2021ء کا سال کرۂ ارض،بالخصوص پاکستان کی قریباً 90فی صد خواتین کے لیے گزشتہ برسوں ہی کی مانند رہا۔ 14اکتوبر 2021ء کو جب دنیا بھر میں ’’خلائی تسخیر‘‘ کا ہفتہ منایا جا رہا تھا، تو اس میں خلاباز خواتین کو خصوصی خراجِ تحسین پیش کیا گیا۔ لیکن خلائی کارکردگی سے قطع نظر زمینی حقائق خواتین کی کچھ اور ہی کہانی بیان کرتے ہیں۔ تلخ حقیقت یہ ہے کہ روئے زمین پر بسنے والی تین ارب سے زائد خواتین کی،جو کہ مجموعی آبادی کا 49فی صد ہیں، اکثریت گوناگوں مسائل ، مشکلات سے دوچار ہے ۔
حوصلہ شکن اور جاں گسل حالات اور مَردوں کی بالادستی کے باوجود عالمی سطح پر کئی خواتین اپنی صلاحیّتوں کے بَل بُوتے پر شہرت کی بلندیوں تک پہنچیں۔گرچہ ان کی اکثریت ترقّی یافتہ ممالک، بالخصوص امریکا سے تعلق رکھتی ہے،لیکن یہ دنیا کی ان کروڑوں خواتین کے لیے حوصلہ افزائی کا سبب ہیں،جو ابھی جدّوجہد کر رہی ہیں۔
ان خواتین میں سرِفہرست امریکا کی سیاہ فام نائب صدر، کملاہیرس ہیں۔ وہ امریکی تاریخ میں پہلی خاتون نائب صدر ہیں،انہیں صدر جوبائیڈن کی غیرموجود گی میں ایک دن کے لیے صدارت کا عہدہ سنبھالنے کا بھی اعزاز حاصل ہوا، جب پوری دنیا میں یہ خبریں شایع ہوئیں کہ ایک دن کے لیےایٹمی جنگ چھیڑنے کا اختیار ایک خاتون کے پاس تھا۔ اسی طرح امریکی اکانومسٹ جینیٹ یلین امریکی وزارت خزانہ کی سربراہ مقرر ہوئیں۔وہ بھی اس عُہدے پر فائز ہونے والی پہلی خاتون ہیں۔NGOZI OKAJOوہ پہلی خاتون ہیں، جنہوں نے’’ورلڈ ٹریڈ آرگنائزیشن‘‘ کے سربراہ کا عُہدہ سنبھالا۔
برطانوی نشریاتی ادارے نےسالِ گزشتہ کی 100بااثر اور متاثرکن خواتین کی فہرست جاری کی،جس میں دنیا کی کم عُمر ترین نوبیل انعام یافتہ پاکستانی سماجی کارکن، ملالہ یوسف زئی سمیت 3 پاکستانی خواتین کے بھی نام شامل ہیں۔واضح رہے،برمنگھم میں مقیم ملالہ کو خواتین کی تعلیم کے لیے کوششوں پر فہرست کا حصّہ بنایا گیا۔
نیز،کابل میں منشّیات سے نجات کے مرکز مدر کیمپ کی بانی، پاکستان میں پیدا ہونے والی، لیلیٰ حیدری بھی اس فہرست کا حصّہ ہیں۔پاکستان سے تعلق رکھنے والی’’نیشنل فورم آف ویمن وِد ڈس ایبلٹی‘‘کی بانی، عابیہ اکرم بھی اس فہرست میں جگہ بنانے میں کام یاب ٹھہریں۔علاوہ ازیں،فہرست میں ساموا کی پہلی خاتون وزیراعظم، فیامے نومی مطافہ،’’ ویکسین کانفیڈینس پراجیکٹ ‘‘کی سربراہ، پروفیسر ہیڈی جے لارسن اور نام وَر مصنّفہ چیمامانڈا نگوزی ایڈیچی بھی شامل ہیں۔
ایک عالمی سروے کے مطابق 2020ء میں دنیا میں 21فی صد خواتین سیاست اور اعلیٰ کاروباری عُہدوں پر متمکن تھیں۔2021ء میں اس شرح میں صرف 0.6فی صد اضافہ ہوا۔ دنیا کی قومی پارلیمانوں میں بھی صرف ایک فی صد کا معمولی اضافہ دیکھنے میں آیا۔یوں تو دو سال سے جاری کورونا وبا نے بلاتخصیص ہر شعبہ ہی متاثر کیا، لیکن آفس ، فیکٹری ورکرز اور خواتینِ خانہ سب سے زیادہ نشانہ بنیں۔ 19مارچ 2021ء کو اقوام متحدہ کے زیرِ اہتمام خواتین کے اسٹیٹس پر کمیشن کا ایک اجلاس منعقد ہوا، جس میں جنرل سیکرٹری، انتونیو گوتریس نے اپنے خطاب میں کہا کہ ’’2021ءمیں اسکولز کی بندش، لاک ڈائونز، بے روزگاری، ملازمتوں سے فراغت، تن خواہوں میں کٹوتی، منہگائی اور غربت کے باعث خواتین خصوصی طور پر شدید مشکلات کا شکار رہیں۔‘‘
بالخصوص شعبۂ صحت سے وابستہ فرنٹ لائن لیڈی ہیلتھ ورکرز کوسنگین مسائل کا سامنا رہا ۔ کورونا کے دوران، اقتصادی بدحالی کے باعث فارغ کیے گئے ورکرز میں سب سے زیادہ تعداد خواتین کی تھی۔ امریکا میں 2021ء کے ابتدائی چند ماہ میں 25لاکھ خواتین ورکرز کو ملازمتوں سے نکالا گیا ۔اسی طرح خواتین کی تن خواہوں اور مختلف شعبوں میں ان کی محنت کے معاوضوں میں کمی دیکھنے میں آئی۔
دنیا بھر میں ایک اقتصادی جائزے کے مطابق محنت کش اور آفس ورکرز خواتین کی تن خواہیں اور معاوضے مَردوں کے اوسط ایک ڈالر کے مقابلے میں نصف سے بھی کم ہیں۔جنوب مشرقی ایشیا اور خاص طور پر برّصغیر میں دست کاریوں سے وابستہ محنت کَش خواتین کی مجبوریوں سے فائدہ اُٹھاتے ہوئے معاوضے کا ایک بڑا حصّہ کمیشن ایجنٹ لے جاتا ہے۔ 70ممالک میں کیے گئے ایک سروے کے مطابق عورتوں اور مَردوں کے درمیان محنت کے معاوضے کا گیپ گرچہ بتدریج کم ہو رہا ہے،لیکن پھر بھی واضح امتیازی فرق موجود ہے،بالخصوص ترقّی پذیر ممالک میں یہ عام بات ہے۔
عورتوں سے زیادتیوں اور ناانصافیوں کے حوالے سے جنسی اور جسمانی ہراسانی اور گھریلو تشدّد کا مسئلہ ہمیشہ سے سرِفہرست رہا ہے،جو 2021ء میں بھی عروج پر رہا۔عالمی ادارۂ صحت نے اپنی مختلف تجزیاتی رپورٹس میں بتایا کہ ’’دنیا میں اوسطاً ہرتین میں سے ایک خاتون کو اپنے شوہر یا کسی قریبی عزیز یا یورپ اور امریکا میں اکٹھے رہنے والے جوڑوں کو اپنے پارٹنر کی طرف سے جسمانی تشدّد اور ہراسانی کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔
جہاں تک جنسی ہراسانی اور ریپ کا تعلق ہے، اس کی شرح ترقّی یافتہ اور ترقّی پذیر ممالک میں قریباً یک ساں ہی ہے۔‘‘ جنسی زیادتیوں کے اعتبار سے دنیا کے پہلے 10ممالک میں جنوبی افریقاسرِفہرست رہا۔2021ء میں منعقدہ اقوامِ متّحدہ کے اجلاس میں ماہرین نے انکشاف کیا کہ ’’کورونا کے دوران خواتین پر تشدّد اور جنسی ہراسانی کے واقعات میں تشویش ناک حد تک اضافہ دیکھنے میں آیا۔‘‘ اجلاس میں اس بات پر تشویش کا اظہار کیا گیا کہ بیش تر ممالک میں جنسی اور جسمانی تشدّد کے خلاف قوانین ہی وضع نہیں کیے گئے۔
امریکا میں باقاعدہ قوانین موجود ہیں، لیکن پولیس روایتی طور پر ملوث افراد کو گرفتار نہیں کرتی اور 97 فی صد مجرم بچ نکلتے ہیں، جب کہ ترقّی پذیر ممالک میں پولیس اسے ایک گھریلو نجی معاملہ قرار دے کر مداخلت نہیں کرتی۔ 80 فی صد خواتین،حصولِ انصاف کے لیے کسی فورم سے رجوع ہی نہیں کرتیں، کیوں کہ انہیں مَردوں کی بالادستی کے اس معاشرے میں انصاف ملنے کی توقع نہیں۔ عالمی ادارہ ٔصحت کے مطابق دنیامیں ہر سال جتنی عورتیں قتل ہوتی ہیں، ان میں سے 38 فی صد کا قتل،ان کے شوہروں یا پارٹنرز کی طرف سے ہوتا ہے۔ 2021ء میں کھیلوں کی دنیا میں ٹینس پلیئر ،سیرینا ولیم نے نام کمایا، جو 23گرینڈ سلام سنگلز کے مقابلوں کے علاوہ اولمپک میں 4گولڈ میڈلز جیت کر تاریخ کی کام یاب ترین ٹینس پلیئر کہلائیں۔
یہ تو بات ہوئی خواتینِ عالم کی، پاکستانی خواتین کی بات کی جائے، تو 2021ء ان کے لیے کسی خاص تبدیلی کا سال ثابت نہیں ہوا۔صنفی عدم مساوات کا تو کیا خاتمہ ہوتا،کورونا وائرس کے سبب بے روزگاری، کمرتوڑ منہگائی،اقتصادی بدحالی، جنسی وجسمانی ہراسانی اورگھریلو تشدّد کے واقعات پاکستانی خواتین کے سماجی منظرنامے پر چھائے رہے۔ عالمی اداروں نے چند سال قبل پاکستان کو خواتین کے لیے پانچواں خطرناک ترین مُلک قرار دیا تھااورتازہ رپورٹس میں بھی اس میں کوئی تبدیلی نہیں کی گئی۔ اقوامِ متّحدہ کے مختلف اداروں کے مطابق پاکستان میں ہر تین شادی شُدہ خواتین میں سے ایک گھریلو تشدّد کا شکار ہوتی ہے۔یہاں بھی اس قبیح جرم کو ایک گھریلو، نجی معاملہ سمجھ کر نظر انداز کردیا جاتا ہے۔
پاکستان ویسے ہی غیرت کے نام پر قتل کے حوالے سے پوری دنیا میں بدنام ہے اور عالمی ادارے مبالغہ آرائی کی حد تک ایسے واقعات کی تعداد ہزاروں میں بتاتے ہیں۔تاہم، حالات اتنے خوف ناک بھی نہیں جتنا عالمی میڈیا رپورٹ کرتا ہے۔ مقامی طور پر محتاط اندازوں کے مطابق غیرت کے نام پر قتل ہونے والی خواتین کی تعداد قریباً ایک ہزار سالانہ ہے۔گھریلو تشدّد اور زیادتیوں کے حوالے سے پنجاب اسمبلی کی رکن زہرہ نقوی نے 14جولائی 2021ء کو اسمبلی میں ایک قرارداد جمع کروائی،جس میں انکشاف کیا گیا کہ صرف پنجاب میں غیرت کے نام پر 81خواتین قتل ہوئیں، جس پر گہری تشویش کا اظہار کرتے ہوئے اس قسم کے واقعات کا سدّباب کرنے کا مطالبہ کیا گیا۔
اسی طرح ایک اور قرارداد رکن صوبائی اسمبلی، سعدیہ تیمور نے پیش کی، جس میں لاہور میں 2021ء کے ابتدائی 9 ماہ کے دوران 496 خواتین کو زیادتی کا نشانہ بنانے پر تشویش کا اظہار کیا گیا۔ پنجاب میں انفارمیشن کمیشن کی رپورٹ بھی کوئی مثبت صورتِ حال پیش نہیں کرتی، جس کے مطابق 2021ء کے ابتدائی 9 ماہ میں 900 خواتین اغوا اور ایک ہزار 890خواتین جنسی زیادتی کا شکار ہوئیں، جب کہ خواتین پر گھریلو تشدّد کے تین ہزار 721واقعات رپوٹ ہوئے۔
ویسے تو سالِ گزشتہ خواتین کے خلاف ہراسانی اور تشدّد کے متعدّد واقعات دیکھنے میں آئے،تاہم ان میں سے ایک، سفّاکیت کی وجہ سے کچھ الگ ہے، جس نے پوری قوم کا ضمیر جھنجھوڑ ڈالا۔20 جولائی کو سابق سفیر، شوکت مقدّم کی 27 سالہ بیٹی، نور مقدّم اسلام آباد میں ایک رہائش گاہ پر مُردہ حالت میں پائی گئیں۔اور پولیس کا کہنا تھا کہ انہیں انتہائی بے دردی سے قتل کیا گیا تھا۔جیسے ہی قتل کی خوف ناک تفصیلات سامنے آنا شروع ہوئیں، پاکستانیوں نے سوشل میڈیااور ذاتی طور پر احتجاج کیااور تادمِ تحریر یہ کیس زیرِ سماعت ہے ۔پنجاب کے علاوہ دیگر صوبوں ، خاص طور پر سندھ میں بھی صورتِ حال ابتر ہی رہی۔
سندھ کےسابق آئی جی کلیم امام نےصوبے میں غیرت کے نام پر قتل اور جنسی ہراسانی کے بڑھتے ہوئے واقعات پر رپورٹ پر تشویش کا اظہار کرتے ہوئے اس کی بڑی وجہ عدالتوں سے ملزموں کا بری ہونا قرار دیا ۔ رپورٹ کے مطابق سندھ میں 2021ء کے ابتدائی چند ماہ میں پولیس نے جنسی زیادتی اور دیگر جرائم کے حوالے سے 649 مقدمات عدالتوں میں پیش کیے،جن میں صرف 19ملزموں کو سزا سنائی گئی، جب کہ 136مقدمات میں ملزمان رہا ہو گئے۔رپورٹ کے مطابق سزا کی شرح صرف 2 فی صد،جب کہ رہائی کی شرح 21 فی صد رہی۔
رہائی کی ایک وجہ پولیس کا کم زور چالان بھی ہو سکتا ہے۔حقیقت یہ ہے کہ خواتین کے خلاف ہر نیا سال مختلف جرائم میں اضافہ ہی لاتا ہے۔ جنسی زیادتی کے بڑھتے واقعات پر وزیراعظم عمران خان کا ایک بیان بھی کافی بحث و مباحثہ کا موضوع بنا رہا،جس میں انہوں نے جنسی ہراسانی اور زیادتیوں کی ایک وجہ خواتین کا غیر شائستہ اور نامکمل لباس قرار دیا تھا۔ان کا کہنا تھا کہ ’’خواتین کے لباس کا منفی اثر مَردوں پر پڑتا ہے کہ وہ بھی انسان ہیں،روبوٹ نہیں۔‘‘بہرحال عورت سے بڑھتے ہوئے نازیبا اور ناروا سلوک اور جنسی ہراسانی روکنے، مقدمات کے اندراج اور عدالتوں تک آسان رسائی کے لیے متعدّد عُہدوں پر خواتین کو تعینات کیا جارہا ہے۔ جیسے،ڈیفینس، لاہور کے تھانے میں عورتوں کی جنسی ہراسانی اور دیگر شکایات کے حوالے سے ایک خصوصی ’’اینٹی ویمن ہراسمینٹ اینڈ وائلینس سیل‘‘کا افتتاح کیا گیا۔
حکومتِ پنجاب نے 25نومبر سے 10دسمبر تک ’’خواتین پر تشدّد اب ختم ہونا چاہیے ‘‘کے عنوان سے 16دنوں پر محیط ایک مہم بھی چلائی۔خیبر پختون خوا میں آٹھ سال سے مخالفت کا شکار ’’خواتین کے خلاف گھریلو تشدّد سے بچاؤ اور حفاظت بِل 2021‘‘بڑے بحث مباحثے کے بعد بعض ترامیم کے ساتھ اتفاقِ رائے سے منظور ہو گیا۔خواتین پر تشدّد کرنے والے کو پانچ سال تک قید اور جرمانے کی سزا دی جائے گی۔
ترمیم شُدہ اس قانون کے لیے ایسا طریقۂ کار اپنایا گیا ہے کہ خواتین تشدّد سے محفوظ رہیں اور مردوں کے ساتھ بھی کسی قسم کی ناانصافی نہ ہو۔ اس مقصد کی خاطر ہر ضلعے میں ایک تحفظاتی کمیٹی بنائی جائے گی، جس میں ڈپٹی کمشنر، ایگزیکیٹیو ڈسٹرکٹ آفیسر، سوشل ویلفیئرآفیسر، ڈسٹرکٹ پبلک پراسیکیوٹر، پولیس کا ایک نمایندہ، مسجد کےخطیب، گائناکالوجسٹ اور ماہرِ نفسیات شامل ہوں گے، جو کسی قسم کی شکایت کا جائزہ باقاعدہ ثبوتوں اور حقائق کی روشنی میں لیں گے۔ یہ کمیٹی فریقین کے درمیان مصالحت اور شکایت کنندہ کے لیے محفوظ پناہ گاہ تلاش کرنے جیسے امور بھی سنبھالے گی۔
سالِ گزشتہ نامساعد حالات کے باوجود کئی پاکستانی خواتین نے کام یابیوں کی منازل طے کیں۔زارا نعیم ڈار نے ’’ایسوسی ایشن آف چارٹرڈ سرٹیفائیڈ اکائونٹس‘‘ کے امتحان میں دنیا بھر میں اوّل پوزیشن حاصل کی۔چترال سے تعلق رکھنے والی ، ڈاکٹر زبیدہ سارنگ کی امراضِ چشم پر لکھی گئی کتاب’’ Optics Made Easy ‘‘ کو میڈیا کے طلبہ کے نصاب میں شامل کیا گیا۔ ڈاکٹر زبیدہ کی کتاب کو امراض ِچشم پر لکھی گئی کتابوں میں بہترین قرار دیا گیا۔ جسٹس عائشہ ملک نے جنوری 2021 ء میں ایک تاریخ ساز فیصلہ سنایا ، جس کی رو سے زیادتی کا نشانہ بننے والی خواتین کے لیےٹوفنگرز وَرجنیٹی ٹیسٹ کو خلافِ قانون اور اسے عورت کی عزّت اور وقار کے منافی قرار دیا۔
علیزہ ایاز کو’’ Sustaninable Development Goals ‘‘ کے حوالے سے اقوامِ متّحدہ کی نوجوان سفیر برائے SDGC منتخب کیا گیا۔ ماحولیات کے حوالے سے ان کی خدمات کو ملالہ یوسف زئی کے بعد عالمی سطح پر سب سے زیادہ سراہا جاتا ہے۔پولیس آفیسر، آمنہ بیگ (اےایس پی)کو معاشرے میں مثبت تبدیلیاں لانے پر ناروے کے سفیر کی جانب سے خصوصی ایوارڈ دیا گیا۔ یہ ایوارڈ بہترین کارکردگی پر سوِل سرونٹس کو دیا جاتا ہے۔
خواتین کے عالمی دن کے موقعے پر یونائیٹڈ اسٹیٹس مشن اِن پاکستان اور فیس بُک کے تعاون سے منعقدہ ایک تقریب میں اُن پاکستانی خواتین کو خراجِ تحسین پیش کیا گیا،جنہوں نے یو ایس ایڈ کے زیرِ اہتمام منعقدہ ایک تربیتی پروگرام کے تحت تربیت حاصل کرکے مُلک میں چھوٹے اوردرمیانے درجے کے کاروبار کو وسعت دی اور خود کو ایک کام یاب بزنس ویمن ثابت کیا۔
یو ایس ایڈ اب تک 433خواتین کو مختلف کاروبار میں فیس بُک، واٹس ایپ اور انسٹاگرام کے ذریعے تربیت دے چُکا ہے۔پاکستانی نژاد فرانسیسی خاتون، عاصمہ اشرف کو فرانس کے’’ نیشنل آرڈر آف میرٹ ایوارڈ‘‘ سے نوازاگیا۔ انہیں یہ ایوارڈ فرانسیسی سوسائٹی کے لیے تعلیم اور سماجی بہبود کے شعبوں میں خدمات پردیا گیا ہے۔