کشمالہ طارق
’’کشمالہ طارق اُس وقت کم عُمر، معصوم چہرہ اور قدرے سہمی سی ایک طالبہ دکھائی دیتی تھی، جب وہ وکالت کی سند حاصل کرنے کے بعد مجھ سے ملنے لاہور ہائی کورٹ میں میرے چیمبر آئی۔وہ شاید میرے کسی دوست کے حوالے سے ملنے آئی تھی،جس کا نام اِس وقت میرے ذہن میں نہیں۔اُس کی آنکھوں میں ایک خاص قِسم کی چمک تھی، جسے صرف ذہانت کی چمک نہیں کہا جا سکتا، وہ ایسوسی ایٹ وکیل کی حیثیت سے میرے ساتھ کام کرنے کی خواہش مند تھی۔
اس کی شخصیت کےمجموعی خدّوخال، پروفیشن میں آگے بڑھنے کا عزم اور ارادے سُننے کے بعد مَیں نے بلا اعتراض اسے اجازت دے دی اور کشمالہ نے میرا چیمبر جوائن کر لیا۔ لیکن جلد ہی اپنے ارادوں اور عزائم کی تکمیل اور تیزی سےآگے بڑھنے کی دُھن میں اُس نے میراچیمبر چھوڑ دیا اور پھر واقعی اس نے بہت ترقّی کی۔‘‘کشمالہ طارق کے بارے میں یہ الفاظ ہیں، بیگم شفیقہ ضیاالحق کے فرسٹ کزن اور اعجازالحق کے ماموں میاں وحید کے، جو رُکنِ قومی اسمبلی بھی رہ چُکے ہیں۔
پھر جب ایک روز ہم تین دوست اسلام آباد کے بلیو ایریا میں واقع ایک چائنیز ہوٹل میں کھانا کھانے گئے، تو اسی دوران میاں صاحب ہماری ٹیبل پر آئے اور بتایا کہ یہ میرا ہی ہوٹل ہے۔ خوش گوار ماحول میں بے تکلّفانہ گفتگو شروع ہوئی، تو اسی دوران انہوں نے کشمالہ طارق کا تذکرہ بھی کیا۔ ہم نے میاں صاحب سے استفسار کیا کہ ’’جب کشمالہ طارق نے آپ کاچیمبرچھوڑاتو اس وقت ایسی خبریں بھی منظرِ عام پر آئیں کہ آپ نے ان سے کوٹھی خالی کروانے اوربیش قیمت گاڑی واپس لینے کے لیے قانونی چارہ جوئی کی دھمکی بھی دی تھی،تو وہ کیا معاملہ تھا؟‘‘جس پر انہوں نے بتایا کہ ’’وہ جس کوٹھی میں رہتی تھی ، وہ میری تھی اور وہ گاڑی بھی مَیں نے ہی اسے لے کر دی تھی، تو جس نے میراچیمبر چھوڑ دیا اور لاتعلق ہوگئی تو مَیں اُس سےاپنی چیزیں واپس کیوں نہ لیتا؟‘‘یہ جواب میاں وحید نے دوٹوک لہجے میں قدرے غصّے سے دیا تھا،جس کے بعد ہماری آگے یہ تک پوچھنے کی ہمّت نہ ہوئی کہ ’’اپنے چیمبر کی ایک ایسوسی ایٹ خاتون وکیل پر آپ کی اتنی مہربانیاں کیوں…؟‘‘
بعد ازاں، میاں صاحب نے ہمیں خصوصی طور پر کھانے کی دعوت دی اور وقت بھی مقرّر کیا ،لیکن مصروفیات کے باعث ہم اپنے ان دو دوستوں میں شامل نہ ہوسکے، جو متعیّنہ دن وہاں پہنچ گئے تھےاور جنہوں نے ہمیں بعد میں بتایا کہ میاں وحید کی دعوت کا اصل مقصد کشمالہ طارق کے بارے میں اپنے دل کی بھڑاس نکالنا اور نئے انکشافات کے دستاویزی شواہد فراہم کرناتھا (جو شاید مذکورہ دوستوں کے پاس اب بھی موجودہ ہوں )۔ یہ واقعہ کم و بیش8سال پرانا ہے۔ لیکن میاں صاحب کا طرزِ گفتگو کم از کم ہمیں تو بالکل مناسب نہیں گا، تب ہی اُس کے بعد کبھی اس ہوٹل کا رُخ نہیں کیا۔
کشمالہ طارق وفاقی محتسب برائے ہراسانی کے منصب پر فائز ہونے والی پہلی خاتون ہیں۔ ان کے ذمّےداریاں سنبھالنے کے کچھ عرصے کے بعد ہی ایک اہم، دل چسپ، مگرقدرے افسوس ناک واقعہ اُس وقت پیش آیا، جب مبیّنہ طور پر کشمالہ کو اُن ہی کے دفتر میں ہراساں کیا گیا۔اس واقعے کی تفصیل کچھ یوں ہے کہ اسلام آباد کے ایک معروف صحافی، مطیع اللہ جان نے، جو اپنے جارحانہ اور تند وتیز سوالات کے باعث مدّ ِمقابل کو اتنا پریشان کر دیتے ہیں کہ اُسے بھی ہراسانی کی زمرے میں لایا جا سکتا ہے، اپنے ایک ٹی وی انٹرویو کے لیے کشمالہ طارق سے بات کی، تو انہوں نے بخوشی حامی بھرتے ہوئے اُنہیں اپنے دفتر آنے کی دعوت دی اور پھر اس دوران وہاں جو کچھ ہوا، وہ کئی روزتک مین اسٹریم میڈیا اور سوشل میڈیا کی بھی زینت بنا رہا۔
ہوا کچھ یوں کہ اسے بدمزگی کہہ لیں یا ہراسانی کا آغاز،مذکورہ صحافی نے کشمالہ طارق سے ان کے موجودہ منصب کی اہلیت سے متعلق تعلیمی قابلیت، تجربے اور دیگر سوالات کے ساتھ یہ بھی استفسارکیا کہ’’کیا آپ خود کو وفاقی محتسب برائے ہراسانی کے منصب کا اہل سمجھتی ہیں۔ نیز، تعلیم، تجربے، سینیاریٹی اور میرٹ کے اعتبار سے ایسی خواتین کی بڑی تعداد موجود ہے، جو اس منصب کے نہ صرف تمام تقاضے پوری کرتی ہیں،بلکہ آپ سے سے کہیں زیادہ اہلیت بھی رکھتی ہیں،تو اس صورتِ حال میں آپ کو یہ منصب دے کر کیاان خواتین کی حق تلفی نہیں کی گئی؟‘‘
(یاد رہے کہ یہ تمام گفتگو اور مناظر دو کیمروں سے ریکارڈ ہو رہے تھے)جس پر کشمالہ طارق نے اپنے غصّے پر قابو پاتے ہوئے جواب دیا کہ ’’آپ یہ سوال مجھ سے نہیں، بلکہ جنہوں نے مجھے یہ ذمّےداری تفویض کی ہے، اُن سے پوچھیں ۔مجھے آپ کی گفتگو سے یہ گمان ہوتا ہے کہ آپ یہاں خود نہیں آئے،بلکہ کسی مشن پر بھیجے گئے ہیں۔‘‘ بس جی، یہیں سےدونوں کے درمیان تکرار کا آغاز ہوگیا، جس میں بتدریج شدّت آتی گئی اور ایک موقع ایسا بھی آیا کہ کشمالہ طارق نے اپنے اسٹاف کو حکم دیا کہ ان کے کیمروں سے ریکارڈنگ کی فلمز نکال کر، انہیں بھی دفتر سے باہر نکال دیں۔ جس پر مذکورہ صحافی اور کیمرا مین بھی مشتعل ہو گئے اور کشمالہ کے اسٹاف کو تنبیہ کی کہ’’ اگر کسی نے بھی کیمروں سے فلمز نکالنے کی کوشش کی، تو وہ جواب دہ اور نتائج کا ذمّے دار خود ہوگا۔ ‘‘صورتِ حال مزید خراب ہونے پر کشمالہ طارق نے ٹی وی ٹیم کے ارکان اور صحافی کو کمرے میں بند کرنے کے احکامات بھی جاری کر دیئے۔
اسی طرح جب کشمالہ طارق جب قومی اسمبلی کی رکن تھیںاور ایک روز پارلیمینٹ ہاؤس سے باہر میڈیا ٹاک کر رہی تھیں، تو ایک اور معروف صحافی اعزاز سیّد نے،جو اُس وقت پارلیمینٹ ہائوس کے باہر کوریج کر رہے تھے، کشمالہ طارق سے سوال کیا کہ’’اس بات میں کہاں تک صداقت ہے کہ آپ نے سلیم سیف اللہ صاحب سے صحافیوں کے نام پر 8لاکھ روپے کے فنڈز لیے ہیں اور اگر یہ دُرست ہے، تو وہ فنڈزکن لوگوں میں تقسیم کیے گئے ہیں؟‘‘ جس پر کشمالہ طارق برہم ہو گئیں اور کیمرا بند کرنے، بصورتِ دیگر توڑنے کی دھمکی دیتے ہوئے اعزاز سیّد کو نتائج بھگتنے کی دھمکیاں دیتے ہوئے سوال کا جواب دیئے بغیر وہاں سے چلی گئیں۔
غزالی آنکھوں، متناسب ناک نقشے، قد کاٹھ، مجموعاً پُرکشش شخصیت کی مالک،کشمالہ طارق نے اپنی سیاسی زندگی کا آغاز 1993ء میں پاکستان پیپلزپارٹی اسٹوڈنٹ فیڈریشن کے یوتھ ڈویژن میں ایک ورکر کی حیثیت سے کیا،جب وہ پنجاب یونی وَرسٹی میں زیرِتعلیم تھیں۔ یہی نہیں ،غیر معمولی صلاحیتوں کی مالک اور فعال ہونے کے باعث پاکستان پیپلزپارٹی یوتھ کی صدر بھی بنیں۔ پھر جنرل پرویز مشرف کےدَورِ حکم رانی میں انہوں نے پاکستان مسلم لیگ (ق)میں شمولیت اختیار کر لی اور خواتین کی مخصوص نشستوں پر ٹکٹ حاصل کرنے میں بھی کام یاب ہو گئیں، جو بظاہر چوہدری شجاعت حُسین کی مہربانیوں کا شاخسانہ تھا۔ تاہم، اس سےقبل مسلم لیگ(ق) کی سیکریٹری اطّلاعات کے طور پر بھی فرائض انجام دیتی رہیں۔
کشمالہ طارق نے لندن اسکول آف اکنامکس سے امتیازی حیثیت میں کارپوریٹ اور کمرشل قوانین میں ایل ایل ایم کی ڈگری حاصل کی۔انہیں اُردو اور پنجابی کے علاوہ انگریزی زبان پر بھی مکمل عبور حاصل ہے۔ کشمالہ طارق پہلی مرتبہ 2002ء میں اور دوسری مرتبہ 2008ء میں خواتین کی مخصوص نشستوں پر رکنِ اسمبلی منتخب ہوئیں۔
اس دوران 2007ء میں انہیں دولتِ مشترکہ خواتین پارلیمنٹیرنز کمیٹی کی چیئرپرسن بھی منتخب کیا گیا۔ کشمالہ نے دوسری شادی 48سال کی عُمر میں اسلام آباد کی امیرترین کاروباری شخصیت، وقاص خان سے کی، جو ان کے پہلے شوہر کی طرح پہلے سے شادی شدہ تھے۔
کشمالہ طارق کی دوسری شادی کو بعض واقفانِ حال، جن میں سیاسی حلقے اور میڈیا کے بعض نمایندے بھی شامل ہیں، اُن کی تیسری شادی بھی قرار دیتے ہیں، جو دو مرتبہ حکومت کی اہم وزارتوں پر فائز رہنے والی ایک اہم مسلم لیگی شخصیت کے ساتھ ہوئی تھی۔جب کہ پہلے شوہر طارق رشید خان سے، جو کینیڈا میں سکونت پذیر ہیں،کشمالہ کا ایک بیٹا ،اذلان خان بھی ہے۔ یقیناً قارئین کو یاد ہوگا کہ رواں سال اپریل میں اسلام آباد کے سری نگر ہائی وے پر کشمالہ طارق کے بیٹے اذلان خان نے مبیّنہ طور پر تیز رفتاری کے باعث سگنل توڑ کر اپنی گاڑی ،ایک کاراور موٹر سائیکل سے ٹکرا دی تھی، جس کے نتیجے میں چار افراد ہلاک ہوگئے تھے۔
اس حادثے کا سبب اذلان خان کی لاپروائی اور تیزرفتار ڈرائیونگ کوقرار دیا گیا تھا اور مقدمہ بھی درج ہو ا تھا، لیکن اسلام آباد ہائی کورٹ نےوفاقی محتسب ،برائے ہراسانی خواتین کے صاحب زادے کے خلاف درج ہونے والے مقدمے میں نہ صرف ملزم کی ضمانت منظور کی بلکہ بعد میں ورثا سے معاہدے کے بعد مقدمہ بھی خارج کر دیا گیا۔ گو کہ اب میدانِ سیاست سے تو کشمالہ طارق مکمل طور پر ’’آئوٹ‘‘ہیں، مگر ایک اہم منصب پر فائز ہونے کے باعث ’’اِن‘‘بھی تصوّر کی جا سکتی ہیں۔
گرچہ کشمالہ طارق کی ذات سے منسوب تنازعات، ان کا جارحانہ طرزِ عمل اور بعض اسکینڈلز کی وجہ سے میڈیا میں ان کی منفی شہرت نے اُن کی مثبت کار کردگی کو کافی متاثر کیا۔ اس لیے ان کا تذکرہ بھی متنازع واقعات کے حوالے ہی سے زیادہ ہوتا ہے، لیکن بطور رکنِ قومی اسمبلی دو مرتبہ ایوان میں داخلے کے باعث وہ قریباً 10 سال تک اجلاسوں میں شریک ہوتی رہیں، گوکہ اس طویل عرصے میں ان کی کارکردگی کچھ زیادہ متاثر کُن نہیں تھی، لیکن انہوں نے ایوان میں ہمیشہ خواتین کے حقوق کے لیے آواز بلند کی،جب کہ خواتین کے حوالے سےدو بِلز ’’غیرت کے نام پر قتل کا قانون‘‘ اور ’’حدود آرڈینینس کا ترمیمی بِل‘‘بھی پیش کیے۔یاد رہے، خواتین کے حقوق اور ان کے ساتھ ہونے والی نا انصافیوں کے حوا لے سے یہ دونوں ہی بِلز انتہائی اہمیت کے حامل ہیں۔
اسی طرح دورانِ وکالت بھی انہوں نے زیادتی کا شکار ہونے والی بے سہارا اور بے وسیلہ خواتین کو اُن کا حق دلوانے کے لیے قابلِ ذکر خدمات انجام دیں۔ کشمالہ طارق کو بحیثیت پارلیمینٹیرین یہ اعزاز بھی حاصل ہے کہ وہ پاکستان کی واحد خاتون ہیں، جنہوں نے ’’کامن ویلتھ پارلیمینٹیرینز‘‘ کا انتخاب جیتا اور تین سال تک اس عُہدے کی ذمّے داریاں نبھائیں۔ یہ یہاں امر بھی قابلِ ذکر ہے کہ سیاست میں کیریئر بنانے کے ساتھ ساتھ بطور وکیل بھی کام کرتی رہیں اور بعد میں انہوں نے سُپریم کورٹ آف پاکستان کے سینئر وکلا کےایک لاء چیمبر کی بنیاد بھی رکھی۔