• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

برٹش نیشنل پارٹی(پی این پی) کے چیئرمین اور پارٹی سربراہ نے پارٹی کتابچہ کی اس تحریر کا دفاع کیا ہے جس میں کہا گیا کہ ملک میں ’’ سیاہ برطانوی‘‘ اور ’’ ایشیائی برطانوی‘‘ نہیں پائے جاتے جبکہ ایسا کہنا خون بہائے بغیر نسل کشی کرنا ہے۔ نشریاتی ادارے کو دیئے گئے اپنے ایک انٹرویو میں گریفن نے کہا کہ نسلی طور پر جو افراد غیر ملکی ہیں انہیں برطانوی کہنا مناسب نہیں اس کے بجائے نسلی غیر ملکیوں، کا لفظ استعمال کرناچاہیے کتا بچے کے مواد پر تبصرہ کرتے ہوئے گریفن نے کہا کہ سماجی بنیادوں پر یہ افراد سیاہ برطانوی رہائشی ہیں اس سے بڑھ کر زیادہ برطانوی نہیں ہیں جیسے کوئی ہانگ کانگ میں رہنے والا انگلش شخص چینی ہے۔

1990کے آغاز سے یورپ ایک ایسے مسئلے سے دوچار ہے جسے وہ’’ مسلم مسئلہ ‘‘ کہتا ہے یہ مسئلہ کیا ہے؟ آئیے میں اپنے حساب سے عرض کرتا ہوں، مسلم تارکین وطن جو یورپ میں آکر آباد ہوگئے ہیں15سے بیس ملین کے لگ بھگ ہیں جن میں دو ملین سے زائد صرف انگلینڈ میں ہیں۔ یورپ بھرمیں بسنے والے یہ لوگ اب تک خودکو یورپ کی سوسائٹی، جسے آپ معاشرہ اورسماج بھی کہتے ہیں، سے ہم آہنگ نہیں کرسکے یا ہوسکے اور یہاں رہتے ہوئے بھی یہ اپنی ایک الگ تھلگ دنیا میں جی رہے ہیں کہ یہ لوگ اپنا ماضی بھی کاندھے پر اٹھائے چلتے پھرتے ہیں اور یہی بات ترقی یافتہ یورپ برداشت نہیں کرسکتا کہ اس سے کشیدگی پیدا ہوتی ہے اور اب یہی کشیدگی اس کی قوت برداشت سے باہر ہورہی ہے۔ تقریباً ہر یورپین کے دل میں یہ بات چھپی ہوئی ہے کہ مسلم تارکین وطن کی موجودگی یورپ کی مجموعی ترقی کیلئے مضر ہے اس پربم دھماکے ، فسادات ، حجاب پردہ برقع اور حلال اشیا کیلئے مسلمانوں کے مطالبات،شرعی عدالتیں اور القاعدہ وداعش وطالبان سے ان کی ہمددریاں ان کو مغرب کی نظروں میں مشکوک بناتی ہیں، یورپین اسکو اپنے لئے ایک طنز اور خوف سمجھتے ہیں۔ آپ کو یاد ہوگا کچھ عرصہ قبل گستاخانہ خاکوں کے خلاف لندن میں جو مظاہرے ہوئے تھے ان میں ایک پاکستانی نوجوان عمر خیام، جس کو جیل کی سزا ہوچکی تھی اور جو پیرول پررہا ہوا تھا،نے ایک خودکش بمبار کا لباس اور کیل کانٹے سے لیس ہوکر مظاہرے میں شرکت کی تھی، کرکٹ اور فٹ بال کے عاشق اہل لندن اپنے درمیان ایک خودکش کو کیسے برداشت کرسکتے ہیں؟ یہ بھی حقیقت ہے کہ وہ خودکش نہیں تھا لیکن یہ لباس اس کے ذہن کی شعوری یا لاشعوری خواہش کا اظہار یقیناً تھا اور پھر اس مظاہرے میں لوگوں نے اسامہ کے حق میں نعرے لگائے اسامہ کو بلائو ’’ اسامہ آن دی وئے‘‘۔ ان تمام باتوں سے یورپین یہ بات محسوس کرتے ہیں کہ اس قسم کی ذہینت کبھی بھی ان کیلئے خطرہ بن سکتی ہے۔ انگلینڈ میں مسلم امہ کے جو راہنما ہیں ان کا کیا رویہ ہے اسکی ایک مثال پیش کرتا ہوں۔ ایک مسلم تنظیم کے راہنما اور ترجمان ایک پاکستانی انجم چودھری سے جب بی بی سی کے نمائندے جرمی پیکس مین نے یہ سوال کیا کہ ’’ آپ ایسے ملک میں کیوں رہ رہے ہیں جہاں کی اقدار وتہذیب آپ کو پسند نہیں ہیں؟‘‘ اس کا جواب تھا آپ سے یہ کس نے کہہ دیا کہ برطانیہ انگریزوں کی ذاتی ملکیت ہے؟ اگر مجھے رہنے کیلئے کسی جنگل میں جانا پڑا تو میں جانوروں کی طرح نہیں رہونگا، میں خود بھی ڈھنگ سے رہونگا اور جنگلیوں کوبھی جینے کا سلیقہ اور طریقہ سکھائو نگا۔‘‘میرے حساب سے ایسا کہنے والے کی دوہی صورتیں ہیں یا تو وہ خودفریبی کا شکار ہے یا پھر عقل وہوش سے بیگانہ اور خلل دماغ کامریض ہے اگر وہ صحیح الدماغ بھی ہو اور خوف فریبی کا شکار نہ بھی ہو تو پھر یہ طے ہے کہ وہ جان بوجھ کرخلق خدا کو دھوکہ دےرہا ہے ۔میں نے اپنے اس کالم کے آغاز میں برطانیہ کی جس سیاسی پارٹی

برٹش نیشنل پارٹی(بی این پی) کاذکر کیا ہے فنانشل ٹائمز کے مطابق بی این پی کے ترجمان نے بتایا ہے کہ پارٹی کی طرف سے ان پمفلٹوں کی تقسیم کا مقصد مسلمانوں کے جذبات واحساسات کو مجروح کرنا نہیں بلکہ عوام کو یہ سوچنے کا موقع دینا ہے کہ مغرب کی جمہوری اقدار اور مسلمانوں کی قرون وسطیٰ کی اقدار میں کتنی خلیج حائل ہے یہ نظریہ اپنی جگہ پر سچ ہے لیکن تجزیہ نگاروں کاخیال ہے کہ مغربی ممالک کی حکومتیں اور یورپین پارلیمنٹ ان کے مسائل کو حل کرنے میں ناکام ہوچکی ہیں اس لئے اب میڈیا کواس کے بارے میں کچھ کرنا ہوگا۔ آج کے مسلمانوں کی رہنمائی کرنے والے مولویوں اور نام نہاد دانشوروں کی اکثریت ساتویں اور آٹھویں صدی کی اسلامی روایات کو مثال سمجھتی ہے اور ان کا یقین ہے کہ ان روایات کی بحالی ہی دنیا پر اسلام کو غلبہ دلانے کا واحد طریقہ ہے۔ ہر ’’باشعور‘‘ مسلمان پرلازم ہے کہ وہ اس گروہ کو ’’ساتویں‘‘ صدی کی ذہنیت سے باہرنکالے۔ میرے حساب سے جمہوریت جیسی بھی ہو اپنے اندر ایک خاص طرز کا حسن وجمال رکھتی ہے۔ اس میں ایک منفرد قسم کا بانکپن اور جلال پایا جاتا ہے، جمہوری ملکوں کے جمہوری حکمران، دانشور ، ادیب وشاعر اور فنکار وصحافی ہر آن عوامی جذبہ واحساس کی پوٹلی اپنی بغل میں رکھتے ہیں اور ملک وقوم اور سوسائٹی پر آئے بُرے وقت اور فیصلے کی ہر گھڑی میں اس کی خوشبو سے رہنمائی لیتے ہیں۔ آج ہمیں جن حالات کاسامنا ہے وہ تہذیبوں کا تصادم نہیں بلکہ وہ تصادم ہے جو غیر رواداری کے سبب پیدا ہوئے ہیں۔ ایسا کیوں ہے؟ میں بھی سوچتا ہوں آپ بھی سوچئے۔

تازہ ترین