• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

ریاض سہیل

کراچی میں رتن تلاؤ اسکول کی عمارت پر بھارت کا ترنگا پرچم، بر صغیر میں ماضی کے مشترکہ ورثے کی یادگار ہے۔کراچی شہر میں بہت کم ایسی پرانی عمارتیں ہیں، جن پر نظریں آکر رک جاتی ہیں، پریڈی تھانے کے قریب واقع ’رتن تلاؤ‘ اسکول کی عمارت کا شمار بھی انہیں میں کیا جاسکتا ہے۔

عمارت کی بیرونی دیوار پر نظر پڑتے ہی چند لمحوں کے لیے یہ خیال ذہن میں آتا ہے کہ شاید ہم موجودہ ہندوستان کے کسی شہر میں ہیں اور کسی دیش پریمی نے عمارت پر ترنگا بنوایا ہے، مگر جب نظریں آس پاس کا ماحول دیکھتی ہیں تو پتہ چلتا ہے کہ نہیں یہ تو پاکستان کا شہر کراچی ہے۔

اس عمارت پر ضرب کے نشان بناتے ہوئے بھارتی قومی پرچم سیمنٹ سے بنے ہوئے ہیں، جن کا رنگ برسوں کی دھوپ، بارش اور دھول بھی تبدیل نہیں کرسکے۔ جھنڈوں کے ساتھ ہندی زبان میں کچھ تحریر تھا، معلوم کرنے پر پتہ چلا یہ ’سوراج بھون‘ تحریر ہے۔

عمارت کے داخلی راستے پر سرکاری اسکول کی تختی لگی ہوئی ہے، یہ عمارت تین منزلہ ہے ۔ ہر منزل پر تین کمرے بنے ہوئے تھے، جن میں پارٹیشن کرکے مزید کمرے بنا لیےگئے ہیں اور بالائی منزل پر ایک ملازم رہائش پذیر ہے۔ اس اسکول کی عمارت میں دو شفٹیں لگتی ہیں۔ یہ عمارت متروکہ وقف کی پراپرٹی ہے۔

یہ عمارت انیس سو تینتیس میں تعمیر ہوئی ہے۔ اُس وقت اس علاقے میں صرف ایک ہی اسکول ہوا کرتا تھا،اسکول کا کوئی پرانا ریکارڈ وغیرہ موجود نہیں۔

داخلی دروازے کے پاس سنگ بنیاد موجود تھا جو اب زمین میں دب گیا ہے۔دیوار سے مٹی ہٹائی تو سنگ مرمر کے دو سلیں نظر آئیں، جن پر پان کی پیکیں، گریس اور تیل چڑھا ہوا تھا۔ ان پتھروں پر ہندی زبان میں یہ تحریر تھا ’ کراچی ضلع مہاسبھا کے صدر راجندر پرساد نے اس عمارت کا افتتاح کیا‘۔ واضح رہے کہ کراچی ان دنوں میونسپل کمیٹی اور ڈسٹرکٹ لوکل بورڈ میں تقسیم تھا۔ ضلع مہاسبھا یعنی ڈسٹرکٹ لوکل بورڈ کی حدود اس وقت کراچی سے موجودہ جامشورو اور ٹھٹہ اضلاع تک تھی۔

سنگ بنیاد کی حالت دیکھ کر ایسا محسوس ہوتا ہے کہ اس دور کے لوگ ہی ایک دوسرے کی نفرت کا شکار نہیں ہوئے بلکہ زبان اور تعمیرات بھی اس جبر سے خود کو محفوظ نہیں رکھ سکیں، جس کا ثبوت ہندی اور اس دور کی عمارتوں سے لوگوں کی لاتعلقی ہے۔رتن تلاؤ اسکول کا سنگ بنیاد ، جس پر پان کے پیکوں کے باوجود ہندی زبان میں تاریخ لکھی نظر آرہی ہے۔

رتن تلاؤ سکول میں اردو اور سندھی کے نامور کالم نگار اور ڈرامہ نویس امر جلیل بھی زیر تعلیم رہے ہیں، انہوں نے انیس سو بیالیس سے انیس سو چھیالیس تک چار جماعتیں اسی سکول میں پڑھیں۔

کتاب ’’ کراچی سندھ کی ماری “ کے مصنف گل حسن کلمتی لکھتے ہیں کہ جنوری انیس سو سینتالیس کے فسادات میں سب سے زیادہ متاثر رتن تلاؤ کا علاقہ ہوا ۔

بقول ان کے انیس سو پیتنالیس کے تاریخی حادثے نے اس شہر کا حلیہ ہی بگاڑ دیا لاکھوں لوگ تاریخ کے جبر کا شکار ہو کر یہ شہر چھوڑ گئے ۔

رتن تلاؤ اسکول کی عمارت پر موجود بھارتی پرچم اس وقت کا ہے جب یہ پورا خطہ مشترکہ ہندوستان تھا، دوسرے الفاظ میں یہ پرچم اس خطے کا مشترکہ ورثہ بھی رہ چکا تھا۔

اس اسکول کے آس پاس اور بھی کچھ ایسی عمارتیں دکھائی دیں جو اُس زمانے میں مندر اور دھرم شالا ہوا کرتیں تھیں، مگر آج صرف ان کی باقیات موجود ہیں، جو امام بارگاہ اور گاڑیوں کے گیراج میں تبدیل ہوچکی ہیں۔

کراچی چیمبرز آف کامرس کی خوبصورت عمارت میں موجود یاددگار سنگ بنیاد کا افتتاح مہاتما گاندھی نے کیا تھا، مگر قیام پاکستان کے بعد اس سنگ بنیاد کو غیر ضروری سمجھتے ہوئے نظر انداز کردیا گیا۔ کبھی تو اس پر سیاسی اور اشتہاری پوسٹر لگاکر چھپا دیا جاتا رہا اور بعد میں نئی تعمیر کے وقت باقاعدہ دیوار میں چن دیا گیا۔

سندھ سکریٹریٹ اور اسمبلی کی عمارت کے قریب کبوتر چوک پر لگے ہوئے گاندھی کے کانسی کے یاددگار مجمسے کو بھی تقسیم کے فوری بعد ہٹادیا گیا ۔

رتن تلاؤ اسکول کی عمارت پر یہ پرچم اور ہندی تحریر بھی شائد اب تک اس لیے محفوظ نظر آئے کہ یہ تیسری منزل پر ہیں۔

تازہ ترین