• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

عالمی ادارۂ صحت کے زیرِ اہتمام دُنیا بَھر میں ہر سال 12نومبر کو ’’ورلڈ نمونیا ڈے‘‘ منایا جاتا ہے، جس کا مقصد ہر سطح تک مرض سے متعلق آگاہی عام کرنا ہے، تاکہ اس سے ہونے والی اموات کی شرح پر قابو پایا جاسکے۔اِمسال اس یوم کے لیے 2020ء ہی کا تھیم دہرایا گیا ہے، جو "Stop Pneumonia/Every Breath Counts" ہے۔ 

نمونیا کا مرض پوری دُنیا میں عام ہے، جس کا اندازہ اس بات سے لگائیے کہ صرف امریکا میں ہر سال ایک ملین(10لاکھ)بالغ افراد اس مرض سے متاثر ہوجاتے ہیں، جن میں سے4لاکھ کو اسپتال میں داخلے کی ضرورت پڑتی ہے اور ان میں سے20,000سے زائد افراد انتقال کر جاتے ہیں۔

واضح رہے،65 سال سے زائد عُمر کے افراد میں یہ شرح مزید بُلند ہے۔ صحت سے متعلقہ مختلف اداروں کی رپورٹ کے مطابق دُنیا بَھر میں سالانہ8لاکھ سے زائد بچّے اپنی عُمر کے پانچویں سال تک انتقال کرجاتے ہیں، جب کہ ہر روز قریباً2,200بچّے اس مرض کا شکار ہوکر لقمۂ اجل بنتے ہیں۔ہر39 سیکنڈ بعد ایک بچّہ نمونیا سے متاثر ہوجاتا ہے،جن میں سے زیادہ تر دو سال کی عُمر تک کے ہوتے ہیں، جب کہ 1,53,000 بچّے اپنی زندگی کے پہلے مہینے میں نمونیے کے سبب انتقال کرجاتے ہیں۔ واضح رہے،ان بچّوں کی نصف تعداد کا تعلق جن 5مُمالک سے ہے، اُن میں سرِفہرست نائیجیریا ہے، جہاں سالانہ162,000بچّے اس کےسبب انتقال کرجاتے ہیں۔ 

دوسرےنمبر پر بھارت(1,27,000بچّوں کے ساتھ)، تیسرے پر پاکستان (58,000)، چوتھے پر کانگو(40,000)اور پانچویں پر ایتھوپیا (32,000) ہے۔ 2018ء میں عالمی ادارۂ صحت کی شایع کردہ ایک رپورٹ کے مطابق پاکستان میں انفلوئنزا اور نمونیا سےہلاک ہونے والوں کی سالانہ تعداد 84,788 ہے، جو کُل اموات کا6.84فی صدحصّہ ہے۔پاکستان میں سالانہ 92,000بچّے اس بیماری کے باعث لقمۂ اجل بن جاتے ہیں۔واضح رہے، مختلف عوارض کے سبب انتقال کرجانے والے بچّوں میں سے16فی صد نمونیے کا شکار ہوتے ہیں۔دُنیا بَھر میں اموات کا سبب بننے والے عوارض میں سانس کی نالی کا انفیکشن چوتھے نمبر پر ہے۔

عالمی بینک نے آمدنی کے حوالے سے تمام مُمالک کو چار گروپس میں منقسم کیا ہے۔ ایک گروپ میں کم آمدنی والے مُمالک شامل ہیں، تو دوسرا درمیانی اوسط آمدنی، تیسرا اوپری اوسط آمدنی اور چوتھا زائد آمدنی والے مُمالک پر مشتمل ہے۔ ان گروپس میں اموات کی وجوہ بھی مختلف ہیں۔جیسا کہ کم آمدنی والے مُمالک میں سانس کی نالی کا انفیکشن دوسرے نمبر پر ہے، جب کہ اموات کے حوالے سے درمیانی اوسط آمدنی والے ممالک میں چوتھے نمبر پر دَمہ، انفیکشن اور پانچویں نمبر پر سانس کی نالی کے نچلے حصّے کا انفیکشن ہے۔ 

اوپری اوسط آمدنی والے مُمالک میں دوسرے اور تیسرے نمبر پر دَمہ، پھیپھڑوں کا سرطان اور پانچویں نمبر پر انفیکشن ہے۔ زائد آمدنی والے مُمالک میں چوتھے اور پانچویں نمبر پر دَمہ، پھیپھڑوں کے دیگر عوارض اور چھٹے نمبرپر انفیکشن ہے۔ نمونیا سے متعلق ہر سطح تک معلومات عام کرنا اس لیے بھی ناگزیر ہے کہ امریکا میں این ایف آئی ڈی (National Foundation for Infectious Diseases)کی جانب سے کیے جانے والے ایک سروے کے مطابق نمونیا سے متاثرہ مریضوں میں سے 46 فی صد کو اس بیماری سے متعلق کچھ معلوم نہیں تھا۔ 60 فی صد مریضوںکا کہنا تھا کہ انہیں کسی نے اس بیماری سے محفوظ رہنے کے لیے ویکسی نیشن کا مشورہ نہیں دیا ،تو70فی صد نے نمونیے کی ویکسی نیشن کروانے پر دھیان ہی نہیں دیا۔ 

اگر امریکا جیسے ترقّی یافتہ مُلک میںآگہی کی یہ صُورتِ حال ہے،تو پاکستان میں تو ویسے ہی عام عوارض سے متعلق آگہی کاسخت فقدان پایا جاتا ہے ۔ یاد رہے،عالمی ادارۂ صحت کے مطابق طبّی سہولتوں کی عدم دستیابی کے ضمن میں پاکستان کا شمار دُنیا کے190مُمالک میں سے122ویں نمبر پر کیا جاتا ہے۔

انسانی جسم میں واقع پھیپھڑے، زندگی کی پہلی سانس سے آخری سانس تک ہمہ وقت اپنے افعال انجام دیتے ہیں۔ایک فردفی منٹ18 سے 25 بار سانس لیتا ہے۔اور یہ عملِ تنفس ناک، کان، حلق، فیرنکس (سانس کی نالی کا اوپری حصّہ)، ٹریکیا (سانس کی نالی)، برونکائی اور برانکیول پر مشتمل ہوتا ہے۔جب ہم ناک کے ذریعے سانس لیتے ہیں،توہوا حلق سے ہوکر پھیپھڑوں کے اندرونی حصّوں تک پہنچتی ہے، جہاںSmall Air Sacs ہوتےہیں۔یہاں ایک مخصوص عمل کےبعد صاف آکسیجن پورے جسم میں پھیل جاتی ہے اور مضر کاربن ڈائی آکسائیڈ باہر خارج ہوجاتی ہے۔ 

اگر پھیپھڑوں میں کوئی مضر شے داخل ہو جائے، تو ایک خود کار نظام کے تحت کھانسی یا چھینک کے ذریعے جسم سے خارج ہوجاتی ہے۔ کوئی اندازہ بھی نہیں کر سکتا کہ پھیپھڑوں کو دِن بَھر کتنی بار مضر اجزا سے واسطہ پڑتا ہے اور وہ کس مہارت سے انہیں جسم سے خارج کرتے ہیں۔ دراصل، پھیپھڑوں کی اندرونی جھلّی میں رطوبت موجود ہوتی ہے، لہٰذا جیسے ہی پھیپھڑوں میںکوئی مضر شے داخل ہوتی ہے، تو وہ اس رطوبت سےجا چپکتی ہے اور وہاں موجود خلیات کے باریک ریشے اس شےکو اوپر کی جانب دھکیل کر پھیپھڑوں سے خارج کردیتے ہیں۔ بعض اوقات اس پورے عمل کے دوران مضر شےخارج نہیں ہو پاتی، اس صُورت میں دیگر دفاعی نظام اپنا کام شروع کردیتے ہیں۔

اگر مضر شے میں کوئی بیکٹیریا یا وائرس موجود ہو، جو ابتدائی دفاعی نظام کے ذریعے بھی خارج نہ ہوپائے تو شدّت کی صُورت میں مرضیاتی کیفیت ظاہر ہونے لگتی ہے، جس میں سے ایک نمونیا کہلاتی ہے۔نمونیا پھیپھڑوں کا انفیکشن ہے، جس میں پھیپھڑوں میں سیال مادّہ یا پیپ جمع ہوجاتی ہے،جس کے نتیجے میں گیسز کے تبادلے میں مشکل پیش آتی ہے اور سانس لینے میں دشواری ہوتی ہے۔ اس بیماری کے چند مراحل ہیں۔ پہلے مرحلے پر پھیپھڑوں میں رطوبت یا پیپ بَھرجاتی ہے، جس کے باعث سانس لینے میں دشواری ہوتی ہے۔ 

دوسرے مرحلے میں رطوبت اس قدر بڑھ جاتی ہے کہ پھیپھڑوں کا رنگ پہلے سُرخ اور پھر بھورا ہو جاتا ہے۔ اس حالت میں اگر دیکھا جائے، تو پھیپھڑوں کی ساخت جگر کے مانند لگتی ہے۔اگر نمونیے کا حملہ کم نوعیت کا ہو تو مریض ایک یا دو ہفتے بعد ٹھیک ہو جاتا ہے۔ شدّت کی صُورت میں مرض کا دورانیہ طویل ہوجاتا ہے اور کھانسی کئی ہفتوں تک رہتی ہے۔ ویسے تو پانچ سال سے کم عُمر بچّے اس مرض کا زیادہ شکار ہوتے ہیں، لیکن یہ مرض عموماً اُن بچّوں کو جلد متاثر کردیتا ہے، جن کا مدافعتی نظام پہلے ہی سے کم زور ہو۔ اس کے علاوہ عُمر رسیدہ افراد بھی اس سے جلد متاثر ہوجاتے ہیں۔

نمونیا ایک متعدّی مرض ہے، جو ایک فرد سے دوسرے میں کھانسی اور چھینک کے ذریعے پھیلتا ہے۔ تاہم، مریض کے قریب موجود افراد میں اس بیماری سے متاثر ہونے کے امکانات زیادہ پائے جاتے ہیں۔ نمونیا لاحق ہونے کا ایک اہم سبب اسٹریپٹو کوکس(Streptococcus) نامی بیکٹریا ہے۔ اس لیےاس مرض کو Streptococcus Pneumoniaeبھی کہا جاتا ہے۔اس بیکٹریا کے علاوہ مختلف وائرسزاورفنگس بھی وجہ بن سکتے ہیں۔ 

وائرسز میں انفلوئنزا اور کورونا وائرس بھی شامل ہے۔بیکٹریا کے نتیجے میں لاحق ہونے والے نمونیے سے بچائو کی ویکسین دستیاب ہے، جو نمونیا یا مرض لاحق ہونے کی صُورت میں پیچیدگیوں سے تحفّظ فراہم کرتی ہے۔اگر کوئی فرد نمونیا کا شکار ہوجائے تو ویکسی نیشن کی وجہ سے مرض شدّت اختیار نہیں کرتا اور اسپتال میں رہنے کی مدّت میں بھی واضح کمی آتی ہے۔ یہ ویکسین بچّوں اور 65سال یا اس سے زائد عُمر کے افراد کو لگائی جاتی ہے۔اس کے علاوہ نمونیے کی ویکسین 19برس سے64سال کی عُمر کے اُن افراد کو بھی جو ذیابطیس، دَمے یا دیگر بیماریوں سے متاثرہ ہوں، لگائی جاسکتی ہے۔

نمونیے کی مزید اقسام کی بھی ویکسینز دستیاب ہیں۔ فلو سے متاثر ہ فرد کو بھی نمونیے کی ویکسین لگائی جاسکتی ہے، جب کہ فلو اور نمونیے کی ویکسین ایک ساتھ لگوانے میں بھی کوئی حرج نہیں۔ واضح رہے، اسٹریپٹو کوکس بیکٹریانہ صرف نمونیا، بلکہ دیگر بیماریوں جیسے گردن توڑ بخار وغیرہ کا بھی سبب بنتا ہے۔ اگر یہ بیکٹریا خون میں پیپ پیدا کردے، تو جان لیوا بھی ثابت ہوسکتا ہے۔

جب مرض ابتدائی مرحلے میں ہو تو عام طور پر علامات ظاہر نہیں ہوتیں۔ تاہم،کھانسی، نزلہ، زکام اور گلے کی سوزش ابتدائی علامات ہوسکتی ہیں،جب کہ دیگر علامات میں تیز بخار، سردی لگنا، سانس لینے میں دشواری، سینے میں درد، پسلی چلنا، جسم ٹھنڈا پڑ جانا، سینے سے آوازیں آنا، گردن میں اکڑؤ محسوس ہونا، زائد پسینہ آنا، زیادہ سونا، سُستی، بے چینی اور گھبراہٹ ،بچّے کا دودھ کم یا بالکل نہ پینا، چہرے اور ہاتھوں کا نیلا پڑ جانا وغیرہ شامل ہیں۔بعض کیسز میں کھانسی کے ساتھ بلغم بھی خارج ہوتی ہے،جب کہ شدید بیماری کی حالت میں بلغم میں خون بھی شامل ہوتا ہے۔ عُمر رسیدہ افراد میں ان علامات کے علاوہ غنودگی اور تذبذب کی کیفیت بھی ظاہر ہوسکتی ہے۔

نمونیا شدّت اختیار کرلے تو موت کا پروانہ بن جاتا ہے۔چوں کہ نمونیے کی کئی اقسام ہیں تو ان کی علامات بھی مختلف ظاہر ہوتی ہیں۔ جن مریضوں میں مرض کی نوعیت کم درجے کی ہو، اُن میں فلو سے ملتی جلتی علامات ظاہر ہوتی ہیں، جو لگ بھگ دس دِن تک برقرار رہتی ہیں۔ ان علامات میں بخار، گلے کی سوزش، سردرد، قے، تھکن کا احساس اور جسم میں درد وغیرہ شامل ہیں۔ اس قسم کے نمونیے کا علاج گھر پر ممکن ہے، جو آرام، عُمدہ اور متوازن غذا، زیادہ پانی اور معالج کی تجویز کردہ ادویہ پر مشتمل ہوتا ہے۔ 

عام طور پر معالجین اینٹی بایوٹکس، بخار و درد کی شدّت کم کرنے والی ادویہ اور کھانسی کا شربت تجویز کرتے ہیں، جب کہ مرض کی نوعیت شدید ہو تو پھر اسپتال میں داخلے کی ضرورت پیش آتی ہے کہ نمونیے کا بروقت اور درست علاج نہ ہونا انتہائی خطرناک ثابت ہوسکتا ہے۔ نمونیا کے مریضوں کے لیے زیادہ پروٹین والی غذاؤں کا استعمال (مثلاً گوشت، مچھلی)مفید ثابت ہوتا ہے۔ اس طرح کی غذائیں انفیکشن ختم کرنے اور تباہ شدہ خلیات کی مرمت میں مددگار ثابت ہوتی ہیں۔ 

یاد رکھیے، نمونیا کے خلاف جنگ میں متوازن غذا، پینے کا صاف پانی اور ویکسین مؤثر ہتھیار ہیں۔ نمونیا کی ویکسین کے علاوہ فلو، کالی کھانسی اور خسرے کی ویکسین کا استعمال بھی نمونیا کے امکانات کم کردیتا ہے۔ نمونیا کی خطرناک قسم میں ابتدائی علامات کے ساتھ مریض سانس لینے میں دشواری اور سینے میں شدید درد کی شکایت کرتا ہے، جب کہ گہرے سانس لینے سے سینے کے درد کی شدّت میں بھی اضافہ ہوسکتا ہے۔ اگر مرض کی نوعیت انتہائی شدید ہوجائے، تو عملِ تنفّس کے متاثر ہونے کے باعث موت بھی واقع ہوسکتی ہے۔ 

اکثر مریض اس بیماری سے مکمل طور پر صحت یاب ہوجاتے ہیں، لیکن بعض کے لیے مرض جان لیوا بھی ثابت ہوتا ہے۔ اسپتال میں نمونیے کے زیرِعلاج مریضوں میں موت کی شرح 5 سے 10 فی صد پائی جاتی ہے، جب کہ انتہائی نگہداشت کے شعبے میں داخل مریضوں میں یہ شرح 30 فی صد تک ہوسکتی ہے۔ مرض کی تشخیص کے لیے ایکس رے،خون اور بلغم کے ٹیسٹس تجویز کیے جاتے ہیں۔ کورونا وائرس بھی پھیپھڑوں پر اثر انداز ہو کے نمونیے کا سبب بنتا ہے۔نیز، متاثرہ افراد میں مزید تکلیف دہ علامات بھی ظاہر ہو سکتی ہیں۔ مثلاً سینے میں تکلیف، سردی لگنا، متلی، قے، دست، پیٹ اور سَر میں درد، قوّتِ شامہ اور ذائقہ محسوس کرنے کی صلاحیت میں کمی آنا یا سِرے سے ختم ہوجانا وغیرہ۔ جب کہ کورونا کے باعث شدید نمونیا جان لیوا بھی ثابت ہو سکتا ہے۔

عالمی سطح پر ماہرین نےبیماریوں کی روک تھام کے لیے مختلف اقدامات تجویز کیے ہیں۔ سب سے پہلا اقدام تو یہی ہے کہ بیماری کو سِرے سے پیدا ہی نہ ہونے دیا جائے، دوسرا مرض کی بروقت تشخیص اور فوری علاج ہے۔ اگر مرض وبائی صُورت اختیار کرلے تو مریض کو کچھ عرصے کے لیے کسی ایک جگہ محدود کر دیا جاتا ہے، تاکہ دیگر افراد محفوظ رہیں۔ اور اگر مرض کے باعث کوئی مستقل عارضہ یا معذوری جنم لے لے، تو بحالیٔ صحت کی کوششیں کی جائیں اور انہیں مناسب مدد فراہم کرکے معاشرے کے لیے کارآمد بنایا جائے۔ 

نمونیا سے نبرد آزما ہونے کی صُورت میں یہ تمام اقدامات ضروری ہیں۔ جیسے ویکسین کے ذریعے مرض کو پھیلنے سے روکا جاسکتا ہے، تو بروقت علاج سے مریض کی تکالیف کا خاتمہ ممکن ہے۔ علاج کے ذیل میں ادویہ کے علاوہ سانس لینے کی مددگار مشین اور عضلات کی ورزشیں شامل ہیں۔ چوں کہ اس مُہلک بیماری سے بچاؤ کی ویکسین دستیاب ہے، تو یہ ہم سب کی ذمّے داری ہے کہ نہ صرف اپنی، بلکہ اہلِ خانہ کی بھی بروقت ویکسی نیشن کروائیں۔ یاد رکھیے، بچّوں میں نمونیا کی شرح کم کرنے کا سب سے مؤثر طریقہ ویکسین ہی ہے، جس کے استعمال سے نمونیا کی ہلاکت آفرینی پر بھی قابو پایا جاسکتا ہے۔

پاکستان میں 2012ء میں بچّوں کے حفاطتی ٹیکوں کے پروگرام میں (Expanded Programme on Immunisation)میں نمونیا کی ویکسین شامل کی گئی۔ پاکستان جنوبی ایشیاء کا وہ پہلا مُلک ہے، جہاں بچّوں کو یہ ویکسین مفت لگائی جاتی ہے اور یہ اس ہی کے ثمرات ہیں کہ2000ء تا 2015ء شرحِ اموات میں51فی صد کمی دیکھنے میں آئی، لیکن اب بھی دُنیا کے ہزار ہا بچّوں کو ویکسین کی سہولت دستیاب نہیں، جب کہ نمونیے کے شکار ہر تین میں ایک بچّے کو مناسب اور ضروری علاج بھی میسّر نہیں۔ 

یہاں اس بات کی وضاحت بھی ضروری ہے کہ ویکسین، نمونیے سے سو فی صد تحفّظ فراہم نہیں کرتی، جب کہ اس کے چند ضمنی اثرات بھی ظاہر ہوسکتے ہیں۔ بالکل اِسی طرح جیسے کسی مرض کے علاج کے لیے مخصوص ادویہ تمام مریضوں کے لیے مؤثر ثابت نہیں ہوتیں۔ بعض اوقات فائدہ کے بجائے کسی دوا کے استعمال سے کوئی طبّی مسئلہ بھی جنم لے سکتا ہے۔ ممکن ہے کہ لاکھوں افراد میں سے کوئی ایک نمونیے کی ویکسی نیشن کروانے کے باوجود اس میں مبتلا ہو گیا ہو یا ضمنی اثرات سے دوچار ہوا ہو، لیکن یہ بات کسی شک و شبے سے بالاتر ہے کہ بیش تر افراد نمونیے کی ویکسین کروانے کے بعد بیماری اور اس کی پیچیدگیوں سے محفوظ رہتے ہیں۔ اس لیے ہمیں چاہیے کہ ویکسی نیشن کروانے کے منفی پہلوؤں کے بجائے مثبت پہلوؤں پر نظر رکھیں۔ (مضمون نگار، جنرل فزیشن ہیں اور الخدمت اسپتال،کراچی میں خدمات انجام دے رہے ہیں)

تازہ ترین