• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

نسرین جلیل

نسرین جلیل کا تعارف اور ذکراگر ان کے خاندانی پس منظر اور حسب نسب کے ضمن میں ہو،تو وہ انتہائی بھر پور بلکہ متاثر کُن ہے، لیکن ان کی سیاسی شناخت کی ابتدااور اختتام ایم کیوایم ہی ہے۔ اُن کے والد، ظفر الحسن برطانوی راج کے غیر منقسم ہندوستان میں لاہور کے ڈپٹی کمشنر تھے اور ایک بیوروکریٹ کی حیثیت سے انہوں نے کئی اہم انتظامی عُہدوں پر ذمّے داریاں انجام دیں۔ جب کہ خود نسرین جلیل کی عُمر کا ابتدائی عرصہ بہن، بھائیوں کے ساتھ لندن میں گزرا۔ تعلیم کی غرض سے پیرس بھی گئیں، اسی لیے انگریزی، اردو زبانوں کے علاوہ فرانسیسی زبان پر بھی مکمل عبور حاصل ہے۔

پھر فلائنگ کے شوق نے ہوا بازی سیکھنے پر مائل کیا اور کمرشل پائلٹ کا لائسینس حاصل کرنے کے بعد ایک طویل عرصے تک یہ شوق بھی پورا کرتی رہیں۔پاکستان کی پہلی ماہرِ تعمیرات کا اعزاز حاصل کرنے والی یاسمین لاری ، نسرین جلیل کی بڑی بہن ہیں۔ جس زمانے میں ایم کیو ایم اور بانی ایم کیو ایم کا طُوطی بولتا تھا، نسرین جلیل کا نام بھی صرف کراچی ہی نہیں، پاکستان بھر میں معروف تھا۔ 2002ء میں انہوں نےاین اے- 250سے عام انتخابات میں حصّہ لیا، لیکن کام یابی حاصل نہ کر سکیں۔ تاہم، 2012ء میں سینیٹ کے انتخابات میں بھر پور کام یابی حاصل کی۔

یاد رہے، اس دوران وہ ایم کیو ایم کی ڈپٹی کنوینیئر اور اکنامک اینڈفنانس ریونیو اور پرائیوٹائزیشن سمیت سینیٹ کی کئی کمیٹیوں کی چیئر پرسن بھی رہیں۔ گوکہ نسرین جلیل کی پیدائش لاہور کی ہے۔ تاہم اُن کی زندگی کا کم و بیش تمام حصّہ کراچی ہی میں گزرا ۔ وہ دو مرتبہ سینیٹ کی رُکن منتخب ہوئیں۔جب ایم کیو ایم کے خلاف کراچی میں آپریشن شروع ہوا، تو نسرین جلیل کو بھی گرفتار کر لیا گیا،تین سال کی سزا سنائی گئی اور جیل بھیج دیا گیا۔

بعد ازاں، چھے ماہ کی اسیری کے بعد انہیں گھر میں نظر بند کر دیا گیا۔مگر اس دوران سینیٹ کے چیئرمین کی جانب سے پروڈکشن آرڈر جاری کرنے پر وہ سینیٹ کے اجلاس میں شرکت کرنے لگیں۔ نسرین جلیل پہلی مرتبہ 1994ء اور دوسری مرتبہ 2012ء میں سینیٹ کی انسانی حقوق کی کمیٹی کی چیئر پرسن بنیں اور اسی حیثیت میں،بالخصوص خواتین کے حقوق کے لیے پارلیمانی پلیٹ فارم سے بہت کام کیا۔

سب ہی جانتے ہیں کہ جاذبِ نگاہ ، دیدہ زیب قیمتی ساڑیاں،دیدہ زیب چمکتے دمکتے موتیوں کی مالا، نسرین جلیل کی پہچان ہیں۔پارلیمنٹ ہاؤس میں اُنہیں ہمیشہ اِسی لباس میں دیکھا گیا۔ اور اس ضمن میں ایک دل چسپ واقعہ بھی پیش آیا کہ جب سینیٹر نسرین جلیل انسانی حقوق کمیٹی کی چیئرپرسن تھیں،توایک مرتبہ پارلیمنٹ ہاؤس میں کمیٹی کی میٹنگ تھی،جس میں جے یو آئی کے مفتی عبدالستّار بھی موجود تھے، حسبِ معمول نسرین جلیل اپنے مخصوص سراپے میں میٹنگ کی صدارت کے لیے موجود تھیں، تومیٹنگ شروع ہونے سے قبل مفتی عبدالستّارنے انہیں مخاطب کرتے ہوئے کہا،’’محترمہ چیئرپرسن! اسلام میں ہاتھ، پاؤں،سر اور پوراجسم ڈھانپنے کے احکامات ہیں اور آپ کا لباس قطعی طور پر غیر شرعی ہے۔ 

آپ تو بڑی دانش وَر ہیں اور سینیٹ کی ایک اہم کمیٹی کی چیئرپرسن بھی، توآپ کو تو ویسے بھی خواتین کے لیے آئیڈیل ہونا چاہیے‘‘جس پر نسرین جلیل نے بغیر کسی ہچکچاہٹ اورغیر معذرت خواہانہ لہجے میں جواب دیا’’مولانا! مَیں 74سال کی خاتون ہوں (یہ 2018ء کا واقعہ ہے) ایک مرتبہ مرتے مرتے بھی بچی ہوں، کسی وقت بھی داعیٔ اجل کو لبّیک کہہ سکتی ہوں۔ مَیں نے سر ڈھانپ لیا ہے، آپ تلاوت کریں تاکہ میٹنگ کی کارروائی شرو ع کی جاسکے۔‘‘یہ واقعہ ان کی اس شخصیت کا اظہار بھی ہے کہ وہ اپنی زندگی، اپنی مرضی اورخواہشات کے مطابق گزارنے کی عادی ہیں۔ اور یہی اندازِ زندگی ان کی سیاست اور دیگر شعبوں میں بھی نمایاں نظر آتا ہے۔

نسرین جلیل کے والد کاشمار،جو غیر منقسم ہندوستان کے برطانوی راج میں لاہور کے ڈپٹی کمشنر رہے، اُس وقت کی اہم شخصیات میں ہوتا تھا۔ خود نسرین جلیل اپنے والد کے بارے میں کہتی ہیں کہ انہوں نے یہ کہہ رکھاتھا کہ ’’جب تک مَیں سوِل سروس کا امتحان پاس نہیں کر لوں، شادی نہیں کروں گا۔‘‘’’ 1934ء میں سوِل سروس کا امتحان دینے والوں میں تین ہندو امید وار تھے اور میرے والد صاحب واحد مسلمان تھے، مگر انہوں نے امتیازی حیثیت میں سوِل سروس کے امتحان میں کام یابی حاصل کی۔ 

جس کے بعد برطانیہ کی جانب سے انہیں اعلیٰ تعلیم کے لیے آکسفورڈ بھیجا گیا۔ بعد میں سوِل ایوی ایشن سے بھی وابستہ رہے اور جب پی۔ آئی۔ اے کا قیام عمل میں آیا، تو وہاں ایم، ڈی کی حیثیت سے فرائض انجام دیئے۔ ان کی شادی گاؤں کی ایک سیدھی سادی لڑکی(میری والدہ) سے ہوئی، جو صرف پُوربی زبان بول سکتی تھی، لیکن والد صاحب نے انہیں اپنے رنگ ڈھنگ اور مزاج میں ڈھال لیا۔‘‘ 

’’سیاست میں آنے کا فیصلہ کیوں کیا اور ایم کیو ایم ہی کا انتخاب کرنے کی وجہ کیا تھی؟‘‘اس حوالے سے نسرین جلیل کا کہنا ہے کہ ’’1967ءمیں میری شادی ہو گئی تھی۔ جس کے بعد یکے بعد دیگرے چار بچّوں کی پیدائش ہوئی تو مَیں ان کی تعلیم و تربیت میں مصروف ہو گئی۔ پھر جب وہ اسکول، کالج جانے لگے، تو اُن دنوں میری ایک دوست سماجی خدمت کے طور پر ایک ڈسپینسری چلایا کرتی تھی۔ 

سینیٹ کمیٹی کے ایک اجلاس کی صدارت کرتے ہوئے
سینیٹ کمیٹی کے ایک اجلاس کی صدارت کرتے ہوئے

مَیں نے بھی اُس کے کام میں ہاتھ بٹانے کی خواہش ظاہر کی اور وہاں غریب، نادار افراد کے لیےادویہ کی فراہمی اور انہیں استعمال کے طریقے بتانے سے کام شرو ع کیا۔ اِسی عرصے میں، مَیں نے لوگوں کی غربت وافلاس اور روتےبلکتے بچّے، خوراک نہ ملنے کے باعث دَم توڑتے دیکھے، تو میری روح کانپ گئی کہ مَیں تو ساری عُمر آرام و آسائش میں پلی بڑھی تھی، ہر دُکھ و غم سے نامانوس تھی۔ مجھ پر ان مناظر نے گہرا اثر کیا اور مَیں نے طے کرلیا کہ اب بقیہ زندگی میں سماجی کام میری ترجیح ہوں گے۔

وہ دَور ایم کیو ایم کے بھر پور عروج کا دَور تھا، فتح یاب علی خان کے گھر ایک نشست میں بانی ایم کیو ایم کا خطاب تھا، مَیں اور جلیل بھی انہیں سُننے گئے، جس میں انہوں نے مُلک سے نا انصافی، جاگیر داری نظام کے خاتمے اور معاشرے میں سماجی توازن کے حوالے سے جو گفتگو کی، وہ انتہائی متاثر کُن تھی۔ 

ملاقات میں جلیل نے اُن سے کہا کہ ’’عام انتخابات سر پر ہیں اور ہم آپ کی مدد کرناچاہتے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ آپ 90پر امین الحق سے رابطہ کرلیں، لیکن تمام کوششوں کے باوجود ان سے رابطہ نہ ہو سکا۔ البتہ، کمال اظفر صاحب نے ہمارا رابطہ بیگم سلمیٰ احمد سے کروا دیا۔اس طرح ہم نے ایم کیو ایم کے سماجی خدمات کے شعبے سے منسلک ہو کر کام شروع کیا۔ مجھے سیاست میں آنے کا کبھی شوق نہیں رہا، نہ میں ایک سیاست دان کی حیثیت سے اپنی شناخت چاہتی تھی، لیکن 90پر معمولات کے بعد اندازہ ہوا کہ مَیں اور جلیل، ہم دونوں غیر محسوس طریقے سے ایم کیو ایم کی سیاست کا حصّہ بنتے جارہے ہیں، حالاں کہ میرا سارا کام خواتین کی فلاح و بہبود ، روزی روزگار کی جدّو جہد پر محیط تھا اور اس کے لیےمَیں ذاتی اخراجات سے بھی ووکیشنل سینٹرز، تعلیمی مراکز کے قیام میں معاونت کررہی تھی۔

بھوک ہڑتال کے دوران پولیس اہل کار گرفتار کرنے کی کوشش کررہی ہیں
بھوک ہڑتال کے دوران پولیس اہل کار گرفتار کرنے کی کوشش کررہی ہیں

90 میرے لیے گھر جیسا تھا کہ وہاں مَیں نے چائے بھی بنائی اور صفائی کا کام بھی کیا، لیکن ایم کیو ایم میں خواتین کے کسی یونٹ یا کسی تنظیمی حصّے میں عُہدے دار ہرگز نہیں بنی۔ 90پر دیگر کام، جو مجھے تفویض کیے گئے، اُن میں تنظیمی سرگرمیوں کے لیے ہفتہ وار میگزین کا اجراء،ایم کیو ایم کے لیٹریچر کا انگریزی میں ترجمہ،ایم کیو ایم کے لیے انگریزی میں آنے والے خطوط کے جوابات دینا وغیرہ شامل تھے۔

ان تمام باتوں کے باوجود میں 90کے ماحول میں اجنبی ہی رہی اور اس کی بڑی وجہ یہ تھی کہ جو لوگ میرے خاندانی پس منظر سے واقف تھے،وہ یہ سوچتے تھے کہ مَیں وہاں وقت گزاری کے لیے آتی ہوں۔جب کہ 90پر کام کرنے والی خواتین کا معاملہ یہ تھا کہ میرے رکھ رکھاؤ،طرزِ زندگی اور انگریزی سے انہیں کم مائیگی کا احساس ہوتا تھا، جو کبھی کبھی حسد کا رُوپ بھی اختیار کرلیتا ۔‘‘

فلائنگ کے حوالے سے ایک دل چسپ واقعہ سُناتے ہوئے کہتی ہیں کہ ’’دورانِ تربیت رات کی تاریکی میں بھی فلائنگ ضروری ہوتی ہے۔ ایک موقعے پر مَیں اپنے ساتھی کے ہم راہ فلائنگ کرتے ہوئے پاکستان کی فضائی حدود پار کر کے بھارت کی حدود میں داخل ہو گئی۔ تاہم، کنٹرول رُوم میں فوری طور پر ہنگامی حالت میں رابطہ کر کے صورتِ حال سنبھالی اور ہم نے شُکر ادا کیا کہ ہم خیر خیریت سے اپنی سرزمین پر واپس آ گئے۔ وگرنہ، اس بات کا قوی امکان تھا کہ بھارتی فضائیہ ہمیں اپنی سرزمین پر اُترنےپہ مجبور کر دیتے۔‘‘ 

شادی کے حوالے سے نسرین جلیل کا کہنا ہے کہ’’مَیں اُن دِنوں کراچی یونی وَرسٹی میں پڑھ رہی تھی۔ گُھڑ سواری،فلائنگ، شور شرابا، اپنی اسپورٹس کار میں یونی وَرسٹی کی دوستوں کے ساتھ سارا دن گھومنا پھرنا۔مگر پھر اچانک ہی ایک دن والدہ نےبتایا کہ ’’ہم نے تمہاری بات پکّی کر دی ہے۔‘‘ مَیں نے اس بات کو قطعاً اہمیت نہیں دی اور ’’جی ٹھیک ہے‘‘ کہہ کر آگے بڑھ گئی،لیکن تھوڑے ہی عرصے بعد جب شادی کی تاریخ طے ہونے کی باتیں ہونے لگیں، تو مجھے ہوش آیا اور یہ بھی معلوم ہوا کہ والدہ صاحبہ نے خوب چھان پھٹک کر کے میرے لیے جلیل صاحب کو پسند کیا ہے۔ 

لیکن اس شادی میں میری پسند قطعی طور پر نہیں پوچھی گئی تھی اوریہ مکمل ”ارینج میرج“ تھی۔ منگنی کے بعد موصوف میری اسپورٹس کار جیسی کار میں یونی وَرسٹی میں دیکھے جانے لگے۔ شاید وہ مجھے یہ باور کروانا چاہتے تھے کہ ’’ہم بھی کسی سے کم نہیں‘‘ یہی بات مجھے ناگوارگزری اور مَیں نے ا پنی والدہ سے کہا کہ ’’ان صاحب سے تو مَیں ہرگز شادی نہیں کرنا چاہتی، اس کے علاوہ جہاں آپ کی مرضی ہو کرو ا دیں‘‘ لیکن میری بات میں وزن نہیں تھا، دلیل کم زور تھی۔ ویسے بھی جلیل صاحب میں بظاہر کوئی کمی نہیں تھی۔ اس لیے مجھے یہ فیصلہ تسلیم کرنا پڑااور اب بخوشی اس ’’فیصلے ‘‘کے ساتھ زندگی گزاررہی ہوں۔‘‘

نسرین جلیل ان دنوں عملی طور پر سیاست میں قریباً غیر فعال ہی ہیں، لیکن اس کی ایک بڑی وجہ یہ بھی ہے کہ وہ کافی عرصے سے پھیپھڑوں کے عارضے میں مبتلا ہیں۔ اس لیے کورونا وائرس کے پھیلاؤ کے ساتھ ہی ان کے معالجین اور بچّوں نے انہیں گھر اور محتاط مصروفیات کی حد تک محدود کر دیا ہے۔سو، اب ان کی سرگرمیاں گھریلو اُمور اور معمولات ہی کی حدتک ہیں۔ وہ اس قیاس اور تاثر کی نفی کرتی ہیں کہ انہوں نے ایم کیو ایم سے لاتعلقی اختیار کر لی ہے۔

تنظیم سے اپنی وابستگی کی استقامت کے حوالے سے وہ یہ مثال بھی دیتی ہیں کہ ’’ایک مرتبہ میاں نواز شریف نے 90 کے دَورے پر آنا تھا۔ 90 سے وابستگی رکھنے والی تمام خواتین کوبانی ایم کیو ایم کا یہ پیغام ڈاکٹر عمران فاروق نے دیا کہ وہ 90 آنے والے راستے کی دونوں جانب سڑک پر کھڑے ہو کر میاں نواز شریف کا استقبال کریں گی اور ان پر پھول نچھاور کریں گی اور پھرمَیں اس بات پر قطعی آمادہ نہیں تھی۔ میری خودداری اس بات کی اجازت نہیں دیتی تھی۔ بہرحال، نہ چاہنے کے باوجود مجھے ایسا کرنا پڑا اور پھر 90 واپس آکر مَیں خوب روئی۔ 

اس بات کا علم عمران فاروق کو ہوا، تو وہ میرے پاس آئے اور رونے کہ وجہ پوچھتے ہوئے کہا ’’قائدِ تحریک اگر مجھے کسی کے جوتے اُتارنے کو کہیں، تو مَیں اس سے بھی انکار نہ کروں۔ ہم نے ہر حال میں قائد کا حکم ماننا ہے۔‘‘ نسرین جلیل کا کہنا ہے ’’جب مَیں ان حالات میں ایم کیوایم سے وابستہ رہ سکتی ہوں، تو اب کیسے لاتعلقی اختیار کر سکتی ہوں۔‘‘ (جاری ہے)

تازہ ترین