• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

آغا سیّد حامد علی شاہ موسوی

اسلام کی باعظمت خواتین نے اپنے کردار سے تاریخ پر جو انمٹ نقوش چھوڑے، اس پر مورخ حیران ہیں، اس سے ثابت ہوتا ہے کہ اسلام میں خواتین کو دی گئی اہمیت بے سبب نہیں۔ اسلام کی ان معظم و مکرم خواتین میں ایک نمایاں ترین نام نواسی رسول سیّدہ زینب بنت ِعلیؓ کا ہے، جن کی عظمت کا حکیم الامت علامہ اقبال ؒنے یوں اعتراف کیا:۔

حدیث ِعشق دو باب است،کربلا و دمشق

یکے حسینؓ رقم کرد و دیگرے زینبؓ

آج چودہ صدیاں بیت چلی ہیں ،جہاں بھی ایثار ،قربانی ،حلم و بردباری، استقامت و استقلال اور دلیر ی و شجاعت کا تذکرہ ہوتا ہے۔ وہ اس عظیم خاتون کی حیاتِ طیبہ کو دہرائے بغیر مکمل نہیں ہوتا۔ حضرت زینب بنت علیؓ 5 جمادی الاول یا بعض روایات میں یکم شعبان 5یا 6ھ کو مدینہ میں پیدا ہوئیں۔ آپ کے والد گرامی شیرخدا حضرت علی ابن ابی طالبؓ اور مادر گرامی خاتون جنت حضرت فاطمہ زہراءؓ ہیں۔

آپ کے مشہور القاب ثانیِ زہرا،شریکۃ الحسین، عالمہ،نائبۃالزہراء ، عقیلہ بنی ہاشم، نائبۃ الحسین، صدیقہ صغریٰ، محدثہ، زاہدہ، فاضلہ، راضیہ بالقدر والقضاء ہیں۔ آپ کی پیدائش کے وقت رسالت مآبﷺ سفر میں تھے اور حضرت فاطمۃ زہراءؓ نے امیر المومنین حضرت علی ابن ابی طالب ؓسے درخواست کی کہ بچی کا نام تجویز فرمائیے ،آپ نے فرمایا کہ کبھی ایسا ہوا کہ میں نے رسو ل اللہﷺ سے سبقت کی ہو اور حضرت علیؓ نے بیٹی کو ماں کی آغوش سے لے کر ناناؐ کی آغوش میں دے دیا۔

آنحضرتﷺ نے فرمایا :فاطمہؓ کی اولاد میری اولاد ہے، لیکن ان کے بارے میں اللہ فیصلہ کرتا ہے، چناںچہ جبرائیل امینؑ نازل ہوئے اور عرض گزار ہوئے کہ اللہ نے درود و سلام بھیجا ہے اور فرمایا ہے کہ دختر کا نام زینب رکھ دیجیے۔ میں نے لوح محفوظ میں یہی نام رقم کررکھا ہے، اس وقت رسول اللہﷺ نے حضرت زینب ؓ کو آغوش میں لیا ،بوسا دیا اور فرمایا میری وصیت ہے ،سب اس بیٹی کا احترام کریں، کیونکہ یہ سیّدہ خدیجۃ الکبریٰ ؓ کی مانند ہے۔ (ریاحین الشریعہ )

جس طرح دین و شریعت کے تحفظ و عروج اور پیغمبر اسلامﷺ کی حفاظت، پاس داری اور معاونت کےلیے امّ المؤمنین حضرت خدیجۃ الکبریٰؓ کی کوششیں بے مثال و لازوال تھیں، اسی طرح آپ کی نواسی حضرت زینبؓکا صبر واستقامت، راہِ خدا میں جذبہ ایثار و فداکاری اور بقائے دین و شریعت کےلیے عظیم ترین قربانی کائنات کےلیے مثال رہے گی۔ حضرت زینبؓ جہاں خانوادہ ٔاہلِ بیتؓ کی عظیم ترین فرد تھیں، وہیں انہیں صحابیہ ؓ کا شرف بھی حاصل تھا ۔ثانی زہرا ءؓ نے نورِ پیغمبر ﷺکی تابش سے فیض حاصل کیا ۔آپ نے آغوشِ نبوت و ولایت و عصمت میں پرورش پائی ،علم و عرفان کے سرچشموں سے سیراب ہوئیں اور صبر و استقامت و شجاعت کا درس حاصل کیا۔

یہی وجہ ہے کہ اللہ نے ثانی زہراءؓ میں برداشت و پائیداری کو روشن کردیا، تاکہ راہِ مستقیم پر چلنے والے انسانوں کےلیے تاابدنمونہ عمل بن جائیں۔گویا حضرت زینبؓ نے آنے والے حوادثات و سانحات کےلیے عہد طفلی میں ہی اپنے آپ کو تیار کرلیا۔ پھر وہ وقت آہی گیا، جب حسین ابن علیؓ نے پامال ہوتی اسلامی قدروں کی بقا کی خاطر یزید کی بیعت سے انکار کردیااور کربلا کے دشت کو آل نبی اور اپنے اصحاب کے خون سے معلی بنا دیا ۔ یزید سمجھا کہ حسینؓ کو شہید کرکے اس نے لاالہٰ کے پاسبانوں کا خاتمہ کردیا ،ایسے میں سیدہ زینب ؓنے جلے ہوئے خیام سے پرچم حسینیت ؓکو سنبھالا ۔

گیارہ محرم61ہجری کو یزید ی لشکر، نبی اکرم ﷺکی بیٹیوں کو قیدی بنا کر شام لے کر چلا تو سیدہ زینبؓ نے اس دوران شہیدانِ راہِ شرف و فضل کے پسماندگان و اسیروں کی گراں قدر میراث کی جس طرح پاس داری و حفاظت کی اور شہدائے نینوا کے گراں بہا خون کو رائیگاں ہونے سے بچایا ،اس پر کوفہ و شام کے بازاروں اور ابن زیاد و یزید کے درباروں میں بنتِ حیدرکرارؓ کے خطبات،بیانات و تقریرات شاہد وگواہ ہیں، جنہوں نے یزیدیت اور اس کے ہمنوائوں کے چہروں پر پڑے ہوئے اسلام کے مصنوعی نقاب کو اتار پھینکا اور ظلم و جبرو اسلام شکنی کی بنیادوں پر ایستادہ قصر ہائے یزیدیت میں زلزلہ برپا کردیا۔

دانش کدہ ادبیات قاہرہ کی مشہور و معروف ادیبہ ڈاکٹر عائشہ بنت شاطی بعنوان ’’ انعکاس دائمی صدائے زینبؓ ‘‘ رقم کرتی ہیں ’’ زینبؓ عقیلہ بنی ہاشم نے اپنی ذمہ داری کو اس طرح واضح طور پر پورا کیا کہ قیام قیامت تک سانحہ کربلا کو جاوداں کردیا۔ثانی زہراءؓ نے اپنے خطاب کو جاری رکھا ،یہ آوازیں عوام الناس کے کانوں میں گونجتی رہیں اور ہمیشہ ان کے دلوں کو بے قرارکرتی رہیں اور وہ اپنے کو خود ہی سرزنش کرتے اور ایک دوسرے کو بُرا بھلا کہتے ،یہاں تک کہ ایک نئی تحریک کا آغاز ہوا ، یہاں تک کہ قصر ہائے یزیدیت کی بنیادیں کھوکھلی ہو گئیں۔‘‘

جب اولادِ نبی کا اسیر قافلہ دربار یزید میں پہنچا تو نواسی رسول اللہﷺ،ثانی زہراء ،شریکۃالحسین حضرت بی بی زینب بنت علی ؓ نے دربار میں یزید کو مخاطب کر کے فرمایا ’’سب تعریفیں اس خدا کے لئے ہیں جو کائنات کا پروردگار ہے اور خدا کی رحمتیں نازل ہوں پیغمبر اکرمﷺ پر اور ان کی پاکیزہ عترت و اہل بیت ؓ پر۔ اما بعد ! بالآخر برا ہے انجام ان لوگوں کا، جنہوں نے اپنے دامن حیات کو برائیوں کی سیاہی سے داغدار کر کے اپنے رب کی آیات کی تکذیب کی اور ان کا مذاق اڑایا۔ اے یزید! کیا تو سمجھتا ہے کہ تو نے ہم پر زمین کے گوشے اور آسمان کے کنارے تنگ کر دیے ہیں اور کیا آلِ رسول ؐکو رسیوں اور زنجیروں میں جکڑ کر دربدر پھرانے سے تو خدا کی بارگاہ میں سرفراز اور ہم رسوا ہوئے ہیں؟ 

کیا تیرے خیال میں ہم مظلوم ہو کر ذلیل ہو گئے اور تو ظالم بن کر سر بلند ہوا ہے؟ کیا تو سمجھتا ہے کہ ہم پر ظلم کر کے خدا کی بارگاہ میں تجھے شان و مقام حاصل ہو گیا ہے؟ آج تو اپنی ظاہری فتح کی خوشی میں سرمست ہے، مسرت و شاد مانی سے سرشار ہو کر اپنے غالب ہونے پر اترا رہا ہے اور ہمارے حقوق کو غصب کر کے خوشی و سرور کا جشن منانے میں مشغول ہے۔ اپنی غلط سوچ پر مغرور نہ ہو اور ذرا دم لے۔ کیا تو نےاللہ کا یہ فرمان بھلا دیا ہے کہ حق کا انکار کرنے والے یہ خیال نہ کریں کہ ہم نے جو انہیں مہلت دی ہے وہ ان کے لئے بہتر ہے،بلکہ ہم نے اس لئے ڈھیل دے رکھی ہے کہ جی بھر کر اپنے گناہوں میں اضافہ کر لیں اور ان کے لئے خوف ناک عذاب معین و مقرر کیا جا چکا ہے۔ 

کیا یہ تیرا انصاف ہے کہ تو نے اپنی مستورات کو چادر اور چار دیواری کا تحفظ فراہم کر کے پردے میں رکھا ہوا ہے ،جب کہ رسول زادیوں کو سر برہنہ در بدر پھرا رہا ہے۔ تو نے مخدرات عصمت کی چادریں لوٹ لیں اور ان کی بے حرمتی کا مرتکب ہوا۔ تیرے حکم پر اشقیاء نے رسول زادیوں کو بے پردہ کر کے شہر بہ شہر پھرایا۔ تیرے حکم پر دشمنان خدا واہل بیت رسول ؐ کی پاک دامن مستورات کو ننگے سر لوگوں کے ہجوم میں لے آئے۔آج ان قیدی مستورات کے ساتھ ان کے مرد موجود نہیں ہیں، جو اِن کی سرپرستی کریں۔ آج آلِ محمد کا معین و مددگار کوئی نہیں ہے۔

اس کے بعد سیدہ زینبؓ نے آسمان کی طرف منہ کر بارگاہِ الٰہی میں عرض کی ! اے ہمارے پروردگار، تو ہمارا حق ان ظالموں سے ہمیں دلا دے اور تو ہمارے حق کا بدلہ ان سے لے۔ اے پروردگار ،تو ہی ان ستم گروں سے ہمارا انتقام لے اور اے اللہ تو ہی ان پر اپنا غضب نازل فرما ،جس نے ہمارے عزیزوں کو خون میں نہلایا اور ہمارے مددگاروں کو تہہ تیغ کر دیا۔‘‘

کائنات کی افضل ترین ہستی کی نواسی حضرت زینبؓ کے خطبات نے تاریخ کے دھارے کا رخ بدل ڈالااور ظلم وبربریت کی بنیادیں ہلنے لگیں ۔فتح سے مخمور حکمران شرمندگی اور شکست کا نمونہ بن گئے،حضرت زینبؓ کے خطبات نے نہ صرف ظالمانہ یزیدی حکومت کو بیخ وبن سے اکھاڑ کرپھینک دیا اور ظلم و جبر کے مقابل صبر و استقامت و جرأت کا استعارہ بن گئیں۔

حضرت زینب ؓکی شادی حضرت عبداللہ بن جعفر طیار ؓسے ہوئی۔ آپ کے دو فرزندان عون اور محمد کربلا میں حضرت امام حسین ؓکے ہمراہ شہید ہو گئے۔سیدہ زینب بنت علیؓ حضرت امام حسینؓ کی شہادت کے تقریباً ڈیڑھ سال بعد 15رجب المرجب کو دوسری مرتبہ سفر شام کے دوران درجہ شہادت پر فائز ہوئیں۔ آپ کا مزار مقدسہ شام کے دارالحکومت دمشق میں آج بھی مرجع خلائق ہے۔

تازہ ترین