• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

سیالکوٹ شہر تین دسمبر سے پہلے تک دنیا بھر میں عالمی معیار کا کھیلوں کا سامان، سرجیکل آلات اور چمڑے کی مصنوعات بنانے کے حوالے سے مشہور تھاتاہم تین دسمبر کو سیالکوٹ کی ایک فیکٹری کے منیجر، سری لنکن شہری پریانتھا کمارا کی مشتعل ہجوم کے ہاتھوں تشدد کے بعد موت اور پھر اس کی لاش کو نذرِ آتش کرنے کے واقعہ نے دنیا بھر میں پاکستان کی مثبت شناخت کو دھندلا دیا ہے۔ وزیراعظم عمران خان نے سانحہ سیالکوٹ کے ذمہ داروں کی کھل کر مذمت کی اور اس حوالے سے سری لنکن حکومت اور پریانتھا کمارا کے اہل خانہ کو بھرپور تعاون کی یقین دہانی بھی کروائی۔ پریانتھا کمارا کی یاد میں منعقدہ تعزیتی تقریب سے خطاب کرتے ہوئے وزیراعظم کا یہ کہنا کہ سیالکوٹ میں مذہب کے نام پر ظلم کرنے والوں کو نہیں چھوڑا جائے گا اور آج کا پاکستان یہ فیصلہ کر چکا ہے کہ سری لنکن شہری کے توہینِ مذہب کے مبینہ الزام میں قتل جیسا واقعہ دوبارہ نہیں ہونے دینا ، ایک اہم پیش رفت ہے۔ وزیراعظم کی طرف سے پریانتھا کمارا کو بچانے کی کوشش کرنے والے شہری ملک عدنان کو تمغہ شجاعت دینے کا اقدام بھی قابلِ تحسین ہے۔ اس سے لوگوں کو شدت پسندی کے خلاف کھڑا ہونے کا حوصلہ ملے گا۔

ہمیں اس اندوہناک واقعہ کے ممکنہ منفی معاشی اثرات پر بھی غور کرنے کی ضرورت ہے تاکہ مستقبل میں اس طرح کے کسی حادثات سے بچنے کی پیش بندی کی جا سکے۔ واضح رہے کہ سیالکوٹ پنجاب کا تیسرا بڑا صنعتی شہر ہے جس کی مشہور صنعتوں میں کھیلوں کا سامان، آلاتِ جراحی اور چمڑے کی مصنوعات بنانے کے کارخانے شامل ہیں۔ علاوہ ازیں سیالکوٹ میں کیمیکل بنانے، کوکنگ آئل اور ویجیٹیبل گھی، ٹائر اور ربڑ کی مصنوعات، ادویات، اسٹیل کے برتن، موسیقی کے آلات بنانے اور چاول چھڑنے کے کارخانے بھی بڑی تعداد میں قائم ہیں۔ سب سے بڑی صنعت البتہ کھیلوں کا سامان بنانے کی صنعت ہے جو کہ سو سال سے بھی زیادہ پرانی ہے۔ شروع میں یہاں کرکٹ، ہاکی اور پولو کا سامان بنایا جاتا تھا۔ 1918ء میں فٹ بال بھی یہاں تیار ہونے لگے جو اس وقت سنگاپور میں مقیم برطانوی فوج کو سپلائی کئے جاتے تھے۔ آج کھیلوں کی دنیا کی تمام مشہور کمپنیاں اس شہر سے سامان تیار کروا کے پوری دنیا میں برآمد کر رہی ہیں۔ عالمی سطح پر فٹ بال کی 60 سے 70 فی صد طلب سیالکوٹ سے پوری کی جاتی ہے اور یہ شہر پاکستان کی کل برآمدات میں نو فیصد حصہ رکھتا ہے۔

سیالکوٹ کی بزنس کمیونٹی کو یہ اعزاز بھی حاصل ہے کہ اس نے پاکستان کا ہی نہیں بلکہ دنیا میں نجی شعبے کے تحت بننے والا واحد انٹرنیشنل ایئر پورٹ قائم کیا ہے جہاں سے اندرون ملک کے علاوہ خلیجی ممالک کو بھی پروازیں چلائی جاتی ہیں۔ یہ ائیر پورٹ اس لحاظ سے نہایت اہم ہے کہ اس سے پہلے سیالکوٹ کے صنعتکاروں کو اپنی مصنوعات لاہور یا اسلام آباد ائیرپورٹ سے بیرون ملک بھجوانا پڑتی تھیں جبکہ دوسرے ممالک سے آنے والے خریداروں کو بھی دشواریوں کا سامنا کرنا پڑتا تھا۔ تاہم سیالکوٹ ایئر پورٹ بننے سے نہ صرف یہ مسائل حل ہو گئے ہیں بلکہ یہاں سے ہونے والی سالانہ ایکسپورٹ کا حجم بھی پانچ سو ملین سے بڑھ کر 2.5ارب ڈالر سے زائد ہو گیا ہے۔ علاوہ ازیں سیالکوٹ کے صنعتکاروں نے ائیر سیال کے نام سے اپنی ائیر لائن بھی بنائی ہوئی ہے جس پر چار ارب روپے سے زائد خرچ ہو چکے ہیں۔ یہ حقائق اس بات کے مظہر ہیں کہ سیالکوٹ کی بزنس کمیونٹی بحیثیت مجموعی انتہائی ترقی پسند ذہنیت کی حامل ہے۔

چند سال قبل سری لنکا، بنگلہ دیش اور کوریا کی اسپورٹس انڈسٹری نے روایتی طریقہ کار کو چھوڑ کر مصنوعات کی تیاری میں جدت اور سائنسی بنیادوں پر ٹیکنالوجی کا استعمال شروع کیا تو سیالکوٹ کی بزنس کمیونٹی میں بھی یہ سوچ پیدا ہوئی کہ پروڈکشن کا معیار اور مقدار بڑھانے کے لئے جدید طریقوں کا استعمال کر کے دنیا کا مقابلہ کیا جائے۔ اس کے لئے کھیلوں کا سامان تیار کرنے والی بہت سی کمپنیوں نے سری لنکا، بنگلہ دیش، کوریا اور جاپان کے ماہرین کی خدمات حاصل کیں۔ علاوہ ازیں سیالکوٹ میں تیار ہونے والے کھیلوں کے سامان، سرجیکل آلات اور چمڑے کی مصنوعات کے زیادہ تر گاہک امریکہ اور یورپ سے تعلق رکھتے ہیں، اس لئے ان ممالک سے آئے روز کسی نہ کسی ملٹی نیشنل کمپنی کے ایگزیکٹوز یا نمائندوں کا سیالکوٹ آنا جانا لگا رہتا ہے۔ ان ملٹی نیشنل کمپنیوں کی وجہ سے سیالکوٹ کے صنعتی یونٹس میں لیبر قوانین کا بھی خیال رکھا جاتا ہے۔ اس سلسلے میں انٹرنیشنل برانڈز اپنے آڈیٹرز کے ذریعے سیالکوٹ کی کمپنیوں کا آڈٹ بھی کرواتے ہیں۔ اس لیے فیکٹریوں میں صفائی اور کام کے معیار کو برقرار رکھنا انتہائی ضروری ہوتا ہے۔ ایسے میں سیالکوٹ سمیت ملک بھر کی بزنس کمیونٹی کو اپنی لیبر کو اس حوالے سے آگاہی دینے اور بار بار اس کا اعادہ کرنے کی ضرورت ہے کہ کوئی ورکر کم علمی یا محدود سوچ کی وجہ سے کسی اقدام کو مذہب کی توہین سے نہ جوڑ سکے۔ علاوہ ازیں اس طرف بھی توجہ دینے کی ضرورت ہے کہ ماحولیاتی تبدیلیاں و دیگر عوامل کس طرح افراد کی ذہنی صحت پر اثر انداز ہو رہے ہیں۔ اس کے لیے ماہرین نفسیات کی خدمات حاصل کی جا سکتی ہیں تاکہ طویل مدتی پالیسی تشکیل دی جا سکے۔ اس سلسلے میں نئی قانون سازی کے علاوہ صنعتی علاقوں میں سیکورٹی بڑھانے کے ساتھ ساتھ پولیس کے رسپانس ٹائم کو بہتر بنانا بھی ضروری ہے۔

اب حکومت بالخصوص لیبر ڈیپارٹمنٹ اور بزنس کمیونٹی کو اس بات پر توجہ دینا ہو گی کہ صنعتی یونٹس میں کام کرنے والی لیبر کو شدت پسندی کا شکار ہونے سے بچانے کے لیے آگاہی فراہم کرنے اور لیکچرز کا سلسلہ شروع کیا جائے۔ اگر اس سلسلے میں مزید تاخیر کی گئی اور خدانخواستہ اس طرح کا کوئی اور واقعہ پیش آ گیا تو اس کے اثرات سے باہر نکلنے میں ایک طویل عرصہ لگ جائے گا۔ ہمیں سری لنکا کی حکومت اور شہریوں کا بھی شکر گزار ہونا چاہیے کہ وہ اس سانحے پر پاکستان کے خلاف کسی قسم کی مخالفانہ یا معاندانہ مہم کا حصہ نہیں بنے اور انہوں نے دونوں ممالک کے طویل دوستانہ تعلقات کو قائم رکھنے میں اہم کردار ادا کیا۔

(کالم نگار کے نام کیساتھ ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائےدیں00923004647998)

تازہ ترین