محمّد احمد غزالی
استادجو کچھ پڑھاتے، وہ نوجوان اُس زمانے کے رواج کے مطابق قلم بند کرتا جاتا، یہاں تک کہ بہت سے کاغذات جمع ہوگئے۔کچھ عرصے بعد نوجوان گھر واپس آرہا تھا کہ ڈاکوؤں نے قافلے والوں کو لُوٹ لیا اور اُس کی کتابوں کا تھیلا بھی چھین کر لے گئے۔وہ ڈاکوؤں کے پیچھے پیچھے چلتا ہوااُن کے سردار کے پاس جا پہنچا اور کہا، ”مجھے کچھ اور نہیں چاہیے، بس میرے تحریر کردہ کاغذات مجھے واپس کردیں کہ مَیں نے اُن میں درج اسباق کے لیے ہی یہ کٹھن سفر کیا تھا۔‘‘اِس پر سردار نے ہنستے ہوئےکہا،’’ تم نے خاک سیکھا۔
تمہاری حالت تو یہ ہے کہ ایک کاغذ نہ رہا، تو کورے رہ گئے۔“ یہ کہہ کر اُس نے وہ کاغذات واپس دے دیے۔نوجوان پر اِس واقعے کا ایسا اثر ہوا کہ گھر پہنچ کر پورے تین برس لگا کر وہ تمام مضامین زبانی یاد کرلیے۔ پھر تو علم و دانش کا ایسا سفر شروع ہوا، جس نے جلد ہی اُسے’’ حجۃ الاسلام‘‘ جیسے اعلیٰ لقب سے متصف کردیا۔ جی ہاں، ہم امام محمّد غزالی رحمۃ اللہ علیہ کی بات کر رہے ہیں۔
ولادت، خاندان
امام محمّد غزالی 450ہجری میں خراسان( ایران)کے ضلع طوس کے قصبے طبران (طاہران) میں پیدا ہوئے۔ والد رِشتہ فروش تھے، یعنی دھاگا بنانے اور بیچنے کا کام کرتے تھے اور اِس مناسبت سے اُن کا خاندان’’ غزالی‘‘ کہلاتا تھا کہ غزال کے معنی سوت کاتنے کے ہیں۔بعض افراد کا کہنا ہے کہ اُن کا تعلق’’ غزالہ‘‘ نامی گاؤں سے تھا، تاہم محقّقین اِس رائے کو قبول نہیں کرتے، کیوں کہ وہاں اِس نام کا کوئی گاؤں نہیں ہے۔
تعلیمی سفر
ابھی دونوں بھائی محمّد اور احمد چھوٹے تھے کہ والد کا انتقال ہوگیا۔اُن کے والد خود تو تعلیم حاصل نہیں کرسکے تھے، مگر اُنھیں اپنے بچّوں کی تعلیم کی بہت فکر تھی،لہٰذا انتقال سے قبل اپنے ایک دوست کو اِن دونوں بچّوں کو تعلیم دِلوانے کی وصیّت کرکے کچھ رقم بھی دی، تاہم یہ رقم جلد ہی ختم ہوگئی، جس پر والد کے دوست نے دونوں بھائیوں کو کسی مدرسے میں داخل ہونے کا مشورہ دیا۔
امام محمّد غزالی نے اپنے علاقے ہی میں شیخ احمد الراذکانی سے فقہ کی ابتدائی تعلیم تو حاصل کرلی تھی، پھر والد کے دوست کے کہنے پر جرجان میں امام ابو نصر کے حلقۂ درس میں شامل ہوگئے، وہاں سے دامن بَھرنے کے بعد نیشا پور جیسے علمی مرکز کا رُخ کیا اور امام الحرمین، عبدالملک بن عبداللہ جوینی کے ہاں جا پہنچے، جن کے علم کا ڈنکا بج رہا تھا۔ اُن کے درس میں چار سو کے قریب طلبہ شریک ہوتے تھے۔ کچھ ہی عرصے میں امام غزالی اپنے نام وَر استاد کے نائب بن گئے۔اُس وقت اُن کی عُمر 28 برس تھی۔ استاد کہا کرتے تھے،’’ غزالی بحرِ زخار ہے۔‘‘
تدریس کا آغاز
علمی بلندی کا شہرہ ہوا، تو اعلیٰ حکومتی شخصیات بھی امام غزالی کی طرف متوجّہ ہوگئیں۔ ایک روز آپ نظام الملک طوسی کے دربار میں پہنچے، جہاں علمی بحث مباحثے میں کوئی بھی اُن کے سامنے نہ ٹھہر سکا۔ اس پر اُنھیں اسلامی دنیا کے سب سے بڑے تعلیمی ادارے، جامعہ نظامیہ کا سربراہ مقرّر کردیا گیا۔ بقول ابو الحسن علی ندوی، یہ منصب اُس وقت کسی عالم کے لیے سب سے بڑا اعزاز اور منتہائے ترقّی تھا۔
یوں 34 سال کی عُمر میں مدرسہ نظامیہ کے صدر کی حیثیت سے بغداد میں داخل ہوئے اور جلد ہی وہ مقام حاصل کرلیا، جس کے متعلق کہا گیا کہ’’امام غزالیؒ کے جاہ وجلال کے سامنے امراء، وزراء اور خود بارگاہِ خلافت کی شان و شوکت بھی ماند پڑ گئی۔‘‘آپؒ کے درس میں 300 کے قریب ایسے طلبہ شریک ہوا کرتے، جو خود مدرس تھے، جب کہ امراء اور رؤسا کی بھی بڑی تعداد استفادے کے لیے حاضر رہتی۔لوگ آپؒ کی محفلِ وعظ میں کھنچے چلے آتے۔ آپؒ کے وعظ علمی نکات سے بھرپور ہوتے۔
حکم رانوں سے تعلقات
اُس زمانے میں مسلمانوں کے سیاسی طور پر دو مراکز تھے۔ ایک خاندانِ سلجوق اور دوسرے آلِ عباس۔ یہ دونوں خاندان امام غزالیؒ کے علمی مقام کے قدر دان تھے۔جب 485ہجری میں مَلک شاہ سلجوق کے انتقال کے بعد بغداد کے تختِ خلافت پر تنازع شروع ہوا، تو وہ آپؒ ہی کی مداخلت سے حل ہوا۔ اِسی طرح 487 ہجری میں مستظہر باللہ خلیفہ بنے، تو اُن کی سب سے پہلے بیعت کرنے والوں میں آپ بھی شامل تھے کہ وہ آپ کے دوست تھے۔اِس کے علاوہ آپ رہنمائی کے لیے وزراء وغیرہ کو خطوط بھی لکھتے رہتے تھے۔آپ کے ایک شاگرد محمّد بن تومرت نے اسپین میں سلطنت کی بنیاد ڈالی، جو کافی عرصے تک قائم رہی۔
تصوّف کی طرف رجوع
امام صاحبؒ ایک طرف تو مدرسۂ نظامیہ کی صدارت جیسے اعلیٰ منصب پر فائز تھے، تو دوسری طرف، حکم ران آپؒ کے سامنے ہاتھ باندھے کھڑے رہتے۔ کیا عوام اور کیا خواص، ہر طرف آپؒ ہی کے علم کا شہرہ تھا اور آپؒ اِس شہرت سے خوش بھی تھے، جیسا کہ اپنی کتاب میں لکھا ہے، مگر اِس کے باوجود ایک بے چینی سی تھی، جو اُنھیں سکون سے نہ بیٹھنے دیتی۔اُنھوں نے اپنے ذوقِ تحقیق کے مطابق مختلف مذہبی گروہوں کا جائزہ لینا شروع کردیا، ساتھ ہی فلسفے کا بھی مطالعہ کیا، لیکن دِل و دماغ کا انتشار بڑھتا ہی گیا۔ آخر میں حضرت جنید بغدادیؒ، حضرت شبلیؒ، حضرت بایزید بسطامی ؒ اور ابوطالب مکّیؒ جیسے صوفیائے کرامؒ کی کتب اور ملفوظات کا مطالعہ کیا، تو امام صاحب کے دِل کی دنیا ہی بدل گئی۔
خود لکھتے ہیں، ’’ چوں کہ یہ فن( یعنی تصوّف) دراصل عملی ہے، اِس لیے صرف علم سے کوئی نتیجہ حاصل نہیں ہوسکتا تھا اور عمل کے لیے ضروری تھا کہ زہد و ریاضت اختیار کی جائے۔ ادھر اپنےاشغال دیکھے، تو کوئی خلوص پر مبنی نہ تھا۔ درس و تدریس کی طرف طبیعت کا میلان اسی وجہ سے تھا کہ وہ جاہ پرستی اور شہرت عامّہ کا ذریعہ تھی۔‘‘اب اُنھوں نے بغداد چھوڑنے کا فیصلہ کرلیا، مگر چھے ماہ اِسی شش وپنج میں گزر گئے کہ کیا کیا جائے۔ کبھی دل سب کچھ چھوڑ چھاڑ کر کہیں نکل جانے کو کرتا، مگر دوسرے ہی لمحے اعلیٰ مناصب راہ کی رکاوٹ بن جاتے۔
بہرحال، وہ ایک روز مدرسہ نظامیہ کی مسند سے اُٹھ کر نامعلوم منزل کی جانب چل پڑے۔جب حکّام، معزّزینِ شہر، علماء اور عوام کو اِس فیصلے کا علم ہوا، تو سب دوڑے دوڑے آپؒ کے پاس چلے آئے۔ ہر طرف آہیں اور سسکیاں تھیں۔ اِس فیصلے سے باز رکھنے کے لیے طرح طرح کے دلائل دیے جا رہے تھے، مگر آپ آگے ہی بڑھتے گئے۔روایت ہے کہ جب امام صاحب 38 برس کی عُمر میں بغداد سے نکلے، تو عجب وارفتگی کی حالت تھی۔ جسم پر پُرتکلّف اور قیمتی لباس کی بجائے کمبل تھا اور لذیذ غذاؤں کی بجائے ساگ پات پر گزرا تھا۔( ابنِ خلکان) قصّہ مختصر، بغداد سے دمشق جا پہنچے اور جامعہ اموی میں مقیم ہوگئے، جو اُن دنوں ایک بڑا تعلیمی مرکز بھی تھی۔
آپ روز صبح وہاں کے مغربی مینار پر چڑھ کر کمرے کا دروازہ بند کرلیتے اور مراقبے یا ذکر و اذکار میں مشغول رہتے۔ تاہم، اِس دوران وہاں درس بھی دیتے رہے۔ نیز،اپنے آبائی علاقے طوس سے تعلق رکھنے والے سلسلہ نقش بندیہ کے عظیم المرتبت بزرگ، حضرت خواجہ ابو علی فارمدیؒ کے ہاتھ پر بیعت کی اور اُن کی رہنمائی میں راہِ سلوک کا سفر شروع کیا۔دو برس بعد وہاں سے بیت المقدِس چلے گئے اور گنبدِ صخرا میں مراقبات وغیرہ کرتے رہے۔
وہاں سے حضرت ابراہیم علیہ السّلام کی قبر پر گئے اور تین باتوں کا عہد کیا۔ (1) کسی بادشاہ کے دربار میں نہیں جاؤں گا۔(2) کسی بادشاہ کا عطیہ قبول نہیں کروں گا۔(3) کسی سے مناظرہ یا مباحثہ نہیں کروں گا۔ اور آخری دَم تک اپنے اِس عہد پر قائم رہے۔بعدازاں، حج کے لیے حرمین شریفین چلے گئے، جہاں کافی دنوں تک مقیم رہے۔ اِس سفر میں مِصر بھی گئے۔تقریباً دس برس تک اسی طرح متبرّک مقامات اور ویرانوں میں گھومتے رہے۔
دوبارہ تدریس کا آغاز
بادشاہ، سنجر سلجوقی کے وزیرِ اعظم، فخر الملک آپؒ کی خدمت میں حاضر ہوا اور نیشاپور کے مدرسۂ نظامیہ میں( یہ بغداد کے مدرسۂ نظامیہ سے الگ تھا) تدریس کی استدعا کی۔ وزیرِ اعظم کے اصرار، علماء اور صوفیا کے مشورے پر آپؒ نے 499 ہجری میں اس مدرسے میں درس و تدریس کا آغاز کردیا۔تاہم، ایک ماہ بعد ہی وزیرِ اعظم کے قتل پر مدرسہ چھوڑ کر اپنے گاؤں منتقل ہوگئے، جہاں ایک مدرسہ اور خانقاہ قائم کرکے طالبین کو سیراب کرنے لگے۔اِس کے بعد بھی بادشاہ نے آپؒ کو مدرسہ نظامیہ، بغداد میں تدریس کے لیے قائل کرنے کی بہت کوششیں کیں، یہاں تک کہ دربارِ خلافت کے تمام ارکان کے دست خطوں سے خط بھی لکھا گیا، مگر آپؒ اپنے گاؤں سے نہ نکلے۔
مخالفت کے اسباب
امام محمّد غزالی ؒپر تین طرح کی تنقیدیں ہوئی ہیں۔ ایک تو یہ کہ امام صاحب ؒنے جاہ پرست علماء، نام نہاد صوفیوں، ریاکار زاہدوں اور مناظرہ باز فقیہوں کے’’ کاروبار‘‘ پر کاری ضرب لگائی، اِس لیے وہ آپؒ کی مخالفت پر اُتر آئے۔ اُنھوں نے بادشاہ کو آپؒ کے خلاف بھڑکایا، جس پر آپ کو دربار میں طلب کیا گیا۔
تاہم، شاہ سنجر آپ کی عالمانہ گفتگو سے بہت متاثر ہوا۔ آپؒ کی جرأت کا اِس امر سے اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ دربار کے تمام تر دبدبے اور ایک ملزم کے طور پر پیش کیے جانے کے باوجود بادشاہ کو مخاطب کرتے ہوئے کہا،’’ لوگ پہلے ہی بدانتظامی اور ظلم کی وجہ سے تباہ تھے، اب سردی اور قحط کے سبب بالکل ہی برباد ہوگئے۔ ان پر رحم کرو، اللہ تجھ پر رحم کرے گا۔
افسوس! مسلمانوں کی گردنیں مصیبت اور تکلیف سے ٹوٹی جاتی ہیں اور تمھارے گھوڑوں کی گرنیں طوقِ ہائے زریں کے بار سے۔‘‘آپؒ پر دوسری تنقید علمی نوعیت کی ہے۔ امام ابنِ تیمیہ سمیت بہت سے علماء نے امام صاحبؒ کی علمی و تصنیفی خدمات کے اعتراف کے ساتھ بعض اعتراضات بھی کیے ہیں۔امام صاحب ؒنے اپنی کتب میں جو احادیثِ مبارکہؐ تحریر کی ہیں، اُن کی اسناد کا معاملہ علمی حلقوں میں موضوعِ بحث رہا ہے۔ گو کہ بہت سے علماء نے اِن احادیث کی تخریج کرتے ہوئے اسناد وغیرہ کی تفصیلات بیان کی ہیں، تاہم اِس موضوع پر اب بھی علمی حلقوں میں بحث ہوتی رہتی ہے۔
خود امام صاحب کو بھی اِس بات کا احساس تھا، اِسی لیے اُنھوں نے اپنی زندگی کے آخری برسوں میں ایک ماہر استاد سے احادیث کی معروف کتب، بخاری اور مسلم پڑھی تھیں۔ تیسری نوعیت کی تنقید اُن کے تصوّف کے نظریے سے متعلق ہے۔ کئی ایک علماء کا خیال ہے کہ امام صاحب نے فلسفے پر بہت کام کیا ، جس کے اثرات اُن کے تصوّف کے نظریات میں بھی واضح طور پر نظر آتے ہیں۔ پھر یہ کہ اُن کی کتب پڑھتے ہوئے قاری پر ایک ایسی کیفیت طاری ہو جاتی ہے، جو اُسے ترکِ دنیا تک بھی لے جاتی ہے۔
اصل بات یہ ہے کہ امام صاحبؒ نے اپنی کتب میں باطنی امراض اِس تفصیل سے بیان کیے ہیں کہ اُن کے مطالعے کے بعد اپنے وجود سے گھن سی آنے لگتی ہے اور اپنے باطن کی صفائی اور تزکیۂ نفس کی بہت شدّت سے ضرورت محسوس ہونے لگتی ہے، جس کے دوران بعض اوقات سب کچھ چھوڑ چھاڑ کر ایک طرف بیٹھ جانے کو بھی دل کرتا ہے، مگر امام صاحبؒ اپنے پڑھنے والوں کو تارکِ دنیا نہیں بنانا چاہتے، بلکہ اُن کا مشن انسان کو فکری اور روحانی آلودگیوں سے پاک کرکے معاشرے کا ایک بہترین فرد بنانا ہے۔
علمی مقام
امام صاحب ؒکے زمانے کے علمی میدان میں کوئی اُن کا ہم پلّہ نظر نہیں آتا۔وہ عالمِ اسلام کے سب سے بڑے مدرسے کے سربراہ رہے، تو اُن کے دروس کی دُور دُور تک دھوم تھی۔علماء اُن کے سامنے طالبِ علم کے طور پر بیٹھتے ،تو امراء اور عوام بھی استفادہ کرتے۔ علّامہ ذہبی کہتے ہیں،”غزالی بہت بڑے شیخ، بحرِ بے کنار، امام، حجۃ الاسلام، اپنے زمانے کے یگانہ روزگار تھے۔‘‘ان کا ایک بڑا علمی کارنامہ بے مثل کتب کی تصنیف بھی ہے۔
عقائد، فقہ، اصولِ فقہ، منطق، فلسفے اور تصوّف پر کئی سو کتب اُن سے منسوب ہیں۔امام غزالیؒ کی یومیہ تصنیف کا اوسط 61 صفحات لگایا گیا ہے۔ اُن کی کتب میں’’ احیاء العلوم‘‘ سب سے نمایاں ہے۔علّامہ شبلی نعمانی نے اپنی کتاب’’ الغزالی‘‘ میں بہت تفصیل سے امام صاحبؒ کی تصنیفی خدمات اور اُن کے اثرات کا جائزہ لیا ہے، جس میں درجنوں صفحات احیاء العلوم پر لکھے گئے ہیں۔
یہ ایک ایسی کتاب ہے، جس کے بغیر تصوّف اور اخلاقیات کا علمی تجزیہ ممکن ہی نہیں۔ 900 برس گزرنے کے باوجود آج بھی یہ کتاب اُردو سمیت دنیا کی مختلف زبانوں میں مسلسل شایع ہو رہی ہے۔ اس کی شروحات اور خلاصوں کی تعداد بھی درجنوں میں ہے، جو نام وَر علماء نے لکھی ہیں۔ شیخ محی الدّین اسے بیت اللہ کے سامنے بیٹھ کر پڑھا کرتے تھے، تو بہت سی خانقاہوں میں اس کا باقاعدہ ختم کیا جاتا رہا ہے۔ علّامہ شبلی نے ہنری لوئیس کے اِس قول کا حوالہ دیا ہے کہ’’ اگر ڈیکارٹ( یورپ میں اخلاق کے فلسفے کا جدید بانی) کے زمانے میں احیاء العلوم کا فرنچ زبان میں ترجمہ ہوچُکا ہوتا، تو ہر شخص یہی کہتا کہ ڈیکارٹ نے احیاء العلوم کو چُرایا ہے۔‘‘
امام صاحب کی دوسری مشہور کتاب ’’ المنقذ من الضلال‘‘ہے، جو دراصل اُن کی آپ بیتی ہے، جس میں اُنھوں نے پوری تفصیل سے اپنے فکری سفر کا ذکر کیا ہے۔ امام غزالیؒ کی شخصیت کی تفہیم کے لیے یہ ایک بنیادی کتاب ہے۔ دیگر مشہور تصانیف میں تہافتہ الفلاسفہ، کیمیائے سعادت اور مکاشفتہ القلوب شامل ہیں۔اِس ضمن میں ایک اہم بات یہ بھی ہے کہ امام صاحبؒ کی تصوّف، اخلاقیات یا فقہ سے متعلق کتب تو مسلمانوں میں مشہور ہیں، مگر یونانی فلسفے کے رَد اور اسلامی فلسفے کے حق میں لکھی گئی کتب سے عام طور پر بے اعتنائی برتی جاتی ہے، حالاں کہ بطور مسلم فلسفی، امام صاحبؒ کا کردار ایک قائد کے طور پر ہے۔ ایک ایسے زمانے میں جب مسلم علماء دفاعی پوزیشن میں تھے، امام غزالیؒ نے آگے بڑھ کر یونانی فلسفے کا مقابلہ کیا اور اُس کا ایسا پوسٹ مارٹم کیا کہ مؤرخین کے مطابق، ایک صدی تک کسی سے اُن کا جواب نہ بن پایا۔
وفات، اولاد
امام محمّد غزالی رحمۃ اللہ علیہ نے 14جمادی الثّانی 505ھ کو 55 برس کی عُمر میں اپنے گاؤں، طبران(طوس) میں وفات پائی اور وہیں سپردِ خاک ہوئے۔طوس میں آپؒ کا مزار معروف شاعر، فردوسی اور خلیفہ ہارون رشید کے قریب’’ ہارونیہ‘‘ میں ہے، تاہم وہاں سے کافی فاصلے پر ویرانے میں موجود ایک قبر بھی آپؒ سے منسوب ہے۔
امام ابنِ جوزی نے وفات کا واقعہ یوں لکھا ہے،’’ امام صاحبؒ نے پیر کی صبح نماز پڑھی اور پھر کفن منگوا کر آنکھوں سے لگایا اور فرمایا،’’ آقا کا حکم سَر آنکھوں پر۔‘‘ یہ کہہ کر لیٹ گئے، لوگوں نے دیکھا، تو انتقال کر چُکے تھے۔سوانح نگاروں کے مطابق، آپؒ کے ہاں کوئی بیٹا نہیں ہوا، البتہ چند بیٹیوں کا تاریخ میں ذکر مِلتا ہے، جن سے آگے نسل بھی چلی۔ تاہم، آپ ؒ ابو حامد کی کنیت سے معروف ہیں، جس سےپتا چلتا ہے کہ شاید آپؒ کےایک یا ایک سے زاید بیٹے بھی تھے۔