شجاعت حمیدی بدایونی
پاکستان کے قیام کے بعد کراچی کو علمی و ادبی اور تعلیمی اعتبار سے مرکزیت کا درجہ حاصل ہوا۔اس کی سب سے بڑی وجہ یہ تھی کہ ہندوستان سے پاکستانی مہاجرین کی اکثریت، اور خاص طور پر متوسط اور تعلیم یافتہ طبقے نے کراچی کا رخ کیا جن میں نامور شعراء، دانشور اور ادیب کثیر تعداد میں شامل تھے جنہوں نے اس شہر کو وسعت، رونق اور بے پناہ ترقی سے ہمکنار کیا۔
یہاں ہجرت کرکے آنے والے اپنے ساتھ علمی و ادبی ذوق کا ورثہ بھی لائے تھے ان میں وہ دانشور بھی تھے جو اپنا ذاتی یا آبائی علمی ادبی ذخیرہ بھی اپنے ساتھ لے آئے جو ذاتی کتب خانوں کی زینت اور شہر کی ایسی شناخت کا سبب بنا جس نے اس شہر کو اور اس کے رہنے والوں کو ملک بھر کے علمی و ادبی ماحول میں وقعت اور امتیاز بخشا۔
اس موقع پر بابائے اردو مولوی عبدالحق کی اردو ادب کی ترویج میں جو نمایاں خدمات تقسیم کے بعد تھیں جس کے ذریعہ ادب کو نہ صرف عروج ملا بلکہ اردو زبان کو عالمی اور ادبی شہرت بھی حاصل ہوئی۔آپ نے انجمن ترقی اردو کی علمی و عملی سرگرمیوں کا آغاز کیا اور دہلی سے نہایت قیمتی و نادر کتب خانہ کو کراچی منتقل کرکے اس شہر کو امتیازی بنا دیا۔
کراچی یونیورسٹی کےقیام کے ساتھ ہی اس میں" شعبہ اردو"کا قیام عمل میں آیا، جو ابتدائی دور میں مولوی عبدالحق کی سرپرستی میں رہا۔ 1956ء میں بدایوں کی اعلی علمی شخصیت ڈاکٹر ابواللیث صدیقی اس شعبےکے صدر نامزد ہوئے اور 1976 تک اسی عہدےپر فائز رہے ۔یوں یہ شعبہ ان کی سربراہی میں تقریبا" بیس سال تک رہا۔1976 میں ملازمت سے سبکدوشی کے بعد کراچی یونیورسٹی نے انھیں ان کی طویل علمی خدمات کے صلے میں ’’پروفیسر ایمر یطس ‘‘کا اعزاز دیاکیا۔
ڈاکٹر ابواللیث صدیقی جب تک اس شعبے سے بحثیت صدر منسلک رہے اس کی شناخت بنے رہے ۔ان کے دور میں کئی اساتذہ کا تقرر ہوا جو علمی و تصنیفی سرگرمیوں کی وجہ سے معروف ہوئے لیکن ڈاکٹر ابواللیث کی شہرت اور ان کی عزت و توقیر ان سب کے مقابلے میں نمایاں رہی۔اس میں ان کے جاہ و جلال کا بھی بڑا دخل رہا جس میں طلباء سے ایک باوقار فاصلے کو برقرار رکھنا بھی شامل تھا۔
کراچی آمد سے پہلے ڈاکٹر صاحب 1950 سے 1956 تک پنجاب یونیورسٹی کے شعبہ اردو سے وابستہ رہے، اس سے قبل 1938ء سے 1948ء تک علیگڑھ مسلم یونیورسٹی کے "شعبہ اردو " میں بحیثیت لیکچرار خدمات انجام دیں، گویا کراچی یونیورسٹی سے وابستگی سے قبل ہی وہ ایک تجربہ کار اور صاحب ذوق و جستجو استادی حیثیت حاصل کر چکے تھے۔ان کا تحقیقی مقالہ "لکھنو کا دبستان شاعری " ادبی و تحقیقی میدان میں ان کی شناخت بن چکا ہے۔ڈاکٹر صاحب کا آبائی وطن " بدایوں تھا" جو اس وقت یوپی کا ادبی، شاعروں، دانشوروں کےشہر کے نام سے پہچانا جاتا تھا۔
شاعروں میں فانی بدایونی، شکیل بدایونی، منور بدایونی، محشر بدایونی، ادا جعفری، زہرہ نگاہ، ریاض فرشوری، دلاور فگار سمیت ایک لمبی قطار ہے۔ڈاکٹر صاحب کا آبائی وطن بدایوں ضرور تھا لیکن ان کی پیدائش 15 جون 1916 میں آگرہ میں ہوئی ،اس وقت ان کے والد محترم مظفر علی آگرہ کی اعلی عدالت خفیفہ میں بحیثیت رجسٹرار اپنے فرائض انجام دے رہے تھے۔ ڈاکٹر صاحب کی ابتدائی تعلیم " وکٹوریہ ہائی اسکول،آگرہ مشن اسکول، اور اسلامیہ ہائی اسکول بدایوں میں ہوئی،پھر علیگڑھ مسلم یونیورسٹی میں داخل ہوئے جہاں سے 1944ء انہوں نے پروفیسر رشید احمد صدیقی کی نگرانی میں پی ایچ ڈی کی تکمیل کی۔ زمانہ طالب علمی ہی سے مضامین و مقالات لکھنے لگے تھے جو جامعہ دہلی، علیگڑھ میگزین اور دیگر اشاعتی میگزینوں اور جرائد میں شائع ہوتے رہے ۔
تنقید اور تحقیق میں ڈاکٹر صاحب کو دلچسپی یکساں طور پر تھی بعد میں لسانیات اور خاص طور پر اردو لسانیات ان کا محبوب موضوع بن گیا۔ ان کے پی ایچ ڈی کے تحقیقی مقالے (لکھنو کا دبستان شاعری )جو شعبہ اردو مسلم یونیورسٹی علیگڑھ کا پہلا تحقیقی کام تھا انہیں اس زمانے میں شہرت سے ہمکنار کر دیا تھا۔علی گڑھ سے متعلق کئی اہم خود نوشت سوانح عمریاں اب تک منظر عام پر آ چکی ہیں جن میں علی گڑھ کا ماحول اور وہاں کی زندگی اور شخصیات ہمارے لیے پرکشش بھی ہے۔لیکن ڈاکٹر صاحب کی " رفت و بود" ان میں کئی اعتبار سے زیادہ معلوماتی اور دلچسپ اور مفید ہے ۔
اس میں ڈاکٹر صاحب کے بے ساختہ اسلوب کا بھی بڑا دخل ہیے ۔ان کا حافظہ بڑا قوی اور حاضر تھا اور حالات و واقعات کی جزیات انھیں خوب یاد تھیں۔خود نوشت کا سارا مسودہ قلم برداشتہ وہ تحریر کرتے رہے جس میں کانٹ چھانٹ یا ردوبدل شاذ ہی کہیں نظر آتا ہے ۔
وہ کہا کرتے تھے کہ میری زندگی میں میرے خیال میں کوئی بات غیر معمولی نہیں نہ میں غیر معمولی حالات و واقعات سے دو چار ہوا ۔ درس و تدریس اور تحقیق میں اتنا مصروف رہتا ہوں کہ اپنی ذات کے بارے میں لکھنا مشکل نظر آتا ہے ۔1994میں ڈاکٹر ابواللیث صدیقی کا انتقال ہوا لیکن ان کی خدمات ہمیشہ یاد رہیں گی۔