اسلام آباد(فاروق اقدس/نامہ نگار خصوصی)امریکی صدر جوبائیڈن کی حکومت جمہوریت کے موضوع پر 9.10دسمبر کو ایک عالمی سربراہی کے ورچوئل اجلاس کی میزبانی کرے گی جس میں دنیا کے 110ممالک کو مدعو کیا جائے گا جن میں پاکستان اور بھارت بھی شامل ہیں تاہم امریکی محکمہ خارجہ کی جانب سے مدعوئین کی فہرست میں چین سمیت کئی اہم ممالک شامل نہیں اس طرح کانفرنس میں نہ صرف چین کو نظرانداز کیا گیا ہے بلکہ تائیوان بطور خاص مدعوئین کی فہرست میں شامل ہے ظاہر ہے جس سے واشنگٹن اور بیجنگ میں پہلے سے موجود کشیدگی میں مزید اضافہ ہوگا لیکن شریک ممالک کے سربراہان کی فہرست میں موجود اور نظرانداز کئے جانے والے ممالک کا جائزہ لیا جائے تو اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ کشیدگی نہ سہی لیکن سفارتی سطح پر ناخوشگوار صورتحال صرف ایک ہی نہیں بلکہ ایک سے زیادہ ممالک کے درمیان پیدا ہو سکتی ہے تاہم پاکستان کے نکتہ نظر سے امریکہ کی جانب سے اجلاس میں شرکت کی دعوت پاکستان کیلئے خارجہ پالیسی کے حوالےسے وزیراعظم عمران خان کی حکومت کیلئے ’’ایک سفارتی آزمائش‘‘سے کم نہیں کیونکہ امریکہ نے چین کو نظرانداز اور پاکستان کو مدعو کر کے اسلام آباد کیلئے ایک مشکل صورتحال پیدا کر دی ہے امریکہ میں صدر جوبائیڈن کی نئی انتظامیہ کے ساتھ اسلام آباد اور واشنگٹن کے مابین تعلقات کا جائزہ اگر اختصار سے لیا جائے تو اس کا آغاز صدر جوبائیڈن کی جانب سے امور مملکت سنبھالنے کے بعد پاکستان کے وزیراعظم کو نظرانداز کرنے کا سلسلہ اس وقت شروع ہوتا ہے جب امریکی صدر نے خیر سگالی کے اظہار کیلئے مختلف ممالک کے سربراہان سے خود فون پر رابطے کئے اور ان سے اپنے ملک اور منصب کے خوشگوار تعلق کا پیغام دیا جن میں پاکستان کے دو پڑوسی ملک بھارت کے وزیراعظم نریندر مودی اور اس وقت کے افغان صدر اشرف غنی بھی شامل تھے لیکن اس پر اس پر ایک ’’ناخوشگوار حیرت‘‘کا اظہار کیا گیا کہ پاکستان جو بالخصوص اس وقت افغانستان سے امریکی فوجوں کی واپسی کیلئے غیر معمولی طور پر اہم تھا بلکہ اس عمل میں کلیدی کردار ادا کررہا تھا امریکی صدر نے پاکستانی وزیراعظم کو نظرانداز کر کے بھارتی اور افغان وزیراعظم کو ترجیح کیوں دی بین الاقوامی سطح پر بھی یہی صورتحال موضوع بحث بنی جبکہ خود امریکی حلقوں نے بھی وزیراعظم پاکستان عمران خان کو نظرانداز کئے جانے پر تاسف اور حیرت کے ساتھ تنقید کی موضوع کی مناسبت سے برسبیل تذکرہ یہاں یہ بات بھی قابل ذکر ہے کہ دسمبر2016میں انتخابات میں کامیابی حاصل کرنے کے بعد نو منتخب امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ اور اس وقت کے وزیراعظم میاں نوازشریف کے درمیان فون پر رابطہ ہوا تھا جسے اس صورتحال میں غیر متوقع سمجھا جا رہا تھا اس رابطے کے حوالے سے برطانوی نشریاتی ادارے نے رپورٹ کرتے ہوئے دونوں سربراہان کے درمیان’’زبردست کال‘‘کا عنوان دیتے ہوئے لکھا تھا کہ امریکی نومنتخب صدر نے نوازشریف سے گفتگو کرتے ہوئے پاکستانی وزیراعظم اور پاکستانی عوام کی بہت تعریف کی اور یہ بھی کہا تھا پاکستان ذہین لوگوں کا شاندار ملک اور آپ ایک لاجواب شخصیت ہیں لیکن ناقدین کے نزدیک امریکی صدر جوبائیڈن کا پسند نہ کیا جانے والا طرزعمل صرف ٹیلیفون کال کی حدتک نہیں ہے ۔