• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
پنجاب کے وزیر تعلیم نے نہایت دانشمندانہ اعلان کیا ہے کہ صوبے کے تعلیمی نظام میں انگریزی کو لازمی زبان قرار دینے کی بجائے اختیاری بنا دیا جائے گا تاکہ بچے زبان سیکھنے کی بجائے علم پر توجہ مرکوز کر سکیں۔ یہ بھی ادھورا سچ ہے کیونکہ تمام ماہرین کی رائے ہے کہ بنیادی تعلیم بچے کی مادری زبان میں ہونا لازمی ہے اور قومی یا بین الاقوامی زبانیں بعد میں سیکھی جا سکتی ہیں۔ چین، جاپان، کوریا اور دنیا کے اکثر ممالک نے مادری زبانوں میں تعلیم دے کر اتنی شاندار ترقی کی ہے۔ اب وقت آگیا ہے کہ جذباتیت کو ترک کرتے ہوئے ہم سماجی علوم کے ماہرین کی رائے کو تسلیم کرتے ہوئے تعلیم میں وہ زبان استعمال کریں جو کلرک نہیں ماہرین پیدا کرے۔
وزیر تعلیم کا یہ تسلیم کرنا خوش آئند ہے کہ ہمارے بچے صرف ایک بیرونی لازمی زبان کے سیکھنے میں اپنا زیادہ تر وقت برباد کرتے ہیں اور اصل علم کی طرف توجہ نہیں دیتے۔ بطور طالب علم اور استاد کے بھی میر ایہی تجربہ ہے کہ انگریزی کے لازمی مضمون ہونے کی وجہ سے بہت سے ذہین وفطین طلباء اور طالبات پیچھے ہی نہیں رہ جاتے تعلیمی میدان میں برباد ہو جاتے ہیں۔لیکن ہم گنگا کو الٹی بہانے کے ماہر ہو چکے ہیں لہذا بجائے اس کے کہ ہم تعلیم کو مقامی زبانوں میں منتقل کرتے، ہم نے انگریزی کو پرائمری اسکول سے لازمی قرار دے کر مزید تباہی کا راستہ اختیار کیا۔ بچوں کو ایک سطح پر مساوی مواقع فراہم کرنے کے نام پر ہم نے علم حاصل کرنے کے مصدقہ اصولوں کی نفی کی۔ ہمارے بچوں کو ٹائی باندھنا تو شاید آگیا لیکن وہ علم کی گہرائی سے دور ہو گئے۔ نام نہاد مساوی مواقع فراہم کرنے سے نظام تعلیم میں طبقاتی بعد اور بھی بڑھ گیا۔ ہمیں علم ہونا چاہئے تھا کہ غیر زبان کو ذریعہ تعلیم بنانے سے اوپر کے کے طبقوں کو ہی فائدہ ہوتا ہے۔دنیا کے مختلف ملکوں میں ذریعہ تعلیم پر بے شمار تحقیق ہو چکی ہے۔ ہر تحقیق ایک ہی نتیجے پر پہنچی ہے کہ بچہ اپنی مادری زبان میں سب سے بہتر اور تیزی سے سیکھتا ہے۔ کینیڈا میں ہونے والی اس نوع کی تحقیق میں یہ بھی ثابت کیا گیا ہے کہ وہ بچے جو اپنی مادری زبان سے جڑے ہوتے ہیں، ان کے لئے دوسری زبانیں سیکھنا بھی آسان ہو تا ہے۔ اگر ایسا نہ ہوتا تو اردو میڈیم اسکولوں کے بچے انگریزی کے مصنفین نہ بن سکتے۔ لیکن دوسری زبانوں پر عبور حاصل کرنے کی صلاحیت ہر ایک میں نہیں ہوتی۔ بہت سے لوگ غیر زبان کو سیکھنے میں ناکام ہوجاتے ہیں لیکن باقی ہر مضمون میں بہترین کارکردگی کا مظاہرہ کرتے ہیں۔ اسی طرح عملی زندگی میں بھی مختلف پیشوں کے بہترین ماہرین (مستریوں) کو شاید اپنی زبان کے علاوہ کوئی دوسری زبان نہیں آتی ۔
مثال کے طور پر آپ اپنے معاشرے میں سائنس کا عملی اطلاق دیکھئے ۔ مختلف مشینوں (ریفریجیٹرز سے لیکر کاروں تک) کو چلانے اور ان کی مرمت وغیرہ کرنے والے مستریوں کو عام طور پر صرف اپنی مادری زبان ہی آتی ہے۔ وہ اسی زبان میں سیکھتے ہیں اور شاگردوں کو سکھاتے ہیں۔ انہوں نے پیچیدہ مشینوں کے مختلف حصوں کے نام بھی اپنی زبان میں ہی رکھے ہوتے ہیں ۔ المختصر پیداواری ذرائع میں کام کرنے والے کارکن اپنی ہی زبان میں سائنسی حقائق کو سمجھتے ہیں ۔ جبکہ طلبہ اسکولوں کالجوں سے سائنس پڑھے ہوئے لوگوں کو شاید بجلی کا بلب بھی لگانا نہیں آتا۔ ظاہر بات ہے کہ کچھ پیشوں (میڈیکل سائنس) میں ابھی تک یہ طریق کار عام نہیں ہوسکا لیکن چین جاپان یا دوسرے ملکوں میں میڈیکل سائنس بھی مقامی زبانوں میں پڑھائی جاتی ہے ۔ہمارے ہاں جو کچھ ہوا اس کی پیشگوئی بہت پہلے کی جا چکی تھی۔ جب انگریزوں نے پنجاب پر قبضہ کیا تو انگریز افسروں میں کافی مباحثہ ہوا جس کی تفصیلات گورنمنٹ کی شائع کی ہوئی محمد رفیق کی کتاب ”پنجاب میں اردو کا اطلاق “میں موجود ہے۔ یہ کتاب ان خطوط پر مشتمل ہے جو کہ مختلف انگریز افسروں نے زبان کے اطلاق کے بارے میں ایک دوسرے کو لکھے۔ اس میں شاہ پور (موجودہ سرگودھا) کے ڈپٹی کمشنر میجر ولسن کی دلیل تھی کہ اگر پنجاب میں خواندگی کو عام کرنا ہے تو پنجابی کو ذریعہ تعلیم بنایا جائے۔ اپنی دلیل کے حق میں انہوں نے برطانیہ کی مثال دیتے ہوئے کہا کہ جب تک وہاں تعلیم لاطینی زبان میں دی جاتی تھی تب تک بہت کم لوگ خواندہ تھے پھر جب فرانسیسی کو ذریعہ تعلیم بنایا گیا تو خواندگی میں کچھ اضافہ ہوا کیونکہ وہ انگریزی کے قریب تھی۔ ان کا کہنا ہے کہ برطانیہ میں عام خواندگی اسی وقت ممکن ہوسکی جب انگریزی کے ایک لہجے (سیلٹک) کو معیاری مان کر اسے ذریعہ تعلیم بنایا گیا۔ میجر ولسن کی پیشگوئی درست ثابت ہوئی اور ہمارے ہاں اب بھی حقیقی خواندگی بہت ہی کم سطح پر ہے۔برصغیرمیں انگریزی کو لازمی مضمون قراردینا انگریزی سامراج کی بنیادی ضرورت تھی۔ انہیں اپنا نظام حکومت چلانے کے لئے انگریزی پڑھے ہوئے لوگوں کی ضرورت تھی لیکن انہوں نے بھی انگریزی کو چھٹے درجے سے لازمی قراردیا۔ ظاہر بات ہے اس نظام میں صرف وہی ترقی کر سکتے تھے جن میں بیرونی زبان سیکھنے کی استعداد ہو۔ انگریز کا مقصد علم سے بہرہ ور کرنے کی بجائے حکومتی عامل پیدا کرنا تھا اور یہی کچھ ہوا۔ بہت سے لوگ افسر شاہی میں تو شامل ہوتے گئے لیکن ان کی علمی سطح بہت ہی نچلے درجے کی تھی۔ اسی لئے ہمیں اس پورے زمانے میں دیسی سماجی یا سائنسی ماہرین دکھائی نہیں دیتے۔ انگریز کے جانے کے بعد ہونا تو یہ چاہئے تھا کہ ہم انگریزی کو اختیاری مضمون میں تبدیل کرکے نظام تعلیم کو حقیقی علم کا ذریعہ بناتے لیکن ہم نے انگریز کی روش اپنائے رکھی اور نتیجتاً ہم عملی میدان میں بہت پیچھے رہ گئے۔ اس کے الٹ جاپان ، چین ، کوریااور مشرق بعید کے دوسرے بہت سے ملکوں نے مادری زبانوں کو ترقی دے کر معاشی میدان میں معجزے کر دکھائے۔ ہندوستان میں زیادہ تر ترقی جنوبی ریاستوں میں ہوئی ہے جہاں مقامی زبانیں بہت مضبوطی سے اپنے پاوٴں پر کھڑی ہیں ۔ اور شاید یہی وجہ ہے کہ ان کو انگریزی اور دوسری بیرونی زبانوں پر بھی بہتر عبور ہے۔ اس کے الٹ شمالی ہندوستان اور پاکستان میں ابھی تک زبان کے بارے میں سخت ابہام پایا جاتا ہے اور شاید ایک اس وجہ سے بھی ترقی کی رفتار سست ہے۔
مادری زبانوں کو ذریعہ تعلیم بنا نا کوئی جادو کا کھیل نہیں ہے کہ ان سے خود بخود ترقی ہونا شروع ہو جائے گی۔ دنیا میں عرب ممالک کی طرح کے بہت سے ملک ہیں جہاں بنیادی تعلیم مادری زبانوں میں دی جاتی ہے لیکن وہ ترقی یافتہ ملکوں کی صف میں کھڑے نظر نہیں آتے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ مادری زبانوں کا ذریعہ تعلیم بننا ایک بنیادی لازمی شرط ہے لیکن یہ ترقی کے لئے کافی نہیں۔ معاشی، سماجی اور سیاسی طور پر ترقی کرنے کے لئے بہت سے دوسرے اہم عناصر بھی موجود ہونا چاہئیں۔ لیکن اگر کہیں سے شروع کرنا ہے تو پنجاب کے وزیر تعلیم نے بہتر شروعات کاعندیہ دیا ہے۔
تازہ ترین