• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

حضرت محمد صادق نقشبندی آف آزاد کشمیر کے مرید صادق مولانا خادم حسین اعوان نقشبندی رضوی رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ سے مجھے پہلی ملاقات تو یاد نہیں نائن الیون کے بعد ریلیوں، جلسوں، ملین مارچ، تحریک بازیابی نعلین مبارک تک کے جتنے بھی پروگرام ہوئے، اُن میں خادم حسین صاحب خطاب کم کرتے تھے بلکہ اکابرین کی گفتگو زیادہ سنتے۔کچھ غیر مسلم ممالک میں قرآن پاک کی بےحرمتی اورگستاخانہ خاکوں کی اشاعت ہوئی تو جامعہ نظامیہ لاہور میں پڑھانے والے خادم حسین صاحب سیاسی ریلیوں کو سن سن کر اتنے تجربہ کار ہو چکے تھے کہ خطاب کرسکیں۔ چھوٹے بڑے دیہات اور شہروں میں ان کے شاگرد مساجد ومدارس سنبھال چکے تھے اسی بناپر اب ان کی تقریریں بھی شروع ہوچکی تھیں۔ ان کا انتہائی دلیری وبہادری سے بولنا اور قرآن واحادیث کی طویل عربی عبارتیں پڑھنے کی بڑی وجہ ان کا حافظ قرآن ہونا تھا۔ جبکہ فارسی اشعاریاد ہونے کی وجہ درس نظامی کی فارسی کتابیں کریما، پندنامہ، گلستان، بوستان اورمثنوی مولانا روم پڑھنا تھا۔ الشاہ احمد نورانی کی بنائی ہوئی فدایان ختم نبوت کے امیر صوفی ایاز خان نیازی کے مئی 2003 میں انتقال کے بعد ستمبر 2003 کو نورانی میاں نے تین رکنی کنوینر کمیٹی مولانا سردار محمد لغاری، سید عقیل انجم اور قاری محمد افضل باجوہ پر مشتمل تشکیل دی، جنوری2004 میں افضل رشید نقشبندی کو پنجاب کا کنوینر بنایا گیا ہم تین دوستوں کی دوستی بڑی مثالی تھی جن میں افضل رشید نقشبندی اور صلاح الدین سعیدی شامل ہیں، ان دنوں مولانا محمد علی نقشبندی، خادم حسین صاحب کےخادم ِخاص تھے، ہم داتا دربار کے چائے خانوں، ہوٹلوں، کمپوزروں، پیرزادہ اقبال فاروقی کی مجلسوں میں بیٹھ کرسوچتے، تبادلہ خیال کرتے کہ کبھی خادم صاحب فدایان ختم نبوت کی ذمہ داری قبول کریں تو ختم نبوت پر کام تیز ہو سکتا ہے، کئی بار جامعہ نظامیہ رضویہ لاہور گئے کہ حضرت آپ ہمارا ساتھ دیں اور فدایان ختم نبوت صوبہ پنجاب کےامیر بنیں۔ مختصر یہ کہ ہمارے اصرار پر وہ مان گئے اپریل 2004کو صوبہ پنجاب کے امیر بن گئے۔ یوں درس نظامی کے استاذ سے مذہبی لیڈروں کی صف میں داخل ہوئے، لیکن خادم حسین صاحب نے مجھ سےکہا کہ اگر آپ فدایان ختم نبوت یعنی میری ذاتی خبروں کے لئے وقت نکالیں تو پھر کام آسان ہو جائے گا۔یوں میں ان کا پہلا میڈیا ایڈوائزر بنا، ایک بار مذاق میں کہنے لگے کہ آپ میرے بڑے سخت بیانات جاری کرتےہیں کہیں مجھے محکمہ اوقاف کی ملازمت سے فارغ کرانے کا پروگرام تو نہیں بنا لیا، ساتھ ہی فرمایا کہ مذہب کی اپنی قوت ہے آپ بیان ختم نبوت اور عشقِ رسولؐ پر سخت سے سخت بیان جاری کرتے رہیں، رزق محکمہ اوقاف نہیں اللہ کی ذات کے ذمہ کرم پر ہے۔ کئی بار خبروں کی فائل لیکر یا ملاقات کے لئے جاتا تو سعد رضوی کو کہتے بیٹا دین کے سپاہیوں کی خدمت پوری طاقت سے کرتے ہیں۔ جائو کچھ اچھاکھانے کےلئے گھر سے لیکر آئو، مولانا محمد سعد رضوی کی ابھی داڑھی نہیں آئی تھی۔ چھوٹے صاحبزادے محمد انس رضوی آپ کی گود میں کھیلتے تھے۔ ایک بار میں کونسل آف جرائد اہل سنت کے جنرل سیکرٹری کا الیکشن لڑ رہا تھا تو انہوں نے مجھے سفید کاغذ پر اپنے دستخط کرکے دیے کہ میری طرف سے کسی کو بھی ووٹ ڈالنے کے لئے نامزد کر لینا۔ یوں میں اُن کے ووٹ کی برکت سے کامیاب ہوا۔لیڈر بننے سے پہلے کئی بار رائے سے اختلاف بھی کرتا کیونکہ میں ان کا شاگرد نہیں تھا، باقی لوگ شاگر د تھے لہٰذا مجھ سے وہ خفا رہنے لگے۔ تاہم خفا ہونے کے بعد بھی میرے پروگراموں کانفرنسوں، درسِ قرآن کی محافل میں آتے رہے میری دعوت کو ہمیشہ قبول کیا۔ ان کی تین خوبیاں ان کو بڑا بنا گئیں قوتِ عشقِ رسولؐ، دلیری اور پیسہ سے پیار نہ کرنا۔ امن کمیٹیوں کے شدید خلاف تھے،انہیں علم ہو جاتا کہ اجلاس میں امن کمیٹیوں کے لوگ ہیں، ہوں گے یا اچانک کوئی داخل ہو جاتا تو برا مانتے، کہتے یہ لوگ افسروں کی خوشامد کرتے ہیں اور ان کی خواہشات کے مطابق رپورٹیں دیتے ہیں، جو ایجنڈا لیکر آتے ہیں وہی مسلط کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ بنیادی طور پر مولانا شاہ احمد نورانی اور مولانا عبدالستار نیازی کی مثالیں دیا کرتے تھے، علامہ فضل حق خیر آبادی سے ٹوٹ کر محبت کرتے تھے۔ محبوب الرسول قادری اور محمد نواز کھرل کی حوصلہ افزائی کرتے بلکہ ان کو بہت احترام دیتے تھے۔ خادم حسین صاحب جب داتا دربار مارکیٹ میں آتے تو سفید کپڑے، کئی گز کانسواری عمامہ اور کاندھے پر کبھی سفید اور کبھی آسمانی رنگ کا بڑا کپڑا رکھ کر بارُعب طریقہ سے آتے تو ان کا جلوہ دیدنی ہوتا، کہتے تھے مولوی کی جیب میں بے شک ایک روپیہ نہ ہو لیکن کوئی مولوی کو دیکھے توکہے کہ مولوی کروڑ پتی لگتا ہے۔ (جاری ہے)

تازہ ترین