پھر داعش نے اس واقعے کی ذمّے داری قبول کر لی،حالاں کہ امریکا نے مارچ اور رُوس، ایران اور شام نے اس سے بھی قبل داعش کے مکمل خاتمے کا اعلان کیا تھا۔ سری لنکا میں دہشت گردوں نے ایسٹر کے موقعے پر دارالحکومت کولمبو سمیت دیگر دو شہروں میں گرجا گھروں اور ہوٹلوں کونشانہ بنایا۔ سری لنکا کی آبادی 2کروڑ 20لاکھ نفوس پر مشتمل ہے، جس میں مسلمانوں کی تعداد 11فی صد یعنی 21لاکھ ہے۔ سری لنکن حُکّام انہیں پُر امن شہری قرار دیتے ہیں، کیوں کہ یہ مُلکی سیاست میں بہت کم حصّہ لیتے ہیں اور اپنے کام سے کام رکھتے ہیں۔ سری لنکا کی آبادی کی اکثریت بودھ مَت کے پیروکاروں پر مشتمل ہے اور گزشتہ چند برسوں میں ایک مقامی انتہا پسند تنظیم، سنہالا بودھ بالا مسلمانوں کے خلاف نفرت پھیلاتی رہی ہے۔ اس کا ماننا ہے کہ مسلمانوں سے اکثریت کو خطرہ لاحق ہے، حالاں کہ مسلمانوں کی آبادی دیکھتے ہوئے اس الزام کو مضحکہ خیز ہی قرار دیا جا سکتا ہے اور پھر سری لنکا کی سیاست و معیشت میں بھی مسلمانوں کا کوئی قابلِ ذکر کردار نہیں۔ بہر کیف، ان حملوں نے سری لنکن عوام اور حکومت کو صدمے میں مبتلا کر دیا، کیوں کہ تامل بغاوت کی بیخ کنی کے بعد مُلک بَھر میں امن قائم ہو چُکا تھا۔ اس موقعے پر کئی سری لنکن حُکّام نے یہ انکشاف بھی کیا کہ پڑوسی مُلک کے انٹیلی جینس اداروں نے ان حملوں سے متعلق پہلے ہی خبردار کر دیا تھا اور وہ اس دہشت گردی کو اعلیٰ ترین سطح پر سیکوریٹی اداروں کی ناکامی قرار دیتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ اس وقت متعلقہ اداروں میں تطہیر کا عمل شروع ہو چُکا ہے۔ ناقدین کا کہنا ہے کہ این ٹی جے ایک چھوٹی تنظیم ہے اور وہ اس قدر وسیع پیمانے پر حملوں کی صلاحیت نہیں رکھتی۔ البتہ داعش کی جانب سے دہشت گردی کی ذمّے داری قبول کرنا اہمیت کا حامل ہے۔ سری لنکن حُکّام نے جن حملہ آوروں کی نشان دہی کی ہے، کم و بیش وہ تمام ہی اعلیٰ متوسّط اور متوسّط طبقے سے تعلق رکھنے والے نوجوان ہیں اور ان میں سے بعض نے تو برطانیہ اور آسٹریلیا میں تعلیم حاصل کی۔ ماہرین کا ماننا ہےکہ مستقبل میں دہشت گردی کی روک تھام سری لنکن سیکوریٹی فورسز کے لیے ایک بڑا چیلنج ہوگا، کیوں کہ سیّاحت اس مُلک کی آمدنی کا ایک بڑا ذریعہ ہے اور اس کے لیے مُلک میں امن بے حد ضروری ہے۔

تازہ ترین