• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
اس وقت پاکستان کے عوام کے عوام کو دو طرح کے سیلابوں کا سامنا ہے، ایک ملک کے مختلف حصوں میں شدید بارشوں کے بعد سیلاب اور دوسرا مہنگائی کا سیلاب (طوفان) یہ دونوں ہی عوام اور قومی اثاثوں کو بھی تباہ کرنے کا باعث بن رہے ہیں۔ اس صورتحال کے باعث بظاہر موسم تو بارشوں سے اچھا ہوتا جا رہا ہے، مگر مہنگائی کی نئی لہر اور شدید بارشوں کے باعث سیلاب کی صورتحال نے عید کا مزہ خراب تو کردیا ہے، مگر اس کے باوجود ملک بھر میں قوت خرید میں کمی کے باوجود پچھلے سالوں کی نسبت مختلف اشیاء کی خرید و فروخت کا حجم 700 ارب روپے سے بھی بڑھ چکا ہے، جس کا اندازہ پچھلے ہفتے 500ارب روپے تک لگایا گیا تھا۔ پچھلے سال یہ حجم 600 ارب روپے تھا، اس طرح مہنگائی اور غربت کے باوجود پاکستان میں عید شاپنگ میں 16 فیصد سے 17 فیصد اضافہ ہوا ہے۔ اس حوالے سے اوورسیز چیمبر آف کامرس کی ایک رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ معاشی سرگرمیاں اگست 2012ء میں منفی 34 پوائنٹس تھیں، جو اب نئی حکومت کے چند معاشی وعدوں اور کچھ اقدامات کی وجہ سے 2 فیصد مثبت نظر آ رہی ہے۔ خدا کرے آگے ملک و قوم کے حالات مزید اچھے ہوں، یہاں امن اور سکون ہو، سیاسی اداروں میں استحکام برقرار رہے، اس سے ہر معاشی سرگرمیوں پر مثبت اثرات مرتب ہوں گے۔ خاص کر امن و امان کی بہتری سے غیر ملکی سرمایہ کار آ سکیں گے۔ پاکستان میں بارشوں کی شدت کے بعد سیلاب کی تباہی اور مہنگائی کے طوفان جو ایک سیلاب سے کم نہیں ہے، ان دونوں مسائل اور مشکلات سے نجات کا حل ملک میں پانی کی سٹوریج اور سستی بجلی کے لئے نئے ہائیڈل سٹوریج ڈیمز کی تعمیر میں ہے، اس لئے کہ اس وقت سیلاب کی تباہ کاریوں سے ہمارا صوبہ سندھ اور خیبر پختونخوا (سرحد) اور بلوچستان سب سے زیادہ متاثر ہو رہا ہے۔ اس وقت اللہ تعالیٰ کی طرف سے ایک بار ہماری تمام قومی سیاسی جماعتوں کو یہ موقعہ مل رہا ہے کہ وہ ملک و قوم کو ہر قسم کی تباہی سے بچائے، نئے ہائیڈل ڈیمز پر سیاست کرنے کی بجائے قومی مفادات کو ترجیح دیں۔ اگر ہماری سیاسی قیادت اتفاق رائے پیدا نہ کر سکی تو اس سے پاکستان کو بھارت اور امریکہ دونوں سے کئی طرح کے خطرات بڑھ سکتے ہیں، جبکہ اگر نئے ہائیڈل ڈیمز کی تعمیر شروع ہو جاتی ہے تو اس سے ہر سال سیلاب کی تباہ کاریوں سے جو اربوں روپے کا جانی و مالی نقصان ہوتا ہے، اس سے بچت ہو سکتی ہے۔ اس کے علاوہ پانی کی سٹوریج اور فصلوں کے لئے پانی کی بروقت فراہمی سے پاکستان کی زرعی معیشت ترقی کرے گی، جس سے ملک میں خوراک کی قلت کے بحران کے خدشات بھی دور ہو جائیں گے، جبکہ ان ڈیمز سے سستی بجلی کی پیداوار سے مہنگائی کا طوفان روکنے میں بڑی مدد ملے گی۔
دوسرا سستی بجلی سے ملکی صنعت کی پیداوار بھی سستی ہوں گی اور اس سے ملکی برآمدات میں اضافہ کی راہ ہموار ہو گی۔ جب معیشت اور صنعت کو سستی بجلی ملے گی تو اس سے کاروباری سرگرمیوں میں بھی تیزی آئے گی۔ اس کے بعد ملک سے غربت اور بے روز گاری کے خاتمہ میں بھی خاصی مدد مل سکے گی۔ اس سے پڑھے لکھے اور ان پڑھ نوجوان دہشت گردی اور قانون شکنی کی بجائے پیداواری شعبوں میں فعال کردار ادا کریں گے۔ اس سلسلہ میں پنجاب حکومت بلکہ تمام صوبائی حکومتوں کو چاہئے کہ وہ ملک میں فنی تعلیم کے فروغ کے لئے ان اداروں میں بھی لیب ٹاپ اور سولر سکیم جاری کریں، تاکہ فنی شعبہ کے طلباء و طالبات بھی پیداواری شعبے میں زیادہ فعال ہو سکیں اور ان اداروں کی افادیت میں بھی اضافہ ہو سکے۔ ہمارے خیال میں وزیراعظم میاں نواز شریف عید کے بعد موجودہ حالات کے پس منظر میں نئے ہائیڈل ڈیمز کی تعمیر کے حوالے سے پارلیمنٹ کا ایک خصوصی اجلاس بلائیں، ان میں کالا باغ ڈیم، بھاشا ڈیم، دھاسو، منڈا ڈیم اور نیلم جہلم سمیت تمام منصوبوں پر اتفاق رائے پیدا کریں۔ اس سلسلہ میں انہیں بتایا جائے کہ پاکستان میں ہر سال سیلاب آتا رہے گا اور تباہی مچاتا رہے گا۔ اس سے معیشت اور زراعت بھی تباہ ہوتی ہے اور پھر عوام بھی پریشان ہوتے ہیں جس سے بالآخر حکومتوں کے حالات بھی خراب ہوتے ہیں۔ اس لئے ہم سارے پاکستان کو تباہ ہونے سے بچائیں، اگر حکومت تمام سیاسی قائدین کو یہ بار آور کرانے میں کامیاب ہو جاتی ہے تو یہ ان کی طرف سے قوم کو عید کا تحفہ بھی ہو سکتا ہے۔ اس کے علاوہ حکومت کو سندھ اور خیبرپختونخوا کی حکومتوں کے رویے سے بھی عوام کو آگاہ کرنے کا موقع مل سکتا ہے۔ اس وقت بھرپور طور پر ملک کے معاشی حالات بہتر نہ ہونے کی کئی وجوہات ہیں جس میں گورننس اور وسائل کا معاملہ سرفہرست ہے۔ وسائل کی کمی کی وجہ سے موجودہ مالی سال کے بجٹ میں چاروں صوبوں اور وفاقی حکومت کے سوشل سیکٹر کے اخراجات میں کمی باعث تشویش ہے۔ ان شعبوں میں تعلیم، صحت، ماحولیات، پاپولیشن کنٹرول اور انفراسٹرکچر ڈویلپمنٹ وغیرہ قابل ذکر ہیں۔ جی ڈی پی کے لحاظ سے پچھلے مالی سال میں سوشل سیکٹر کے لئے 17.7 فیصد وسائل رکھے گئے تھے جو کہ موجودہ مالی سال میں کم کر کے 16.5 فیصد پر آ گئے ہیں، تاہم انکم سپورٹ پروگرام اور دیگر کچھ سکیموں کے لئے فنڈز میں اضافہ کیا گیا ہے۔ حیران کن بات یہ ہے کہ سوشل سیکٹر بجٹ میں زیادہ کمی پنجاب میں دیکھی گئی ہے، جبکہ حالات کا تقاضا ہے کہ ملک میں سماجی شعبوں کی ترقی سے امن اور خوشحالی لانے میں کافی مدد مل سکتی ہے لیکن کئی وجوہ کی بناء پر ڈالر کی بڑھتی ہوئی قیمت اور روپے کی قیمت میں مسلسل کمی کے رجحان سے صرف 2 ماہ میں پبلک ڈٹ کے حجم میں 200 ارب روپے کا اضافہ ہوا ہے جس سے بجلی، تیل اور دیگر درآمدی اشیاء کے نرخوں میں اضافہ سے ہر شعبہ متاثر ہو گا ملک میں اس وقت ایک طرف غربت بھی ہے اور دوسری طرف سماجی اور روایتی ضروریات پوری کرنے کی وجہ سے تجارتی سرگرمیوں میں تیزی تو نظر آ رہی ہے، مگر یہ لانگ ٹرم نہیں ہے، یہ صرف عید کے دنوں میں ہوتا ہے، مگر یہاں تو ضرورت مستقل طور پر قوم کے معاشی حالات میں بہتری کی ہے، جس کے لئے سیاسی جماعتوں کو مل بیٹھ کر ایک میز پر آنا ہو گا اور اسی کے لئے سب کو اپنی اپنی خواہشات کی قربانی دے کر قوم کی خواہشات کا خیال رکھنا ہو گا، جن کی وجہ سے وہ پارلیمنٹ میں جاتے ہیں۔ اگر وہ ایسا نہیں کریں گے تو انہیں حالیہ انتخابی نتائج کو مدنظر ر کھ لینا چاہئے۔
تازہ ترین