مولانا نعمان نعیم
اسلام رواداری اورامن و سلامتی کا دین ہے۔اسلامی ریاست میں ریاست کے تمام باشندے بلا امتیازِ رنگ و نسل اورمذہب و ملت بنیادی حقوق کے حق دار ہیں، ان کی جان ومال ،عزت و آبرو کا تحفظ اسلامی ریاست کی بنیادی ذمے دار ی ہے۔ارشادِ باری تعالیٰ ہے: دین کے بارے میں کوئی زبردستی اور جبر نہیں ۔(سورۃ البقرہ) قرآن پاک نبی کریم ﷺ کو خطاب کرکے ہر مسلمان کو تنبیہ کرتا ہے:ترجمہ:’’ اگر اللہ چاہے تو زمین کے تمام رہنے والے مومن ہوجائیں تو کیا تم لوگوں کو مومن بنانے میں جبر و اکراہ کرنا چاہتے ہو‘‘۔اسلام نے محض حریت عقیدہ کا نظریہ ہی نہیں پیش کیا ،بلکہ عملی و قانونی طور پر اس کی حفاظت بھی کی ہے ،اس سلسلے میں کسی پر کوئی جبر نہ کیا جائے، جیسا کہ آیات قرآنی سے معلوم ہوتا ہے ۔ارشادِ ربّانی ہے:اپنے رب کے راستے کی طرف حکمت اور اچھے پیرائے میں نصیحت کے ساتھ بلائو اور ان سے بحث و مباحثہ اور اختلاف بھی اچھے طریقے سے کرو۔(سورۃ النحل )
مدینۂ منورہ میں ۸ھ تک اسلامی حکومت میں غیر مسلم جتنے تھے، وہ رعایا کی شکل میں نہ تھے، بلکہ قبائلی زندگی میں جس طرح تمام قبائل برابر کے حقوق کے حق دار ہوتے ہیں ،اس طرح میثاق مدینہ کی رو سے تمام قبائل یعنی اوس وخزرج وغیرہ اسلامی حکومت سے معاہدہ کرکے اس میں برابر کے شریک تھے۔ پیغمبر آخرالزماں ﷺ کو ایک ایسے سربراہ کی حیثیت حاصل ہوگئی تھی جو سیاسی تفوق سے زیادہ شخصی کردار کی بنیاد پر قابل احترام ہو اور اسے معاملات کے فیصلوں میں حَکم مان لیا گیا ہو۔
انسانی فطرت سے اس کی توقع کی جاسکتی تھی کہ مسلمان جب غالب ہوگئے تھے اور جزیرۃ العرب میں بسنے والے دیگر مذاہب کے پیرو کار جو ان کے رسولﷺ اور دین کو نہیں مان رہے تھے اور ہمیشہ سے ان سے برسرپیکار رہے تھے، ایسے میں مسلمان ان سے کم از کم بہت نرم برتائو بھی کرتے تو ان کو اپنا آبائی دین چھوڑ کر اسلام قبول کرنے کے لیے مجبور کرسکتے تھے ،اس لیے کہ وہ غالب تھے۔ یہاں پر بھی قرآن حکیم نے صاف صاف بتا دیا کہ مسلمان غالب ہوں یا مغلوب، ان کے لیے یہ جائز نہیں کہ وہ کسی دوسرے مذہب کے پیروکار کوجبراً مسلمان بنائیں ،ارشاد ہوا’’ دین میں کوئی جبر نہیں ہے‘‘۔ اسلامی حکومت کی رعایا مشرک رہنا چاہتی ہو تو رہے۔
عیسائی یا یہودی کوئی بھی مذہب اس کا ہو ،وہ رکھے، اسلامی حکومت یا اسلام یہ نہیں چاہتا کہ کوئی دوسرا مذہب اس کی حدود میں زندہ نہ رہے، بلکہ اگر کسی بھی حد تک اشتراک عمل ممکن ہو تو اسلام اس پر عمل کرنے کی دعوت دیتا ہے، مثلاً اہل کتاب اور اہل توحید میں جہاں تک اشتراک عقائد ہے یا اشتراک عمل کی راہیں نکل سکتی ہیں ،اسلام ان میں مل جل کر رہنے کا حکم دیتا ہے قرآن حکیم میں ہے:(ترجمہ) یعنی اے اہل کتاب، جو بات ہم دونوں میں متفق علیہ ہے آئو ،اس پر تو مل کر عمل کریں۔ یہ کہ اللہ کے سوا ہم کسی کی عبادت نہ کریں گے اور اس کے ساتھ کسی کو شریک نہ ٹھہرائیں گے اور ہم میں سے کچھ لوگ کچھ دوسرے لوگوں کو اللہ کے سوا پالن ہار نہ سمجھیں گے‘‘۔قرآن حکیم میں مذہبی عبادت گاہوں کے احترام میں ایک ایسا اشارہ بھی ملتا ہے جس سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ عبادت گاہیں خواہ مسلمانوں کی ہوں یا غیر مسلموں کی سب کی سب یکساں محترم ہیں۔
عہدِ رسالتؐ اور خلفائے راشدینؓ کے دور میں کوئی ایسی مثال نہیں ملے گی جس سے اسلام کی تبلیغ میں زور، جبر، زبردستی یا تشدد استعمال ہوا ہو، کیوں کہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے حکم ہے کہ دین کے بارے میں کسی قسم کا جبر نہیں،اس کی وضاحت اس طرح بھی کی گئی ہے:(ترجمہ)اگر تیرا پروردگار چاہتا کہ لوگوں کو مومن بنا دے تو زمین کے سب لوگ ایمان لاتے تو کیا اے پیغمبر ، آپ لوگوں پر زبردستی کریں گے کہ وہ ایمان لے آئیں‘‘۔(سورۂ یونس:۱۰)
ایک مسلمان کے لیے ضروری ہے کہ وہ رسول ﷺ کے صحیفۂ وحی یعنی قرآن مجید پر ایمان لائے ،لیکن اس کے لیے قرآن مجید میں بھی لازمی قرار دیا گیا ہے کہ وہ دوسری آسمانی کتابوں کی صداقت کو بھی تسلیم کرے، کوئی مسلمان اس وقت تک سچا مسلمان نہیں ہوسکتا ،جب تک کہ کلام پاک کے ساتھ اور دوسرے پیغمبروں کی کتابوں کو تسلیم نہ کرے، ’’سورۂ بقرہ‘‘ میں ہے کہ اے مسلمانو! تم کہو کہ ہم اللہ پر اور جو کچھ ہماری طرف اتارا گیا اس پر اور جو کچھ ابراہیمؑ، اسماعیلؑ، اسحاقؑ، یعقوبؑ کی طرف اتارا گیا اس پر اور جو کچھ موسیٰؑ اور عیسیٰؑ کو دیا گیا اس پر اور جو کچھ اور سب پیغمبروں کو ان کے پروردگار کی طرف سے دیا گیا ،ہم ان سب پر ایمان لائے‘‘۔
پھر سورۂ آل عمران میں یہی بات دہرائی گئی ہے، اس سے انکار کو کفر قرار دیا گیا‘‘۔سورۂ نساء میں ہے کہ اے وہ لوگو، جو ایمان لاچکے ہو ،ایمان لائو اللہ پر، اس کے رسولﷺ پر اور اس کتاب پر جو اس نے اپنے رسولﷺ پر اتاری اور اس کتاب پر جو پہلے اتاری اور جس نے اللہ کا اور اس کے فرشتوں کا اور اس کی کتاب کا انکار کیا،وہ نہایت گمراہ ہوا‘‘۔حقیقت میں اسلام کی وہ یہ تعلیمات ہیں، جن کا وجود کسی دوسرے مذہب میں نہیں تھا،یہ رواداری اور اخوت کی سب سے بڑی تعلیم ہے۔
اسلام ایک ایسا دین ہے جو کسی بھی مذہب کو بری نگاہ سے نہیں دیکھتا،بلکہ تمام آسمانی مذاہب کے پیروکاروں کو مکمل آزادی دیتا ہے کہ وہ اپنے مذہب پر قائم رہیں یہودیت اور عیسائیت کی طرح وہ اپنا دروازہ طالب ہدایت کے لیے بند نہیں کرتا ،بلکہ ہر وقت کھلا رکھتا ہے، مگر کسی بھی غیر مسلم کو جو مسلم حکومت کے زیر نگیں زندگی گزار رہا ہو، مجبور نہیں کرسکتا کہ وہ اسلام قبول کرلے قرآن کریم میں واضح حکم ہے:دین کے معاملے میں کوئی جبر نہیں۔سورۃ النحل میں ارشاد باری تعالیٰ ہے’’اپنے رب کے راستے کی طرف اچھی باتوں کے ذریعے بلائو اور بہت پسندیدہ طریقےسے بحث کرو‘‘۔
اسی کے ساتھ اس کی بھی تلقین ہے :مسلمانو! جو لوگ اللہ کے سوا دوسرے معبودوں کی عبادت کرتے ہیں ،انہیں برا نہ کہو، یہ لوگ نادانی سے اللہ کو برا کہنے لگیں گے۔ (سورۃ الانعام) نیز فرمایا گیا:’’جس نے اس کے رسولﷺ کی ہدایت کے مطابق سیدھی راہ اختیار کی، وہ تو اپنے ہی لیے اختیار کرتا ہے اور جو بھٹکا ،وہ بھٹک کر اپنا ہی راستہ کھوٹا کرتا ہے‘‘۔سورۂ بنی اسرائیل میں ارشاد رب العزت ہے:جو شخص سیدھی راہ پر چلتا ہے وہ اپنے نفع کے لیے راہ پر چلتا ہے اور جو شخص بے راہی اختیار کرتاہے سو وہ بھی اپنے نقصان کے لیے بے راہ ہوتا ہے‘‘۔ ان آیتوں سے واضح ہوا کہ اسلام کی تعلیم یہی ہے کہ روگردانی کرنے والوں سے کوئی تعرض نہ کیا جائے، ان پر کوئی زور، جبر اور زبردستی نہ کی جائے۔
اس میں کچھ تردد شک و شبہے کی گنجائش نہیں ہے کہ مسلمانوں نے اس حکم خداوندی کی پاس داری کی ہے، بلکہ ان احکام کے مطیع و فرماں بردار بن کر رہے اور ان کا پورا پورا حق ادا کیا۔ نبی کریم ﷺ اور خلفائے راشدینؓ نے مختلف اقوام سے جو معاہدے کیے اور ان کے ساتھ جو صلح نامے کئے ،ان میں اسلام کی وسعت نظری کا اندازہ اور دریادلی کا ثبوت ملتا ہے۔ یہی نہیں بلکہ غیر اقوام کے لوگوں نے بھی اس چیز کو تسلیم کیا ہے کہ اسلام کس طرح غیر مذاہب کے لوگوں کا ادب واحترام کرتا ہے، انہیں کس طرح سے مذہبی آزادی، معاشرتی و تجارتی آزادی کی چھوٹ دیتا ہے۔
اہل نجران کی درخواست پر نبی اکرم ﷺنے جو انہیں صلح نامہ لکھ کر دیا تھا،اس کے الفاظ یہ ہیں۔’’نجران کے عیسائیوں اور ان کے ہمسایوں کے لئے پناہ اللہ کی اور محمد ﷺ کا عہد ہے ،ان کی جان، مذہب ، زمین، اموال، حاضر وغائب، قاصدوںاور ان کے مذہبی نشانات، سب کے لئے جس حالت پر وہ اب تک ہیں ،اسی پر بحال رہیں گے۔ ان کے حقوق میں سے کوئی حق اور نشانات میں سے کوئی نشان نہ بدلا جائے گا۔ (فتوح البلدان ص ۷۳)
حضرت عمرفاروقؓ نے اہل بیت المقدس کو جو صلح نامہ لکھ کر دیا تھا اس کے الفاظ اس طرح ہیں:’’انہیں امان دی، ان کی جان ومال اور ان کے کنیسوں اور صلیبوں اور ان کے تندرستوں اور بیماروں کے لئے یہ امان ایلیا کی ساری ملت کے لیے ہے۔ عہد کیاجاتا ہے کہ ان کے کنیسوں کو مسلمانوں کا مسکن نہ بنایا جائے گا اور نہ ہی انہیں منہدم کیا جائے گا۔ نہ ان کے احاطوں اور ان کی عمارتوں میں کوئی کمی کی جائے گی۔ نہ ان کی صلیبوں اور ان کے اموال میں سے کسی چیز کو نقصان پہنچایا جائے گا ان پر دین کے معاملے میں کوئی جبر نہ کیا جائے گا اور نہ ان میں سے کسی کو ضرر پہنچایاجائے گا‘‘۔(تاریخ طبری فتح بیت المقدس، ج۴، ص۱۵۹)
اسلام نے غیرمسلموں کے ساتھ عزت واحترام کا معاملہ کیا اور ان کا کتنا پاس ولحاظ رکھا، اگر انہوں نے اسلامی ریاست میں رہنا قبول کرلیا اور ان سے عہد وپیمان ہوچکا تو اب ان کی حفاظت مسلمانوں کی ذمے داری قرار پائی۔کسی طرح کی ظلم وزیادتی کا ان کو شکار نہیں بنایا جاسکتا۔ اس کا اندازہ نبی کریمﷺ کے اس فرمان مبارک سے ہوتا ہے۔’’خبردار جس کسی نے معاہد (غیرمسلم) پر ظلم کیا یا اس کا حق غصب کیا یا اس کی استطاعت سے زیادہ اس سے کام لیا۔ اس کی رضا کے بغیر اس کی کوئی چیز لی تو بروز قیامت میں اس کی طرف سے مسلمانوں کے خلاف جھگڑوں گا۔ (قرطبی، الجامع لاحکام القرآن ج:۸، ص:۱۱۵)
دین ومذہب کے سلسلے میں مسلمانوں کے ساتھ دوسری اقوام نے کیا سلوک و برتاؤ کیا، کس طرح سے انہیں مذہبی جبر واکراہ کا شکار بنایا ،اس کی تفصیل تاریخ کی کتابوں میں آج تک محفوظ ہے۔ یہ ہے وہ واضح فرق اسلام اور دوسرے مذاہب میں ،اسلام جیسی رواداری ،وسعتِ قلبی دنیا آج تک پیش کرنے سے قاصر ہے۔
گزشتہ دنوں سیالکوٹ میں ایک واقعہ پیش آیا،جو سوشل میڈیا میں بہت زیادہ وائرل ہوا اور اس واقعے کو اس انداز میں پیش کیا گیا کہ کسی شخص نے توہین رسالت یا توہین مذہب کی ہے، لوگوں نے جذبات میں آکر اسے قتل کیا اور پھر اس کی لاش کو جلادیا۔یہ ہمارے پیش نظر رہنا چاہیے کہ اسلامی ریاست میں کوئی بھی فرد قانون سے برتر اور قانون سے بالا نہیں، ازروئے شریعت کسی فرد کو یہ حق حاصل نہیں کہ وہ قانون شکنی کا مرتکب ہو۔
اس واقعے نے بلاشبہ، اسلام جو روادار ی اور امن و سلامتی کا دین ہے۔اسے بدنام کرنے اور اسلام کا روشن چہرہ مسخ کرنے میں حددرجہ قابل مذمت کردار ادا کیا ہے۔ ہمیں یہ حقیقت فراموش نہیں کرنی چاہیے کہ اسلامی ریاست میں تمام غیرمسلموں کے بنیادی حقوق کا تحفظ ریاست اور اسلامی معاشرے کے ہر فرد کی ذمےداری ہے۔