اسلام آباد (رپورٹ: رانا مسعود حسین) وزیراعظم عمران خان سانحہ آرمی پبلک اسکول کیس میں عدالت کے طلب کرنے پر سپریم کورٹ میں پیش ہوگئے،دوران سماعت ذمہ داروں کیخلاف کارروائی نہ ہونے پر سپریم کورٹ نے سخت سوالات کئے،وزیر اعظم عمران خان نے عدالت سے کہا کہ کوئی مقدس گائے نہیں ،آپ حکم کریں ہم ایکشن لینگے، وزیراعظم نے سانحہ اے پی ایس کیس کے ذمہ داروں اور غفلت کے مرتکب افراد کیخلاف کارروائی کی یقین دہانی کرادی۔
جسٹس قاضی امین نے کہا کہ کیا آپ مجرموں کے سامنے پھر ہتھیار ڈالنے کی دستاویز پر دستخط کرنے جا رہے ہیں،چیف جسٹس گلزار احمد نے کہا کہ پالیسی معاملات سے ہمارا تعلق نہیں ہے،سات سال ہو گئے کچھ نہیں ہوا، بچوں کو اسکولوں میں مرنے کیلئے نہیں چھوڑ سکتے، وزیراعظم اپنے دستخط سے چار ہفتوں میں عملدرآمد رپورٹ دیں، اٹارنی جنرل نے کہا کہ جوڈیشل کمیشن رپورٹ میں اخلاقی ذمہ داری عائد کی گئی ہے، کیا قانونی کارروائی کریں؟
جسٹس قاضی امین نے کہا کہ جمہوریت کی بنیاد اخلاقیات، اس وقت کے وزیراعظم وغیرہ مستعفی ہو جاتے تو بہتر لوگ آ جاتے،سپریم کورٹ نے وفاقی حکومت کو آرمی پبلک اسکول پر ہونے والے حملے میں شہید ہونے والے بچوں کے والدین کا مؤقف سن کر کارروائی کا حکم دیتے ہوئے سماعت 4 ہفتوں کے لیے ملتوی کر دی۔
تفصیلات کے مطابق عدالت عظمیٰ نے 2014 میں ’’آرمی پبلک اسکول پشاور میں دھشت گردوں کی جانب سے گھس کر معصوم طلبا ء اور عملہ کے مجموعی طور پر 147فراد کو شہید کرد ینے‘‘ سے متعلق از خود نوٹس کیس کی سماعت کے دوران وزیر اعظم عمران خان کو سپریم کورٹ کے 20اکتوبر کے حکم نامہ اور شہید ہونے والے طلباء کے والدین کے بیانات کی روشنی میں ملکی سیکورٹی کے انتظامات میں غفلت ولاپرواہی کے مبینہ مرتکب اس وقت کے ریاست کے 6اعلیٰ ترین عہدیداروں کیخلاف قانونی کاررروائی کرکے چار ہفتوں کے اندر اند اپنے دستخطوں کیساتھ عملد رآمد رپورٹ عدالت میں پیش کرنے کا حکم جاری کیا ہے جبکہ عدالت نے آبزرویشن دی ہے کہ کوئی کتنا بڑا آدمی ہی کیوں نہ ہو؟
قانون کی خلاف ورزی کرنے والوں کیخلاف قانون کے مطابق کارروائی ہوگی،انٹیلی جنس کی اتنی بڑی ناکامی کیوں اور کیسے ہوئی؟ ،حملہ کرنے والوں کے علاوہ بھی کوئی انکے سہولت کار تھے،کوئی اندر سے مدد گار تھے؟
جسٹس ابراہیم انکوائری کمیشن کی رپورٹ آچکی ہے،حکومت نے اب تک کیا کارروائی کی ہے ؟ اندر کی مدد کے بغیر دہشت گردی کا اتنا بڑا واقعہ ممکن نہیں تھا۔
دوران سماعت وزیر اعظم عمران خان نے عدالتی احکامات پر انکی روح کے مطابق عملدرآمد کی یقین دہانی کراتے ہوئے کہا ہے کہ اس ملک میں کوئی مقدس گائے نہیں ہے، میں قانون کی بالادستی پر یقین رکھتا ہوں، چیف جسٹس گلزار احمد نے وزیر اعظم سے استفسار کیاہے کہ سانحہ آرمی پبلک اسکول کس نے ہونے دیا ؟
ملک کا پوراسیکورٹی سسٹم کہاں تھا؟ عدالت کے واضح حکم کے باوجود ابھی تک کسی کیخلاف کوئی کارروائی ہی نہیں کی گئی ہے،دوران سماعت وزیر اعظم عمران خان نے کہا ہے کہ ایک منٹ جج ،صاحب ٹھہرجائیں ،اللہ شہد طلباء کے والدین کو صبر دیگا ،ہم انہیں معاوضہ دینے کے علاوہ اور کیا کرسکتے تھے ؟
ہمیں ایک جانب آرمی پبلک اسکول کے شہید بچوں کے والدین کا دکھ ہے تو دوسری جانب ملک میں دہشت گردی کی بناء پر ضائع ہونے والی 80ہزار جانیں ضائع ہونے کا بھی دکھ ہے، انہوں نے عدالت سے 80ہزارجانیں ضائع ہونے کی تحقیقات کا بھی حکم جاری کرنے کی استدعا کرتے ہوئے کہا کہ یہ بھی معلوم کیا جائے کہ یہ جانیں کس وجہ سے ضائع ہوئی ہیں؟جس پر فاضل چیف جسٹس نے کہاکہ یہ سب کچھ پتا لگانا آپ کا کام ہے، آپ اس ملک کے چیف ایگزیکٹیو ہیں۔
جسٹس قاضی محمد امین احمد نے کہا کہ مسٹرپرائم منسٹر،ہم کوئی چھوٹا سا ملک نہیں ہیں،ہماری فوج دینا کی چھٹی بڑی افواج میں شمار کی جاتی ہے ،آپ مجرموں کو مذاکرات کی ٹیبل پر لے آئے ہیں،کیا ہم ایک بار پھر سرنڈر ڈاکومنٹس(ہتھیار ڈالنے کی دستاویز) سائن کرنے جا رہے ہیں؟
دوران سماعت وزیر اعظم نے کہا کہ رپورٹ نے اخلاقی ذمہ داری کی بات کی ہے،اخلاقی ذمہ داری پر کیا کارروائی کی جائے؟ انہوں نے عدالت اس معاملے کیلئے ایک اعلیٰ سطح کا کمیشن تشکیل دینے کی تجویز پیش کی تو فاضل چیف جسٹس نے کہاکہ عدالت نے پشاور ہائی کورٹ کے جج، مسٹر جسٹس محمد ابراہیم پر مشتمل تحقیقاتی کمیشن تشکیل دیاتھا ،جس کی رپورٹ بھی سامنے آچکی ہے ،جبکہ اس سارے معاملہ کے حوالے سے ہمارا 20اکتوبر کا واضح حکم ہے کہ سیکورٹی دینے میں ناکامی سے متعلق ذمہ داری کا تعین کرکے ذمہ دار وں کیخلاف کارروائی کی جائے اور چار ہفتوں کے اندر اندر پیشرفت رپورٹ عدالت میں جمع کروائی جائے۔ انہوں نے سوال اٹھایا کہ سانحہ اے پی ایس کے موقع پر خفیہ ادارے کہاں تھے ؟کیا اس حوالے سے سابق آرمی چیف اور دیگر ذمہ داروں کے خلاف کوئی مقدمہ درج ہوا ہے ؟
محض چوکیدار اور سپاہیوں کے خلاف کارروائی کردی گئی تھی ،اصل میں تو یہ کارروائی اوپر کی سطح سے شروع ہونی چاہیے تھی ،اس وقت کی حکومت ،انٹیلی جنس ایجنسی کے حکام اور افواج پاکستان کے کرتا دھرتا مراعات لیکر چلے گئے ہیں، ہمارے پاس دنیا کی سب سے بڑی انٹیلی جنس ایجنسی ہے ،ایجنسی اور فوج کے کرتا دھرتا تمام تر مراعات کے ساتھ گارڈ آف آنرز لیکر زندگی کوانجوائے کررہے ہیں،جس پر وزیر اعظم نے کہا ہے کہ کوئی بھی عہدیدار قانون سے بالاتر نہیں ہے ،عدالت حکم جاری کرے ،حکومت ایکشن لے گی۔چیف جسٹس ،گلزار احمد کی سربراہی میں جسٹس اعجاز الاحسن اور جسٹس قاضی محمد امین احمد پر مشتمل تین رکنی بنچ نے بدھ کے رو ز از خود نوٹس مقدمہ کی سماعت کی تو عدالتی نوٹس پراٹارنی جنرل خالد جاوید خان پیش ہوئے۔
چیف جسٹس نے ان سے استفسار کیاکہ کیا عدالت کے 20اکتوبر2021کے حکم کے مطابق اسوقت کے اعلیٰ عہدیداران ( آرمی چیف جنرل راحیل شریف ، وفاقی وزیر داخلہ چوہدری نثار علی، وزیر اعلیٰ کے پی کے ،پرویز خٹک، کور کمانڈر پشاور، ہدایت الرحمان،ڈی جی ،آئی ایس آئی، جنرل ظہیر الاسلام اور وفاقی سیکرٹری اختر علی شاہ) کیخلاف کوئی کارروائی کی گئی ہے تو انہوں نے جواب دیا کہ جسٹس محمد ابراہیم انکوائری کمیشن کی رپورٹ میں آرمی چیف اور ڈی جی ،آئی ایس آئی کے حوالے سے تو کوئی فائنڈنگ ہی نہیں دی گئی ہے ،جس پر بنچ کے تینوں رکن ججوں نے شدید برہمی کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ کیا وزیراعظم نے عدالتی حکم پڑھا ہے؟ تو اٹارنی جنرل نے کہا کہ وزیراعظم کو عدالتی حکم نہیں بھیجا تھا تاہم میں انہیں عدالتی حکم سے آگاہ کردوں گا، جس پرچیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ اٹارنی جنرل صاحب یہ سنجیدگی کا عالم ہے، وزیراعظم کو عدالت میں بلالیتے ہیں ،ہم ان سے خود بات کریں گے، ایسے نہیں چلے گا، انہوں نے ریمارکس دیئے کہ انٹیلی جنس ایجنسیوںپر اتنا خرچ ہورہا ہے، لیکن نتائج صفر ہیں،بچوں کو اسکولوں میں مرنے کیلئے نہیں چھوڑ سکتے ہیں۔
انہوں نے کہا گزشتہ سماعت پر شہید بچوں کی مائوں نے موقف اختیار کیا تھا کہ اے پی ایس حملے میں ہم نے اپنے بچے کھو دیئے ہیں، سیکورٹی فراہمی میں ناکامی کے ذمہ داروں کیخلاف ایف آئی آر درج کی جائے اور معاملے کی تحقیقات کر کے ملزمان کو قرار واقعی سزا دی جائے،جس پر ہم نے آپ کو( اٹارنی جنرل) کو حکم دیا تھا کہ معاملے کی اعلیٰ سطح پرتحقیقات مکمل کر کے عدالت کو آگاہ کیا جائے لیکن آج آپ عدالت کو بتا رہے ہیںکہ اعلی حکام کیخلاف کوئی ایف آئی آر درج نہیں ہو سکتی ہے، یہ واقعہ شہریوں کو سیکور ٹی فراہم کرنے میں ناکامی کا واقعہ تھا، حکومت کو اسکی ذمے داری قبول کرنی چاہیے، اس وقت کے تمام عسکری و سیاسی حکام کو اس کی اطلاع ہونی چاہیئے تھی۔انہوں نے ریمارکس دیے کہ ملک میں اتنا بڑا انٹیلی جنس کا نظام رائج ہے، اوریہ دعویٰ بھی ہے کہ ہم دنیا کی بہترین انٹیلی جنس ایجنسی ہیں، ہماری ایجنسیوں اور اداروں کو تمام خبریں ہوتی ہیں لیکن جب اپنے لوگوں کے تحفظ کی بات آئے تو انٹیلی جنس ایجنسی کہاں چلی جاتی ہے؟
جسٹس قاضی محمد امین نے استفسار کیا کہ کیا اصل ملزمان تک پہنچنا اور پکڑنا ریاست کا کام نہیں ہے ؟جسٹس اعجازالاحسن نے ریمارکس دیئے کہ اداروں کو معلوم ہونا چاہیے تھا کہ قبائلی علاقوں میں آپریشن کا رد عمل آئیگا۔
چیف جسٹس نے اٹارنی جنرل سے استفسار کیا کہ عدالت نے ایک واضح حکم نامہ جاری کیا تھا، آپ اسکے مطابق حکومت سے ہدایات لیکر کیوں نہیں آئے ؟ آپ اپنے ضمیر کی آواز سنیں،جس پر انہوں نے کہا کہ عدالت جو حکم کریگی؟مجھے قبول ہے، کسی کا دفاع نہیں کرونگا۔ جسٹس اعجازالاحسن نے کہا کہ سانحہ اے پی ایس سے پوری قوم کو شدید دھچکا لگا ہے، ہمارے بچوں کو بیدردی سے ذبح کیا گیا تھا۔ چیف جسٹس نے کہاکہ یہ ایک سنگین نوعیت کا معاملہ ہے اس پر وزیر اعظم سے ہی جواب طلب کرتے ہیں۔
انہوں نے اٹارنی جنرل کو مخاطب کرتے ہوئے کہا اے پی ایس کا واقعہ سیکورٹی کی ناکامی تھی، کیس میں رہ جانے والے خلا ء سے متعلق آپ کو آگاہ کرنے کا کہا گیا تھا،جس پراٹارنی جنرل نے کہا کہ وہ اپنی غلطیاں تسلیم کرتے ہیں، یہ عہدہ چھوڑ دیتگے لیکن کسی غلطی کا دفاع نہیں کرینگے۔
انہوں نے وزیراعظم سے ہدایات لینے کرنے کیلئے کچھ دیر کیلئے سماعت ملتوی کرنے کی استدعا کی تو چیف جسٹس نے کہا کہ یہ ایک سنگین نوعیت کا معاملہ ہے اس پر وزیراعظم سے ہی جواب طلب کرینگے۔
بعد ازاں عدالت نے وزیراعظم کو ذاتی طور پر طلب کرتے ہوئے کیس کی سماعت ساڑھے 11 بجے تک ملتوی کردی ،جب دوبارہ سماعت شروع ہوئی تو کمرہ عدالت میں صحافیوں، وکلاء ، سکیورٹی اہلکاروں اور اے پی ایس حملے کے متاثرین کے اہل خانہ کی بڑی تعداد کمرہ عدالت میں موجود تھی،جب وزیر اعظم عمران خان کمرہ عدالت میں حاضر ہوئے ،انکے ہمراہ وزیر داخلہ شیخ رشید، وزیر اطلاعات فواد چوہدری،وزیر بحری امور علی زیدی اورمعاون خصوصی علی نواز اعوان وغیرہ بھی موجود تھے ،وہ چیف جسٹس کی ہدایت پر روسٹرم پر آگئے۔
جسٹس اعجاز الاحسن نے کہا کہ شہید طلباء کے والدین کو تسلی کرانا ضروری ہے، والدین چاہتے ہیں کہ اس وقت کے حکام بالا کیخلاف بھی کارروائی کی جائے۔ چیف جسٹس نے ان سے استفسار کیا کہ سانحہ اے پی ایس کے حوالے سے کیا کر رہے ہیں؟
اب آپ ملک کے چیف ایگزیکٹو ہیں اور آپکو قومی سلامتی سے متعلق اقدامات کرنے سے کس نے روکا ہے؟تو انہوں نے موقف اختیار کیا کہ وہ قانون کی حکمرانی پر یقین رکھتے ہیں، ملک میں کوئی مقدس گائے نہیں ہے، عدالت حکم جاری کرے ،حکومت کارروائی کریگی۔
جسٹس اعجاز الاحسن نے کہا کہ رپورٹ کے مطابق تو کوئی خصوصی اقدام نہیں اٹھائے گئے تھے ؟جس پر انہوں نے بتایا کہ جو ممکنہ اقدامات ہوسکتے تھے ہم نے کیے، انہوں نے بتایا کہ جب سانحہ اے پی ایس پشاور رونما ہواتھا، اس وقت صوبہ خیبر پختونخواء میں ہماری جماعت پی ٹی آئی کی حکومت تھی، صوبائی حکومت شہید طلبا کے حوالے سے لواحقین کیلئے جو بھی معاوضہ دیکر مداوا کر سکتی تھی کیا تھا ،جس پرعدالت نے اس پر برہمی کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ آپ لواحقین کے زخموں پر نمک پاشی کر رہے ہیں۔
فاضل چیف جسٹس نے کہا کہ شہید طلباء کے والدین کہتے ہیں کہ ہمیں حکومت سے امداد نہیں چاہیے، وہ سوال کرتے ہیں کہ اسوقت پورا سیکورٹی سسٹم کہاں تھا؟
جسٹس قاضی محمد امین نے(حکومت کی جانب سے ٹی ٹی پی کے ساتھ مبینہ مذاکرات کی جانب اشارہ کرتے ہوئے) کہا کہ اطلاعات ہیں کہ ریاست کسی گروہ کیساتھ مذاکرات کرنے جا رہی ہے؟ ا نہوںنے ریمارکس دیئے کہ آپ نے ٹی ایل پی کے ساتھ بھی معاہدہ کیا ہے ،جنھوں نے احتجاج کے دوران 9 پولیس اہلکاروں کو ’شہید‘کیاہے، کیا ان پولیس اہلکاروں کی جانیں کم قیمتی ہیں؟ جس پر وزیر اعظم نے کہا کہ اس معاملے کو افغانستان کے پس منظر میں دیکھنا ہو گا،ہمیں ایک جانب آرمی پبلک سکول کے شہید بچوں کے والدین کا دکھ ہے تو دوسری جانب ملک میں دہشت گردی کی بناء پر ضائع ہونے والی 80ہزارجانیں ضائع ہونے کا بھی دکھ ہے۔
انہوں نے عدالت سے 80ہزارجانیں ضائع ہونے کی تحقیقات کا بھی حکم جاری کرنے کی استدعا کرتے ہوئے کہا کہ یہ جانیں کس وجہ سے ضائع ہوئی ہیں؟
جس پر فاضل چیف جسٹس نے کہاکہ یہ سب کچھ پتا لگانا آپ کا کام ہے ،آپ اس ملک کے چیف ایگزیکٹیو ہیں، بطور وزیر اعظم ان سارے سوالوں کا جواب آپکے پاس ہونا چاہیے۔چیف جسٹس نے کہاکہ ہم نے 20اکتوبر کے عدالتی حکم نامہ میں تو باقاعدہ نام بھی لکھ دیے تھے ، ان کا کیا ہواہے؟ آپ اقتدار میں ہیں، حکومت آپکی ہے۔
چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ آئین ریاست پر اپنے شہریوں کو تحفظ فراہم کرنے کی ذمہ داری عائد کرتا ہے، ریاست نے شہریوں کے تحفظ کیلئے کیا اقدامات کیے ہیں؟ وزیرِ اعظم نے چیف جسٹس کو مخاطب کرتے ہوئے کہاکہ اگر آپ نے مجھے یہاں بلایا ہے تو مجھے بولنے کا موقع بھی دیں، سانحہ اے پی ایس کے وقت وفاق میں ہماری حکومت نہیں تھی۔
انہوں نے کہاکہ اٹارنی جنرل نے مجھے بتایا ہے کہ اس وقت کے اعلیٰ عہدے داروں پر کوئی فوجداری نہیں بلکہ اخلاقی ذمے داری عائد ہوتی ہے۔
انہوں نے کہا کہ جنرل پرویز مشرف نے دبائو میں آکر طالبان کے ساتھ جنگ شروع کر دی تھی ،حالانکہ ہمارا سانحہ نائن الیون کے ساتھ کوئی تعلق نہیں تھا اور اس میں کوئی پاکستانی شہری بھی ملوث نہیں تھا۔
انہوں نے کہا کہ ہم نے اس سانحہ کے بعد نیشنل ایکشن پلان تشکیل دیکر دہشت گردی کے خلاف جنگ جیتی ہے، جس پر جسٹس قاضی محمدا مین نے کہا کہ آپ اِدھر ادھر کی باتیں نہ کریں، اصل مدعا تک ہی محدود رہیں،جس پر انہوں نے کہا کہ مجھے بات کرنے کا موقع دیں، میں ایک ایک کرکے وضاحت کرتا ہوں۔چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ ہمیں آپ کے پالیسی فیصلوں سے کوئی سروکار نہیں، ہمیں یہ جاننا ہے کہ اتنے سال گزرنے کے بعد بھی مجرموں کا سراغ کیوں نہیں لگایا جا سکا تاہم وزیرِ اعظم نے کہا کہ نیشنل ایکشن پلان کو بہتر کر کے اسکے بعد نیشنل کوآرڈی نیشن پلان بھی بنایاگیا تھا ، افغانستان میں طالبان کی حکومت کے بعد داعش، ٹی ٹی پی اور بلوچ علیحدگی پسند پاکستان آ گئے تھے ، طالبان حکومت کے بعد ڈھائی لاکھ لوگ پاکستان کے راستے باہر گئے تھے ، دہشت گرد انہی ڈھائی لاکھ لوگوں کی آڑ میں روپوش ہو گئے تھے، ہمارے سارے خفیہ ادارے ممکنہ خطرات سے نمٹنے کیلئے اقدامات کر رہے ہیں۔جس پر فاضل چیف جسٹس نے کہا کہ مجھے ابھی تک یہ تو سمجھ آیا ہے کہ جو ہونے والا ہے،آپ اس کیلئے اقدامات کر رہے ہیں، جو ہو چکا ہے اس کیلئے کوئی اقدامات نہیں کیے گئے ہیں ،جس پر وزیرِ اعظم نے کہا کہ ہمیں سمجھنا ہو گا کہ افغان صورتحال کی وجہ سے ہمیں یہ سارے خطرات لاحق ہیں۔