ادب، اپنے ماحول اور معاشرے سے اس حد تک مربوط ہے کہ جو تغیّرات، تبدیلیاں معاشرے میں رُونما ہوتی ہیں، اُن کا اثر براہِ راست یا بالواسطہ ادب پر بھی ضرور پڑتا ہے۔ یہ اثرات مقامی بھی ہوسکتے ہیں اور عالمی بھی۔ خصوصاً، اکیس ویں صدی کے اس عشرے سے بخوبی اندازہ ہوتا ہے کہ مختلف حالات و واقعات نے ادیبوں کو خاصا متاثر کیا ہے۔ ا یک طرف امن کی خاطر، جنگ کا نعرہ لگایا جاتا ہے، تو دوسری طرف کشمیر، فلسطین، شام اور یمن کی مثالیں بھی ادیبوں کے سامنے ہیں۔
پھر مقامی طور پر دہشت گردی، شدّت پسندی، عدم برداشت، بے روزگاری، مفلسی، جہالت، ناانصافی اور انسانیت سوز مظالم بھی ادیبوں کو ہر سطح پر متاثر کررہے ہیں۔ نیز، عالمی وبا کووِڈ-19نے تو ہر شعبۂ زندگی کو اس حد تک متاثر کیا کہ بعض مدبّروں کے مطابق ،ہمارا معاشرہ معاشی، اخلاقی اور سیاسی طور پر کوئی پچاس برس پیچھے چلا گیا ہے، جس کا اثر یقیناً شعبۂ ادب پر بھی پڑا ہے۔ اور مختلف نظمیں، غزلیں، افسانے اور ڈرامے ان اثرات کا نمایاں مظہر ہیں، تاہم، 2021ء میں بھی شاعر، ادیب اپنا مثبت کردار ادا کرنے میں کوشاں رہے، تاکہ معاشرے میں تمام تر مسائل و مصائب کا شعور پیدا کیا جائے۔
اس ضمن میں مُلک بَھر میں آن لائن اور فزیکل پروگرامز کے انعقاد کا سلسلہ زور و شور سے جاری رہا، جن میں بلاتفریق چھوٹے، بڑے تمام شہروں نے حصّہ لیا، یہاں تک کہ متعدّد اداروں، تنظیموں کے ساتھ مختلف جامعات نے بھی بڑھ چڑھ کر ادبی و علمی پروگرام منعقد کیے۔ ہاں، البتہ سرِ فہرست آرٹس کاؤنسل کراچی ہی رہا کہ جس نے 14ویں عالمی اُردو کانفرنس کے انعقاد کے ساتھ اپنے ہی پچھلے تمام ریکارڈ توڑڈالے۔ بلاشبہ، کووِڈ کے نامساعد حالات میں یہ کانفرنس کسی کارنامے سے کم نہ تھی۔ کانفرنس آن اسٹیج اور آن لائیو(On Stage And On Live) بہ یک وقت منعقد ہوئی ، جس میں پاکستان بَھر سے نابغہ ٔ روز گار شخصیات کے ساتھ دُنیا بَھر کی صف اوّل کی نمائندہ شخصیات نے فزیکلی اور آن لائن شرکت کی۔
بیرون مُلک سے شریک مندوبین میں بھارت کے گوپی چند نارنگ، گلزار ،جاوید صدیقی، ابو سفیان اصلاحی، انیس اشفاق، خالد جاوید، منظر بھوپالی، خوشبیر سنگھ شاد اور رنجیت سنگھ چوہان، امریکا کے سرمد صہبائی، عشرت آفریں، سیّد سعید نقوی اور تسنیم عابدی، کینیڈا کے تقی عابدی، اشفاق حسین اور شاہدہ حسن، برطانیہ کے غزل انصاری اور عامر امیر، مسقط کی طاہرہ کاظمی اور ابوظبی کی ثروت زہرا وغیرہ شامل تھے۔اس کانفرنس کے علاوہ بھی آرٹس کاؤنسل، کراچی میں سال بَھر ادبی تقریبات اور گفتگو کے مختلف پروگرامز منعقد کیے جاتے رہے، جنہیں لائیو پیش کر کے دُنیا بَھر کے شائقینِ ادب کو ان میں شرکت کا احساس دلایا گیا۔
سیرت کانفرنس، کُل پاکستان نعتیہ مشاعرے اور عالمی خواتین مشاعرہ کا بھی انعقاد ہوا۔ پھر اکادمی ادبیات، پاکستان، اسلام آباد نے سالِ رفتہ کو پاکستان کی آزادی کے75ویں سال کی مناسبت سے منانے کا بَھرپور اہتمام کرتے ہوئے وقتاً فوقتاً مختلف مذاکرے، مشاعرے، سیشنز اور سیمینارز وغیرہ منعقد کیے۔ان تمام پروگرامز میں پاکستان کی ہر زبان اور ہر صوبے کو نمائندگی دی گئی، جب کہ دُنیا بَھر سے اہم شخصیات نے بھی شرکت کی، البتہ کورونا وائرس کے باعث ان پروگرامزکا انعقاد آن لائن بھی ہوا۔
اکادمی ادبیات، اسلام آباد میں وزیرِاعظم پاکستان، عمران خان نے ’’ایوانِ اعزاز‘‘ کا افتتاح کیا، جس میں پاکستان بَھر کی نمائندہ ادبی شخصیات مدعو تھیں۔ مختلف ادبی تنظیموں کے پروگرامز کے علاوہ کراچی لٹریچر فیسٹیول، اسلام آباد لٹریچر فیسٹیول، لاہور لٹریچر فیسٹیول، فیصل آباد لٹریری فیسٹیول اور ملتان لٹریری فیسٹیول ہوا کے خوش گوار جھونکے ثابت ہوئے، توحلقۂ اربابِ ذوق (ہفتہ وار اجلاس)، انجمنِ ترقّیٔ اُردو پاکستان (دو روزہ مولوی عبدالحق کانفرنس)، انجمن ترقّی پسند مصنّفین (خصوصی سیمینار)، ادارۂ فروغِ قومی زبان (ایک روزہ قومی کانفرنس) اور تہذیب فیسٹیول جیسے کئی اہم اداروں نے بھی ادبی سرگرمیاں آن لائن اور فزیکل جاری رکھیں، جب کہ جامعہ کراچی، بہاء الدین زکریا یونی ورسٹی، ملتان، لمز، پنجاب یونی ورسٹی، وفاقی اُردو یونی ورسٹی، کراچی، حبیب یونی ورسٹی کراچی، اقرا یونی ورسٹی، کراچی، قراقرم انٹرنیشنل یونی ورسٹی، پشاور یونی ورسٹی اور جامعۂ اسلامیہ، بہاول پور وغیرہ نے بھی کانفرنسز، مشاعرے اور ادبی پروگرامز کا اہتمام کیا۔
اتنی بڑی تعداد میں تعلیمی اداروں میں ادبی سرگرمیوں کا انعقاد 2021ء کی سب سے خوش آئند بات تھی کہ کسی بھی معاشرے کو ادب دوست معاشرے میں ڈھالنے کے لیے سب سے مثبت اقدام یہی ہے کہ اُس معاشرے کی نوجوان نسل میں علم و ادب سے لگائو پیدا کیا جائے اور نوجوان عرفانِ ذات اور عرفانِ حیات حاصل کریں۔ پھر تعلیمی اداروں کی بحال ہوتی رونقوں نے بھی یہ اُمید بڑھا ئی کہ مُلک میں بڑھتی شدّت پسندی، عدم برداشت اور انسانیت سوز رویّوں کے خلاف ردِّعمل کے طور پر نوجوان نسل مثبت سرگرمیوں کی طرف آرہی ہے۔
ایک طرف ان پروگرامز کے منتظمین میں نوجوان شامل تھے، تو ساتھ ہی نئی نسل خود بھی شعر و ادب کی تخلیق میں سرگرمِ عمل رہی۔ گویا یہ سال اُردو ادب میں ایک اور نسل کی آمد کا پیام بَر بھی تھا۔ اس کے علاوہ فیض ادبی میلہ، 16واں کراچی انٹرنیشنل بُک فیئر، پشاور کتب میلہ، لائبریری بُک کلب اور کتاب میلہ، جہلم جیسی کاوشوں سے کتاب کے فروغ کی بھی کوششیں کی گئیں۔ بلدیہ عظمیٰ نے فریئر ہال میں بلامعاوضہ ’’دیوارِ علم‘‘ قائم کی،جب کہ جعفر طیار لائبریری کی نئی عمارت کا افتتاح اور مشفق خواجہ لائبریری کی ڈیجیٹلائزیشن بھی ہوئی۔ یعنی علم و ادب کو جدید تقاضوں سے ہم کنار کرنے کی کوششیں بھی جاری رہیں۔
دوسری طرف کتب، ادبی جرائد، اخبارات کے ادبی صفحات اور خصوصی ایڈیشنز کی اشاعت کے سلسلوں نے یہ ثابت کردیا کہ موضوعات خواہ کتنے ہی کُھردرے اور تکلیف دہ کیوں نہ ہوں، مگر ادب کی اصل پہچان یہی ہے کہ اُنہیں جمالیاتی اقدار کے پیرائے میں بیان کیا جائے۔ سو،اس حوالے سے ادب کی مختلف اصناف میں اہم کتابیں شایع ہوئیں۔ بعض کتابوں کے نئے ایڈیشنز سامنے آئے، تو کچھ کتابیں جو دیگر مُمالک سے شایع ہوئی تھیں، اُنھیں پاکستان سے شایع کیا گیا۔
سالِ رفتہ بھی حمد و نعت کے جو مجموعے شایع ہوئے، ان میں کلیاتِ محسن کاکوروی ( مرتب: ریاض ندیم نیازی)، سرِشاخِ یقیں( غلام محمّد قاصر)، احرامِ ثنا(مقصود علی شاہ)، آپ اسرارِازل (منظر عارفی)، سلطانِ جہاں اور(منظر عارفی)، پیشِ خدا ہوں حمد کا دیواں لیے ہوئے(طاہر سلطانی)، مدحت کدہ(الیاس بابر اعوان)، نعت نما(خالد علیم)، مِری جستجو مدینہ(رانا خالد محمود قیصر)، توشۂ نور(حافظ احمد قادری)رحمان و رحیم (گل بخشالوی)، مدحِ محمود (افتخار الحق ارقم)، آفرینش (شاہ روم خان ولی) اور ثنا نژاد (جنید نعیم سیٹھی) کے نام شامل ہیں۔
ان کے علاوہ نعت کے موضوع پر ارمغان نعت(اشاریہ سہیل شفیق) اور تالیفاتِ صبیح رحمانی(طاہرہ انعام) بھی شایع ہوئیں۔ کئی شعری مجموعے اور کلیات بھی شایع ہوئے، جن میں نظموں اور غزلیات دونوں کے مجموعے شامل ہیں۔ چوں کہ ان تمام ترکتابوں کی فہرست سازی ممکن نہیں،تو چند اہم قابلِ ذکر کتب کے نام پیشِ خدمت ہیں۔ انتخاب غزلیاتِ میرؔ(تدوین، مقدمہ، فرہنگ: محمّد حمید شاہد)، کلیاتِ استاد قمر جلالوی(شاعر علی شاعر)، کلیاتِ فراق گورکھ پوری (سیّد تقی عابدی)، کلیاتِ عرفان صدیقی (ترتیبِ نو:عقیل عباس جعفری)، کلیاتِ حبیب جالب (امر شاہد)گلِ معانی(اکبر معصوم- مرتب: انعام ندیم، کاشف حسین غائر)، آؤ لمحے جھیلیں( گلزار)، کلیاتِ انور مسعود (قطعات)، رنگِ جیدی(اطہر شاہ خان جیدی)،کلیاتِ نجیب احمد (ترتیب و تدوین: نوید صادق)، خاک زار (کلیاتِ قمر رضا شہزاد)، دیوانِ ظفر محی الدین (انجینئر ظفر محی الدین)، باغِ گُلِ سُرخ (افتخار عارف)، روبرو مرزا غالب (ستیہ پال آنند)، مائی چھبیلاں اور دوسری نظم کہانیاں(ستیہ پال آنند)، کھیتوں کی ریکھاؤں میں(صابر ظفر)، کٹی پوروں سے بہتی نظمیں(سلیم شہزاد)، گلِ سیمیا(غلام حسین ساجد)، نیلگوں کائی(پروین طاہر)، سانس کی گرہ کُھلتے ہی(نجمہ منصور)، چراغوں سے بَھری گلیاں(جواز جعفری)، زر داغ(ولی عالم شاہین)، رنگ خوشبو مِرا حوالہ ہے(یوسف خالد)، دُنیا مِری ہتھیلی پر(ظہور چوہان)، یرغمالِ خاک(طاہر حنفی)، آگہی کا اِک لمحہ(سعدیہ حریم)، ظرافت تمام شد( سعدیہ حریم)، دِل جیسی ہے دُنیا بھی( محسن اسرار)، آتش دان میں خواب(سحر تاب رومانی)، نروان گھڑی کا سپنا (ثاقب ندیم)، بوڑھے برگد کی آخری گفتگو ( سیّد رضی محمّد)، سحرِ ناتمام(رانا خالد محمود)، رفتار( شعیب افضال)، گلدان میں آنکھیں ( رفیق سندیلوی- مرتب: دلاور علی آزر)، غزل میرا عشق(قادر بخش سومرو)، آتشِ بیگانگی (صابر ظفر)، بربساطِ غالب (رفیع الدین راز)،خواب آتے ہوئے سُنائی دیئے (سلیم کوثر)، قلبیہ (جلیل عالی) صُبح ہونے دو (اکرام الحق سرشار)، نیلی شال میں لپٹی دھند (علی محمّد فرشی)، حیراں سَرِبازار (حارث خلیق)، یادِ عہدِ خوں چکاں (شفیق احمد شفیق)، خوف کے آس پاس (ترتیب و تہذیب: ڈاکٹر ارشد محمود ناشاد، کورونا وبا سے متعلق شاعری)، تعلق (عقیل عباس جعفری)، کاغذ پہ مہ و سال (اقبال پیرزادہ)، کسی اور سے محبّت (رخشندہ نوید)، حاشیے پہ لکھی نظمیں (سلمان حیدر)، انعم (سرمد سروش)، عکسِ آب (محبوب کاشمیری)، سمے کی ندی (محمود راشد)، گردشِ خاک (منان لطیف)، رنگ ہائے وفا، غزل سے لب ہیں تِرے (دونوں کتب غلام علی وفا کی ہیں)،کارگاہ (فیصل ہاشمی) پلکیں بھیگنے لگتی ہیں (خالق آرزو)، آسماں آنکھ اُٹھانے سے کُھلا (کاشف حسین غائر)، سورج مُکھی کا پھول (دلاور علی آذر)، امکان (شوکت کمال)، زنبیل (شوکت کمال)، شہر میں گائوں کے پرندے(اسحاق وردگ)، طلوعِ زار (جان کاشمیری)، تخلیہ (فقیہہ حیدر)، تراشیدم (طاہرہ انعام)، آوازہ (راشد علی مرکھیانی)، گریز (شہباز خواجہ)، انعم (سرمد سروش)، اتصال (اکرم جاذب) اور ولی سے ولی تک (شاہ روم خان ولی)۔
اُردو ادب میں نثری ادب کی اہمیت، شعری ادب سے کسی طور کم نہیں، لہٰذا بڑی تعداد میں نثری ادب کی کتابیں بھی شایع ہوئیں۔افسانوں اور ناولز کے ضمن میں دشتِ امکاں (اصغر ندیم سیّد)، حیرت کا باغ (محمّد حمید شاہد)، اندر کا آدمی(محمّد حمید شاہد کے افسانوں کا انتخاب:مرتب عرفان جاوید)، می سوزم (رابعہ خصداری کا سوانحی ناول، حمیرا اشفاق)، مُٹھی بَھر کہانیاں (جاوید صدیقی)، شہرِ بے مہر (حسن جاوید)، کرول گھاٹی (غافر شہزاد)،کتنی برساتوں کے بعد (شہناز پروین)، باسی ٹکڑے والا اور دوسری کہانیاں (اعجاز روشن)، بونسائی پلانٹ (تسلیم منیر علوی)،کلّو (ثمینہ نذیر)، آخری لفظ (فارس مغل)، اعتراف (صباحت مشتاق)، لال رضائی (جام فدا حسین)، اُلجھے دھاگے (تبسم ریحان)، مناط (مطربہ شیخ)، نیشِ عشق (اظہار ہاشمی)، جھوک سیال (سید شبیر حسین)، منتارا(محمّد حفیظ خان) اور اختر سعیدی کے’’جنگ‘‘ میں شایع ہونے والے ادبی شخصیات کے انٹرویوز پر مشتمل کتاب دُنیائے سخن کے تابندہ ستارے وغیرہ قابلِ ذکر ہیں۔
ترجمہ ابتدا ہی سے انسانی روابط میں اہم کردار ادا کرتا رہا ہے اور بلاشبہ ترجمہ،وسعتِ علم کے ساتھ انسانی تعلقات بھی مضبوط بناتا ہے۔ نیز، تقابلی مطالعے کے معیارات بھی بڑھاتا ہے،سو مختلف زبانوں کے ادب کے تراجم ایک وسیع تر عالمی و کائناتی تصوّر قائم کرنے میں بہت اہم ثابت ہوئے ہیں اور آج ہم جس گلوبل ویلیج میں سانس لے رہے ہیں، وہاں ایک دوسرے کو جاننے میں سب سے معاون تراجم ہی ثابت ہوتے ہیں، جو ہر زبان کا ادب ایک دوسرے کے لیے قابل فہم بنا رہے ہیں۔
یہی سبب ہے کہ دُنیا بَھر میں ہر سال تراجم بھی اچھی خاصی تعداد میں شایع ہوتے ہیں۔ پاکستان میں2021ء میں بھی کئی اہم تراجم منظرِعام پر آئے، جن میں تراجمِ فاروقی (شمس الرحمٰن فاروقی)، گینجنی (متّرجم: باقر نقوی، تدوین، تحقیق اور حواشی: خرم سہیل۔ یہ جاپانی ناول کا ترجمہ ہے)،مستنصر حسین تارڑ کے ناول’’بہاؤ‘‘ کا انگریزی ترجمہ سفیر اعوان نے کیا، یادِ مفارقت (یہ عبدالرّزاق گُرناہ کا مشرقی افریقا کا ناول ہے، جس کے متّرجم سیّد سعید نقوی ہیں)، خالی کُرسیاں (یوجین آئنسکو Eugene Ionescoکے ڈرامے ’’دِی چیئرز‘‘ کا ترجمہ صفدر رشید نے کیا ہے)، آئینہ سی زندگی (رومی ناول،’’ربی سنکربل‘‘ کے انگریزی ترجمے کو انعام ندیم نے اُردو زبان میں ڈھالا)، آزادی (ارون دھتی رائے کی کتاب کا ترجمہ سیّد کاشف رضا نے کیا ہے)، فن لینڈ کی کہانیاں(راشد فاروق)، باالفاظِ دیگر(مونا بیکر/لبنیٰ فرح)، حدیث سرو و نیلوفر(احمد شہریار) اور سب رنگ کہانیاں (تالیف و تشکیل:حسن رضا گوندل) شامل ہیں۔تخلیقی ادب کے ساتھ ہی تنقیدی و تحقیقی کتب کا وجود میں آنا لازمی امر ہے، لہٰذا سالِ گزشتہ تنقید کے میدان میں بھی اہم کام ہیں اور کئی کتابیں منظرِعام پر آئیں۔
ان میں پاکستانی ادب اور وارداتِ عشق و جنون(فتح محمّد ملک)، فیض کی محبّت میں(اشفاق حسین)، غلام عباس کے پندرہ افسانے(ذوالفقار احسن)، مشفق خواجہ:احوال و آثار (محمود کاوش)، مغربی استعمار اور مولانا ظفر علی خان کی شاعری(ڈاکٹر سبحان اللہ)، اُردو نثر میں مزاح نگاری کا سیاسی اور سماجی پس منظر(رؤف پاریکھ)، شعری دانش کی دُھن میں (جلیل عالی) بھی شایع ہوئی۔ تنقید کی جس کتاب پر سب سے زیادہ بات ہوئی، وہ ناصر عباس نیّر کی ’’جدیدیت اور نوآبادیت‘‘ قرار پائی۔ دیگر اہم کتابوں میں، منٹو آج بھی زندہ ہے (محمّد حمید شاہد)، جدید اور مابعد جدید تنقید (ناصر عباس نیّر)، اُردو شاعرات اور نسائی شعور:سو برس کا سفر (فاطمہ حسن)، مابعد جدیدیت سے نئے عہد کی تخلیقیت تک (نظام صدیقی)، پسِ جدیدیت: لہجے اور اسلوب (اکرم کنجاہی)، جدید لسانیاتی اور اسلوبیاتی تصوّرات (عامر سہیل، یہ کتاب قراۃ العین حیدر کی ناول نگاری پر صوتی، صرفی، نحوی اور معنیاتی اطلاق سے متعلق ہے)، حدودِ وقت سے آگے (مؤلف:عامر شریف)، شعریاتِ خیبر (طارق ہاشمی)، نئے عہد کی تخلیقیت کا تیسرا انقلاب (نظام صدیقی)، لاشعور سے شعور تک:شاعری، محاسنِ فکر و فن اور نسائی ادب اور تانیثیت ( یہ تینوں کتب اکرم کنجاہی کی ہیں) قابلِ ذکر رہیں۔
ان کے علاوہ دیگر موضوعات مثلاً لسانیاتی مباحث، مضامین اور سوانح وغیرہ پر بھی کئی کتب شایع ہوئیں، جن میں لسانیات کے بنیادی مباحث (رئوف پاریکھ)، غبارِخاطر (مولانا ابوالکلام آزاد کے خطوط جو مالک رام نے مرتّب کیے ہیں)، وہ جو چاند تھا سَرِ آسماں:بیاد شمس الرحمان فاروقی(اشعر نجمی)، بُری عورت کی دوسری کتھا (کشور ناہید)، مسعود مفتی(دو مینار)، کیوبا کہانی(مستنصر حسین تارڑ)، آثار دید و شنید(محمّد حمزہ فاروقی)، تحسین فراقی: شخصیت و فن(طارق ہاشمی)، مشفق خواجہ اور رشید حسن خان کے خطوط’’سلسلۂ مکاتیب‘‘(اختر وقار عظیم)، مجموعۂ مکاتیب اکبر(راشد شیخ)، خطوط غالب و، انتخاب(تنظیم الفردوس)، لاک ڈاؤن کے شب و روز(ہارون الرشید)، بندہ بیتی(ابدال بیلا)،تھوڑا سا جہاں اور(مقصودہ جعفری)،زندہ لمحات(نعمان الحق فرح)، یونان سقراط کا دیس(زاہد منیر عامر)، دو راہے (فرخ یار)، غنیمت کے اختصارئیے (اکرم کنجاہی)، اُردو میں اصلاحِ زبان کی روایت (مقبول نثار ملک)، زمستاں کی بارش (خالد مسعود خان)، چاند کی گود میں (اشفاق ایاز:مزاحیہ مضامین)، مجھے فیمینسٹ نہ کہو (طاہرہ کاظمی)، چند ہم سفر (اختر وقار عظیم)، عجائب خانہ (عرفان جاوید)، ڈھاکا میں آئوں گا (سہیل پرواز)، سوز خوانی کا فن (عقیل عباس جعفری)، فرہنگِ دبیر (اصغر مہدی اشعر)، صرفی سخن (سیّد جاوید حسن)، داڑھی والا (حسنین جمال) وغیرہ اہم رہیں۔ان کے علاوہ سرمۂ بصیرت (امیر بینائی، فارسی لغت۔ تدوین و حواشی: فائزہ مرزا زہرا)، تدریس اُردو ، اُردو املا و قواعد( یہ دونوں کتب فرمان فتح پوری کی ہیں)، اقبال کا نغمۂ شوق(بصیرہ عنبریں)، علّامہ اقبال اور اسلامی شریعت(وسیم انجم)، فکرِ اقبال کے گوشے(عبد الرزاق صابر)، شایع ہوئیں۔ لسانیات کے موضوع پر لسانیات کے بنیادی مباحث، صحتِ زباں (رؤف پاریکھ)، لسانی مسائل و لطائف(شا ن الحق حقی)، لغت الہان الغات(مولوی امان الحق۔ تدوین و حواشی: ارشد محمود ناشاد)، اُردو لسانیات (منصف خان سحاب)، لسانی زاویے(غازی علم الدین)، پاکستانی زبانیں اور بولیاں (منظور ویسیر یو)، لغات روزمرّہ کا تحقیقی و لسانی جائزہ(محمّد عُمر خان)منظرِ عام پر آئیں۔
ادب کی رفتار اور صُورتِ حال سمجھنے میں جرائد بہت اہم کردار ادا کرتے ہیں اور پاکستان میں بھی اپنی مدد آپ کے تحت مختلف شہروں سے اہم ادبی جرائد شایع ہوتے ہیں۔ 2021ء میں بھی بعض جرائد تسلسل اور کچھ تعطل سے شایع ہوتے رہے۔ تاہم، خوش آئند خبر دو نئے جرائد کا اجراء رہی۔ ایک جریدہ ’’وَرثہ‘‘ ہے، جو رئیس وارثی کی ادارت میں شایع ہوا اور دوسرا ’’املاک‘‘ ، جس کے مدیر شاہ روم خان ولی ہیں ۔
دیگر جرائد میں نعت رنگ، جہانِ حمد، رثائی ادب شایع ہوئے۔ قومی زبان نے غالب نمبر،استعارہ(محمد حسن عسکری) رنگ ادب (شمس الرحمنٰ فاروقی)، دُنیائے ادب(اوراق خراجِ تحسین ایڈیشن)، فنون (خاص نمبر)، مکالمہ (سال نامہ)،املاک (ظفر اقبال نمبر)، چہار سُو (عذرا عباس نمبر)، کارواں (رفیع الدین راز نمبر)، رنگِ ادب (اکرم کُنجاہی نمبر) اور بُک ڈائجسٹ (شفیق آصف نمبر) شایع کیے۔ علاوہ ازیں، ادبِ لطیف، ادبیات، اجرا، نیرنگِ خیال، بیاض، تخلیق، تطہہیر، تفہیم، بنیاد، ماہِ نو، نمود، الحمرا، حروف، لوحِ ادب، اُردو، غنیمت، ارژنگ، ندائے گُل، انشا، سپوتنک، پیغام آشنا، بیلاگ، زیست، تناظر، سیپ، ادبِ عالیہ، کولاژ، ساتھی، پیلوں، پکھیرو، عمارت کار، الاقربا، فن زاد، شعرو سخن، الماس، دریافت، آج، تحقیقی زاویے، بازیافت، تحقیق نامہ، تخلیقی ادب، تحقیق، خیابان، الزبیر، معیار، رسالہ، تہذیب، دانش، اُرود اخبار، مجلسِ ترقّیٔ اُردو اخبار، نیرنگِ بیاض، آثار، پاکستانی زبان و ادب، ذوق و شوق، جمالیات، کاغذی پیرہن، مخزن، مجلۂ بدایوں، ادب معلیٰ، ثبات، ادب دوست، عکاّس انٹرنیشنل، ندائے گُل، انہماک، حرف انٹرنیشنل، بجنگ آمد، نزول، فانوس، کہکشاں، ہم رکاب، ارتقا، صُبحِ بہاراں، اجمال، تلازمہ، عبارت، سوچ، ابجد، آہنگ، انگارے، قرطاس، قلم کی روشنی، فکرو نظر، نوارد، دستک، دھنک، الحمد، اُردو کالم، تعبیر ،موزیک اور ادب و کتب خانہ وغیرہ شامل ہیں۔
ایک جانب ان تمام تر سرگرمیوں سے شعبۂ ادب میں تیزی محسوس کی گئی، تو دوسری جانب موت کا رقص بھی اپنی رفتار سے جاری رہا اور کئی اہم شخصیات ہم سے بچھڑ گئیں،جن میں نصیر ترابی، رشید امجد، شاہد حمید، یونس شرر، مسعود اشعر، سرفراز شاہد،جاذب قریشی، ایس ایم معین قریشی، محسن اعظم ملیح آبادی، سیّد عباس زیدی، واحد رازی، عبدالصمد تاجی، رئیس علوی، حسینہ معین، نقاش کاظمی، محمّد اسحاق قریشی، احمد سعید فیض آبادی، ریحان اعظمی، رئوف طاہر، نیّر اسعدی، محسن حقانی، مبشر حسن، عروج اختر زیدی، شہناز نور، نجیب احمد، شفیق سلیمی، سعید گیلانی، عشرت رومانی، فاروق قیصر، فرتاش سیّد، نظر عباس نقوی، سلیم راز، عبدالرئوف ملک، طاہر آفریدی، اختر ہاشمی، سعید پرویز، سجاد ہاشمی، نور الہدیٰ سیّد، نشاط غوری، فدا حسین کاظم، صفدر محمود، طارق اسماعیل ساگر، زیتون بانو، ضیاء شہزاد، عبدالمختار، ظفر اللہ پوشنی، ابرار احمد، انور محمود خالد، ڈاکٹراجمل نیازی، شکیل فاروقی، صفدر قریشی، سردار فاروق جان بابر، نصیر بلوچ اور اخلاق عاطف کے نام شامل ہیں۔ یقیناً ان شخصیات کے چلے جانے سےعلم و ادب کی دُنیا میں بڑا خلا پیدا ہوگیا ہے، مگر زندگی کی طرح ادب کا کارواں بھی چلتا رہے گا۔