پاکستان کے پسماندہ سماجی، سیاسی، معاشی، سیاسی کلچر میں ایسے لوگوں کی صدائیں عام ہیں جو اندھے، بہرے، گونگے بن کر گردو پیش کے حالات سے بے خبر، معاشرے کے زوال میں مگن ہیں، غربت میں ہمارا ملک دنیا کے ملکوں میں 147ویں نمبرپر ہے، بدعنوانی میں 116فی کس آمدنی میں 133 تعلیم اور صحت میں انتہائی نچلے درجےمیں شمار ہوتا ہے، پاکستان کا بجٹ 4500ارب روپے ہے، آمدنی 3100ارب روپے ہے، 1500ارب روپے قرضوں یا غریبوں پر ٹیکس لگا کر حاصل کئے جاتے ہیں، 85ارب ڈالر بیرونی قرضہ، 6000ارب روپے اندرونی قرضہ آئندہ کئی نسلوں سے بھی ادا نہیں ہوسکے گا، برآمدات 20؍ارب ڈالر اور درآمدات 42ارب ڈالر ہیں، اس سال جولائی اور ستمبر کے درمیان 30ارب ڈالر کے قرضے ری شیڈول کرانا ہوں گے۔ جبکہ قائدین کو سنیں اور دیکھیں تو ہنسی آتی ہے۔
یہ قائدین جھوٹے وعدوں اور اعداد وشمار کے ماہر ہیں، عوام کو بہلانےمیں انہیں کمال حاصل ہے، ایک طرف مراعات یافتہ طبقہ ہے جو انتہائی خوش اور مطمئن ہے جس میں سرکاری افسران، سیاست دان اورسرمایہ دار شامل ہیں جو قلیل تعداد میں ہونے کے باوجود ملکی معیشت پر راج کرتے ہیں جبکہ 50فیصد عوام غربت کی انتہائی نچلی سطح پر زندگی گزارنے پر مجبور ہیں، امیر اورغریب کا فاصلہ روز بہ روز بڑھتا جا رہا ہے جبکہ حکمرانوں کے پاس سوائے کھوکھلے نعروں، وعدوں اور عوام پر ٹیکسوں کا بوجھ لادنے کے کوئی اہلیت نہیں ہے۔ مبلغ،مقرر، مفکر، قلم کار اور کالم نویسوں کے بار بار توجہ دلانے کے باوجود حکومت کوئی توجہ نہیں دے رہی اس لئے بھوک، افلاس، بے روزگاری، چوری، دہشت گردی، رشوت ستانی، اسمگلنگ، ہیروئن کی فروخت دن دگنی، رات چوگنی ترقی کر رہی ہے، جبکہ سڑکوں پر چمچماتی گاڑیوں کی ریل پیل، فلک بوس عمارتوں کی بڑھتی ہوئی قطاریں، مہنگائی کا سیلاب، بدانتظامی ، نااہلی اور بدانتظامی حکومت کی خراب کار کردگی کا ثبوت ہیں ۔ ہماری حکومتیں روزاول سے ہی دنیا کے متعدد ممالک سے قرض لیتی رہی ہیں جن میں سرفہرست امریکہ، برطانیہ، جاپان، جرمنی، ایشین ڈویلپمنٹ بینک، آئی ایم ایف اور ورلڈ بینک شامل ہیں۔ گزشتہ 70سال میں حکومت پاکستان نے اربوں ڈالر کے قرضے اور بیرونی امداد لی مگر ملک کی حالت بہتر نہ ہوسکی۔
70 سال ہونے کے باوجود ملک میں بہتری کے کوئی آثار نظر نہیں آتے۔حکومت کی نااہلی اور ناکامی کا بیرومیٹر صرف امریکی ڈالر کی قیمت ہے جو آج 106روپے فی ڈالر ہے، عالمی منڈی میں پاکستانی روپیہ 20فیصد ڈی ویلیویشن کی جانب بڑھ رہا ہے، ملک کی درآمدات 45؍ارب ڈالر اور برآمدات 120؍ارب ڈالر ہے، پاکستان کی شرح نمو 3.5فیصد ہے جبکہ آبادی میں اضافے کا تناسب2.2فیصد۔ بڑھتی ہوئی آبادی ملک کی تمام آمدنی کو دیمک کی طرح چاٹ لیتی ہے، جس طرح ہر شخص کی اپنی ایک تقدیر ہوتی ہے، اسی طرح پاکستان کی بھی ایسی تقدیر لکھ دی گئی ہے کہ اسے ایسے حکمراں میسر آئیں جو ملک چلانے کی اہلیت نہیں رکھتے، پرانے، ناکام فرسودہ نظام کو انتہائی انقلابی اقدامات کے ذریعے بدلنے کے لئے ایک عاقل، دلیر اور ایماندار لیڈر درکار ہے۔ سرکاری اہم ترین فیصلے چند افراد کرتے ہیں، موجودہ حکومت، سابقہ حکومت اور اس سے پچھلی حکومتوں میں کوئی بھی ایسا جہاں دیدہ اور قابل شخص دیکھنے میں نہیں آیا۔ ایسی صورتحال میں پاکستان کے عوام، مزدور، کسان اور طلباء اپنی اپنی سطح پر شب وروز محنت سے کام کرکے اپنے خاندان کی ضروریات پوری کرتے ہیں۔ مثال کے طور پرہمارے ہاں ارجنٹ پاسپورٹ یا شناختی کارڈ بننے میں ایک ہفتہ لگتا ہے جبکہ ترقی یافتہ ممالک امریکہ، برطانیہ، فرانس میں ارجنٹ پاسپورٹ چند گھنٹوں میں مل جاتا ہے، سرکاری دفاتر اور عدالتوں میں برسہا برس تک لاکھوں مقدمات چلتے رہتے ہیں اور عوام کی دادرسی نہیں ہوتی، اس تمام صورتحال سے نبردآزما ہونے کیلئے دنیا میں مروجہ کامیابی کے طور طریقے اپنائے بغیر حکمرانوں کے وعدے ایف نہیں ہوسکتے۔ پاکستانی افواج شمالی وزیرستان اور جنوبی وزیرستان اور کراچی میں دہشت گردی پر قابو پانے میں کسی حد تک کامیاب ہیں مگر دہشت گردی کا قلع قمع کرنے کیلئے خصوصی انقلابی اقدامات کی ضرورت ہے، ایک وسیع وطویل منصوبہ بندی ہی ملک کے حالات کو بہتر کرسکتی ہے، ترقی یافتہ اور پرامن ممالک کی تقلید کرتے ہوئے حالات کو بہتر بنایا جاسکتا ہے، انقلابی اقدامات میں بیرون قرضوں پر انحصار کم سے کم کرنا، برآمدات کو فروغ دینا، درآمدات کم سے کم کرنا، سزا اور جزا کے عمل کو تیز کرنا، انصاف کی فراہمی، سماجی انصاف قائم کئے بغیر حالات بہتر نہیں ہوسکتے، سب سے اہم بات یہ ہے کہ ہر بالغ مردوعورت کو سولہ اور چالیس سال کی عمر کے درمیان ملٹری ٹریننگ دینی چاہئے۔برطانیہ، امریکہ اور کئی عالمی طاقتوں میں ملٹری ٹریننگ لازمی رہی ہے، گزشتہ 70سال میں پاکستان کے زوال کی جو رفتار رہی ہے، اگر پاکستان کے قائدین اور افسران کی کارکردگی دیکھنا چاہتے ہیں تو اطراف پر نظر ڈالیں، ہر طرف بے آب و گیا بستیاں، پانی اور بجلی کا بحران، کوڑے کے ڈھیر، ٹوٹی ہوئی سڑکیں اور دفاتر کی نااہلی اور بدحالی اظہر من الشمس ہے، قومی گراوٹ اور زوال کو روکے بغیر مجھے ڈر ہے کہ آئندہ سالوں میں، ہماری داستان تک بھی نہ ہوگی، داستانوں میں۔