• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

 السّلام علیکم ورحمۃ اللہ و برکاتہ

تبصرے پر ربن

نرجس جی! اُمید ہے بخیروعافیت ہوں گی، چوتھے خط کےساتھ حاضر ہوں، کئی دِنوں سے اس آدھی ملاقات کا سوچ رہی تھی کہ کئی تحریریں درمیان میں ایسی لاجواب و بےمثال آئیں، بےاختیار تبصرہ کرنے کو جی چاہا۔ مگر بعض مصروفیات ایسی آڑے آجاتی ہیں کہ انسان چاہ کربھی کچھ نہیں کرپاتا۔ خیر، آج تو ہمّت کرکے قلم اُٹھا ہی لیا، سو تبصرہ حاضر ہے۔ ’’حالات و واقعات‘‘ میں منور مرزا سوال کررہےتھےکہ ’’گرے لسٹ کا چکّر کب ختم ہوگا؟ اللہ جانےکب ہوگا، ہم تو اس چکّر میں پڑے بغیر آگے بڑھ گئے۔ البتہ جام کمال کےخلاف تحریکِ عدم اعتماد کی کہانی بڑی دلچسپی سےپڑھی۔’’اِن اینڈ آئوٹ‘‘ سلسلے کا بھی جواب نہیں، ایک سے بڑھ کر ایک خاتون سیاست دان کے بارے میں خاطر خواہ معلومات حاصل ہورہی ہیں۔ آہا…! ’’علامہ اقبال رحمۃ اللہ علیہ اور عقیدتِ رومی رحمۃ اللہ علیہ‘‘ کیا زبردست مضمون ہے، ہمیں تو دونوں ہی سے بہت عقیدت ہے۔ قاضی ظہور الحسن نے بھی بہت خُوب لکھا۔ خاص طور پر یہ بات ’’یہ کاسۂ گدائی کبھی نہیں بھرپاتا۔‘‘ کس قدر افسوس کی بات ہے ناں کہ مٹّی کو سونا بنانا تو کُجا، یہاں سونے ہی کو مٹّی (ریکوڈک) بنادیا جاتا ہے۔ ’’مسحور کُن، پُراسرار وادئ کیلاش کی ایک جھلک‘‘ نے تو ہمارا جی للچا دیا۔ بڑے غورسےتصویریں دیکھیں، کیا خُوب صورت نظارے تھے، ماشاء اللہ… لیکن اتنا طویل سفر، اُففف… ہم تو پڑھ کر گھبرا گئے۔ آپ کی ٹیم کے ’’مسٹر پرفیکٹ‘‘ ہمارے منور راجپوت بھائی، نئی کتابوں پر بہترین تبصرے کے ساتھ حاضر تھے اور ناول کی تو کیا ہی بات ہے، مگر سمجھنے کے لیے پوری توجّہ درکار ہوتی ہے۔ اتنے گہرے جملے اور خُوب صُورت اندازِ بیاں۔ ’’اجاڑمسکن‘‘ اور ناقابِلِ فراموش کا واقعہ دونوں بہت پسند آئے۔ اب آتے ہیں، اپنے صفحے کی طرف، جہاں ’’اس ہفتے کی چِٹھی‘‘ اسماء خان دمڑ کے نام رہی، جنہیں ہماری باجی صائمہ کنول کے ہاتھ کا جھانپڑ کھانے کی خواہش ہے۔ ہاہاہا…! ویسے تفنّن برطرف، اسماء خان جیساتبصرہ کوئی اورنہیں کرسکتا۔ ارے ہاں… نرجس جی! 24اکتوبر کے میگزین میں ہمارے تبصرے پر ربن لگی ہوئی تھی، یقین ہی نہیں آیا کہ ہمارا ہی خط ہے، ہم تو سمجھتے تھے؎ ہنوز دلی دُور است، مگر اچانک ہی بغیر خواہش کے یہ اعزاز ملا۔ شاید کوئی کہے کہ یہ اتنی بڑی بات تو نہیں، مگر ہمیں بہت زیادہ خوشی ہوئی۔ (جیسے بورڈ کا رزلٹ دیکھ کر نکمّے بچّوں کو ہو رہی ہے) کچھ تحریریں بھی بھیجی ہیں، قابلِ اشاعت ہوں، تو شامل کر لیجیے گا۔ (اقصیٰ منوّر ملک، صادق آباد)

ج:اسماء کا تو صرف تبصرہ اچھا ہوتا ہے، آپ کی تحریروں کابھی جواب نہیں ہوتا۔ باری آنے پر شامل ہوجائیں گی۔

گرفت میں لے لیا ہے

ہماری طویل غیرحاضری کی وجہ امتحانات کی مصروفیات تھیں۔ بہرحال، حالیہ شمارے میں شفق رفیع کا مضمون پڑھنے کو ملا۔ واقعی، نمبرز کی بندر بانٹ نے تو سب کو ورطہ حیرت میں ڈال رکھا ہے کہ 1100 میں سے 1100نمبرز آنا سمجھ سے باہر ہے۔ ویسے اطلاعاً عرض ہے کہ انٹر میں ہمارے مارکس978 آئےہیں، تو ہمارا خیال ہے کہ یہ ہماری ذاتی محنت ہی کا صلہ ہے۔ اس بار ’’سرچشمۂ ہدایت‘‘ کا صفحہ بہت معلوماتی تھا، ثروت جمال اصمعی نے جس اُجلے انداز میں نبی اکرمﷺ کی آمد کی واضح بشارتوں سے آگاہ کیا، وہ داد کے مستحق ہیں۔ ’’بڑی مشکل سے ہوتا ہے چمن میں دیدہ وَرپیدا‘‘ آہ…! محسنِ پاکستان ڈاکٹر عبدالقدیر خان اب ہم میں نہیں رہے، بلاشبہ پاکستان کے لیے اُن کی خدمات تادیر یاد رکھی جائیں گی۔ اللہ پاک انہیں غریقِ رحمت کرے۔ (آمین) سنڈے اسپیشل میں بلوچستان کے روایتی کھانے موجود تھے، سچ تو یہ ہےکہ ہمارا بھی بہت دل چاہتا ہے، بلوچستان کی سیرکو، اگر اسماء دمڑ اجازت دیں تو… جب کہ رائو محمّد شاہد اقبال نئے دَور کی نئی وارداتوں سے خبردار کررہےتھے۔ ہماری ایک اسکول ٹیچر بتایا کرتی تھیں کہ چوری کرنا بعض لوگوں کے جینز میں شامل ہوتاہےاوراکثر وہ اپنی خصلت سے مجبور ہوکرہی ایسی حرکت کرتےہیں۔ اور ہاں! نوبیل ایوارڈ کے بارے میں تو ہمیشہ تجسّس رہا تھا، تو اس بار ہر فن مولا، مسٹر راجپوت نے بخوبی آگاہ بھی کردیا۔’’نیرنگئ سیاستِ دوراں تو دیکھیے‘‘ آپ کا یہ سلسلہ توسُپر سے بھی اُوپر ہے۔ سال نامے میں تو اِن اینڈ آئوٹ کا سلسلہ شوق سے پڑھتے ہی تھے، اب تو ہر ہفتے ہی معلومات میں اضافہ ہورہا ہے، میدانِ سیاست میں صرف حسین ہی نہیں،ذہین چہرے بھی موجودہیں، تو کیااس سلسلے میں ’’ثانیہ نشتر‘‘ بھی شامل ہوسکتی ہیں۔ ڈائجسٹ میں شامل غزل ’’محسوس تو ہوتے ہیں، مخاطب نہیں ہوتے‘‘پتا نہیں کیوں لگا،جیسے پہلےبھی کہیں پڑھی ہے۔ ناول ’’دُھندلے عکس‘‘ نے بھی اپنی گرفت میں لے لیا ہے، خاص طور پر ایک جملہ ’’دل نور کا منبع ہے، بہت بھٹکنے سے جب تنگ آجائو، تو اس کی سمت رجوع کرو۔‘‘ بہت متاثرکُن تھا۔ (عیشاء نیاز رانا، صادق آباد)

ج:اوربس، تمہیں گرفت میں لیتےہی تمام بھی ہوا۔

حیرت کا جھٹکا

شعور کے زینے پر قدم رکھتے ہی ربِ ذوالجلال کی طرف سے ذوقِ مطالعہ وافر نصیب ہوا۔ طائرِ تخیّلِ روز و شب نئے جہانوں کی سیّاحت کرنے لگا۔ ثانوی درجے کی تعلیم تک کافی ناول، افسانے پڑھ لیے، نام وَر مصنّفین کی تحاریر سے اچھی خاصی شناسائی ہوگئی، تو پھر عام تحریر توکُجا اچھی خاصی ادبی تحریریں بھی کہاں دل کی دنیا کو بھلی معلوم ہوتی تھیں۔ بہرحال، بھلا ہو جنگ، سنڈے میگزین اور اس کی مدیرہ کا کہ اُن کی ادارت کے ابتدائی ایّام کا ایک رائٹ اَپ پڑھنے کا موقع ملا تو حیرت کا جھٹکا سا لگا کہ ’’ہائیں، اِدھر بھی کوئی ایسا ہے؟‘‘ سو، اُس وقت سے تادمِ تحریر یہ ربط ساتویں آسمان تک پہنچنے والا ہے۔ پاکستان کی گونگی، بہری اور اندھی سیاست کو درست سمت عطا کرنے میں منور مرزا کی کاوشیں ناقابلِ فراموش ہیں۔بین الاقوامی واقعات کے تناظر میں انہوں نےگرے لسٹ سےمتعلق جان دار مضمون رقم کیا۔ کوئٹہ سے وحید زہیر نے جام کمال کی حکومت پرجامع تحریر رقم کی۔ کیا ہی اچھا ہوتا کہ جام کمال حالات و واقعات کا غیر جانب دارانہ تجزیہ کرکے اصلاح احوال کی کوشش کرتے یا پھر عزت سے علیحدگی اختیار کرلیتے۔ ’’نیرنگیٔ سیاستِ دوراں‘‘ کے مضمون نگار نے تو جی خوش کردیا۔ عابدہ حسین جیسی اعلیٰ پائے کی منتظم اور مدبّر خاتون کی تقلید دیگر پربھی واجب ہے۔ ڈاکٹر معین الدین عقیل کے قلم کی جولانیوں کے ہم عرصۂ دراز سے معترف ہیں اور عصرِ حاضر کا سلگتا ہوا مسئلہ ’’مارگئی منہگائی‘‘ پر اسلام آباد سے بلند ہوتی قاضی ظہور الحسن کی آواز کے ساتھ اسلامی جمہور کے عوام یقیناً ہم آواز ہیں۔ ’’ہیلتھ اینڈ فٹنس‘‘ کے عنوان سے شایع ہونے والی تحاریر بھی جنگ، سنڈے میگزین کو ہم عصر رسالوں سے ممتاز اور منفرد بناتی ہیں۔ مجھ جیسے پیدائشی کتابوں کے رسیا کےلیے’’تبصرئہ کتب‘‘ دل کی دنیا میں لطیف جذبات ابھارنے،عام آدمی کو کتاب کی طرف راغب کرنے کی موثر کوشش ہے۔ یہ کرن عباس کرن آخر آپ نے کہاں سے دریافت کرلیں، یقیناً اردو ادب کے لیے یہ ناول ایک گراں قدر سرمایہ ثابت ہوگا۔ میری طرف سے مصنّفہ اور مدیرہ کے لیے لاتعداد خراجِ تحسین و صد آفرین۔ اور ہاں، منور راجپوت کے لیے بھی پُرکشش عنوانات کے انتخاب اور متوازن جامع مواد پیش کرنے پر ڈھیروں دُعائیں۔ ’’آپ کا صفحہ‘‘ میں اعزازی چِٹھی پر اسماء خان دمڑ جلوہ افروز تھیں۔ اُن کی چنچل تحریریں دل باغ باغ کر دیتی ہیں۔ محمّد سلیم راجہ، اسماء دمڑ اور خصوصاً ایڈیٹر صاحبہ کی خدمتِ اقدس میں گزارش اور تجویز ہے کہ اردو ادب کی دیگر اصناف میں بھی طبع آزمائی فرمائیں تاکہ شاہ کارادبی تحاریر منصہ شہود پر آسکیں۔ (ظہیر الدین، بستی عثمان والی، بہاول نگر)

ج: جی آپ کا حُکم، سر آنکھوں پہ۔

عید، بقرعید کے رائٹ اَپ

ہمشہ کی طرح اس بار بھی دو ہی شماروں پر تبصرہ کروں گا۔ ماشاء اللہ، دونوں ہی میں متبرّک صفحاتِ ’’سرچشمۂ ہدایت‘‘ شامل تھے۔ تائیوان تنازعے پر چین اور امریکا آمنے سامنے۔ ہماری دُعا ہے کہ موجودہ سُپرپاور اور مستقبل کی سُپر پاور میں کبھی جنگ نہ ہو تاکہ دوسرے ممالک بھی اس جنگ کی لپیٹ میں نہ آئیں۔ جی ہاں، ہم واقعی، محسنِ پاکستان ڈاکٹر عبدالقدیر خان کی محبتوں، عنایات و احسانات کا بدلہ نہ چُکا سکے، بلکہ ایک ڈکٹیٹر نے تو انہیں ملزموں کے کٹہرے ہی میں کھڑا کردیا۔ اللہ تعالیٰ اُنہیں جنّت میں اعلیٰ مقام عطا فرمائے۔ بلوچستان کے روایتی کھانوں کے بارے میں پڑھا، ہمیں تو صرف سجّی ہی کا پتا تھا، مگر وہاں تو بےشمارکھانےبنتے ہیں۔ نیا دَور، نئی وارداتیں بھی دل چسپ مضمون تھا۔ ’’اسٹائل‘‘ کے دونوں صفحات عالیہ کاشف نےلکھے۔ لگتا ہے اب آپ صرف عید، بقر عید، نئے سال کے ایڈیشنز کے رائٹ اپ ہی لکھا کریں گی۔ ’’نیرنگیٔ سیاستِ دوراں‘‘میں اِس بار ریحام خان اور نیلوفر بختیار تھیں۔ ریحام خان اگر اپنی حرکتوں سے باز آجاتیں، تو آج خاتونِ اوّل کی لقب سے یاد کی جاتیں۔ ’’دُھندلے عکس‘‘ خُوب جارہا ہے۔ نوبیل انعام سے محروم اردو ادب، واقعی لمحۂ فکریہ ہے۔ معاشرے پر سوشل میڈیا کے مثبت و منفرد اثرات کچھ زیادہ ہی مرتّب ہو رہے ہیں۔ آئی جی، جیل خانہ جات بلوچستان عثمان غنی صدیقی سے انٹرویو شان دار تھا۔ اللہ کرے باقی صوبوں کے آئی جیز بھی اُن جیسے خدا ترس ہوجائیں۔ (پرنس افضل شاہین، نادر شاہ بازار، بہاول نگر)

ج: آپ نے بالکل صحیح اندازہ لگایا، ہمارا اب کم ازکم ’’اسٹائل‘‘ کے رائٹ اَپس پر اپنی انرجی ضایع کرنے کا قطعاً کوئی ارادہ نہیں ہے۔

ماہانہ ایک ہزار روپیا

پہلی بار خط لکھ رہی ہوں، اِس سے پہلے کبھی اتفاق نہیں ہوا۔ سنڈے میگزین بہت شوق سے پڑھتی ہوں۔ خصوصاً آپ کا صفحہ اور اس ہفتے کی چِٹھی کہ قرعۂ فال کس کے نام نکلتا ہے۔ لکھنؤ کے نواب کی جو دُرگت آپ بناتی ہیں، وہ اُن کا دل وجگر ہی ہے کہ سہہ جاتے ہیں۔ ناقابلِ فراموش میں لالو اور کالو کی کہانی بہت پسند آئی۔ ’’توبہ کا دَر کھلا ہے‘‘ پڑھ کر تو رونگٹے کھڑے ہوگئے اور اپنے روزانہ امور پر رونے کو دل چاہا۔ سچ کہوں تو آپ کا یہ ہفت روزہ بہت ہی دل چسپ اور آج کی ضرورت کے عین مطابق ہوتا ہے۔ اِس کی اشاعت برقرار رکھنے کے لیے اگر ہر قاری کو ماہانہ ایک ہزار روپیہ بھی ملانا پڑے تو ملانا چاہیے۔ (شمائلہ نیاز، دائرہ دین پناہ، تحصیل کوٹ ادّو، مظفر گڑھ)

ج:ارے نہیں بھئی، اب ایسے بھی حالات نہیں کہ جریدے کو چندے کے ذریعے چلایا جائے، اگر ادارے کو اشتہارات کی مَد میں باقاعدہ بزنس ملتا رہے اور سرکولیشن میں کمی نہ آئے تو اُمید ہے کہ اِن شاء اللہ تعالیٰ بات بنی رہے گی۔

جوابات کی کاٹ سے…

براہِ مہربانی جوابات دیتے ہوئے صبرو تحمّل کا مظاہرہ کیا کریں، یوں ہی جذباتی نہ ہو جایا کریں۔ یہ بات ذہن میں رکھیں کہ عوام پہلے ہی منہگائی اور بےروزگاری کی چکّی میں پِس رہے ہیں، تو انہیں اپنے جوابات کی کاٹ سے مزید پیسنے سے گریز کریں۔ (نواب زادہ بے کار ملک، سعید آباد، کراچی)

ج:آپ اپنا ذاتی دُکھ سب پر تو منطبق نہ کریں۔ منہگائی بے شک سب ہی کے لیے ہے، لیکن سب آپ کی طرح بےکار ہرگز نہیں ہیں۔ اور ہمارے کاٹ دار جوابات بھی کچھ آپ جیسے سرپھروں ہی کے لیے ہوتے ہیں، بلاوجہ کسی کے گلے پڑنے کا ہمیں ہرگز کوئی شوق نہیں۔

ڈاکٹر اقبال چوہدری تک …

سنڈے میگزین میں جو مضامین شایع ہوتے ہیں، وہ اپنی مثال آپ ہوتے ہیں۔ مزیدبہتری کےلیے ایک تجویز ہے کہ قیامِ پاکستان کےدوران جن لوگوں نے جان و مال، عزت و آبرو کی قربانیاں دیں، اُن کی آب بیتیاں بھی جریدے کا حصّہ بنائیں، تاکہ نئی نسل کو معلوم ہو کہ یہ مُلک کس قدر قربانیوں کے بعد حاصل ہوا تھا۔ مَیں سنڈے میگزین بہت شوق سے پڑھتا ہوں، پچھلے ماہ منور راجپوت نے معروف سائنس دان اقبال چوہدری کا جو انٹرویو کیا، پڑھ کے دل بےحد خوش ہوا۔ خصوصاً یہ جان کر کہ اُن کا تعلق گُڑگائوں سے ہے، کیوں کہ میرے آبائو اجداد کا تعلق بھی اِسی گائوں سے ہے۔ ممکن ہو تو میری نیک تمنّائیں ڈاکٹر اقبال چوہدری تک پہنچا دیں۔ (محمّد عبداللہ اسد قریشی، آصف کالونی، منگھوپیر روڈ، کراچی)

ج:بے فکر رہیں، آپ کی نیک تمنّائیں ڈاکٹر چوہدری تک پہنچ گئی ہیں۔

       فی امان اللہ

اس ہفتے کی چٹھی

نئے شمارے سے پہلے پچھلے شمارےکی کچھ بات ہو جائے۔ افغانستان میں تعینات پاکستانی سفیر، منصور احمد خان کا انٹرویو پڑھا، کیسے تاریخی موقعے پر یہ موجود تھے۔ ہمیں یونہی… بس یونہی انہیں دیکھ دیکھ کر مختار مسعود یاد آگئے۔ جو انقلابِ ایران کے موقعے پر سیکرٹری جنرل کی حیثیت سے ایران میں موجود تھے۔ وہ ’’لوحِ ایّام’’لکھ کر ہم پر احسان کر گئے ہیں، جب جی چاہا، کتاب اُٹھائی اور ایران پہنچ گئے، بھئی واہ ! منصور صاحب کو بھی ایک کتاب لکھنی چاہیے۔ نیا شمارہ سامنے ہے، ماڈل اس بار آنکھ بھر کر دیکھنے لائق تھی۔ مجھے سفید لباس پسند آیا۔ جنّت میں پہنوں گی ایسا سوٹ اِن شاء اللہ (دنیا میں پہننا تو درکنار، دوسری نگاہ ڈالنے کی بھی اجازت نہ ملے، ہاہاہا…) گلبدین حکمت یار کا انٹرویو سامنے ہے، مگر ایسا ہےکہ یہ اب آئوٹ ہوچُکے ہیں، تو مجھے اُن کے انٹرویو میں کچھ خاص دل چسپی محسوس نہ ہوئی۔ جو اِن ہیں، اُن کا لیتیں، تو بات تھی۔ ویسے مَیںنے پڑھا انٹرویو، یااللہ! جھوٹے منہ بھی پاکستان کا نام نہیں لیا، حالاں کہ ہم نے کتنا ساتھ دیا ہے اِن لوگوں کا۔ اور یہ فاروق اقدس کس کا تذکرہ لیے چلے آئے، ہدیٰ بے چاری تو 90 کو بھول ہی چُکی تھی، پہلے پڑھا نوّے … پھر نائنٹی… پھر کہیں جا کر نائن زیرو تک پہنچی، ہاہاہا… شامِ استنبول، براستہ تہران، ہائے میرے دل کے نہاں خانے میں بستے یہ دو شہر، دو مُلک ؎ کرشمہ دامنِ دل می کشد کہ جا اینجاست (اِن کی رعنائی میرے دامن دل کو کھینچتی ہے کہ دیکھنے کی جگہ یہیں ہے)۔ اور لکھاری بھی پاکستان کی سب سے باوقار خاتون، ڈاکٹر سمیحہ راحیل قاضی، واہ! یعنی چُپڑی اور وہ بھی دو دو، تھینک یو، مادام۔ ارے ہاں، ’’اِک رشتہ، اِک کہانی‘‘ میں بےچارے محمّد عبداللہ کے ساتھ ہاتھ ہوگیا (ہاہاہا…) مجھے اور ہدیٰ کو تو بہت ہنسی آئی (قریباً پانچ منٹ تک ہنستے رہے) ہدیٰ کہہ رہی ہے، میگزین والوں نے پاکستانیت دکھا ہی دی آخر۔ اگلے شمارے میں شاید کچھ اس طرح کا نوٹ ہوگا۔ ’’اوپر والی تحریر اور نیچے والا عنوان پڑھیں، اور نیچے دی گئی تحریر کا عنوان پڑھنے کے لیے اوپر دیکھیے کہ صفحے پر اوپر شایع شدہ تحریر محمّد عبداللہ کی اور نیچے شایع کی گئی تحریر ریحانہ بیگم کی ہے۔ شکریہ!‘‘ (ہاہاہا…) چلیے جناب، اپنی سال گرہ سے محض20دن اور ڈیڑھ گھنٹے پہلے لکھا گیا یہ نامہ اس فارسی مصرعے ؎ کہ گُل بدستِ تو از شاخ تازہ تر ماند (کہ تیرے ہاتھ میں پھول شاخ سے بھی زیادہ تروتازہ رہتا ہے) کے ساتھ آپ کے نام۔ (امامہ بنتِ محمّد اسلم ،صغیر کالونی،جھڈو)

ج:صفحہ ’’اِک رشتہ، اِک کہانی‘‘ میں ہونے والے بلنڈرکو تم نےتو ہنسی میں اُڑا دیا، لیکن اس کوتاہی پر صفحہ انچارج کو سخت سرزنش کی گئی ہے اور آئندہ کےلیے تنبیہ بھی۔ اُمید ہے، دوبارہ ایسی غلطی نہیں ہوگی۔ ویسے تمہارے خط کی سب سے خُوب صُورت بات، عُمدہ فارسی مصرعوں کا استعمال ہے۔ ہمیں ترجمے کےلیےانٹرنیٹ کا سہارا لیناپڑا، لیکن پڑھ کر خوشی ہوئی کہ آج کے دَورمیں بھی فارسی زبان کے چاہنے اور سمجھنے والے موجود ہیں۔

گوشہ برقی خطوط

* پلیز، پلیز فیصل وڑائچ کا بھی انٹرویو کروائیں۔ (مُنزل احمد ترک، کراچی)

ج: اب یہ فیصل وڑائچ کون ہیں.....؟؟ جاننے کے لیے سرچ کیا تو پتا چلا کہ ایک ہیومینیسٹ، فِری تِھنکر اور سٹیزن آف ارتھ ہیں۔ تو بھئی، ہم پہلے خود تو ذرا اِنھیں جان لیں، پھر انٹرویو بھی کروالیں گے۔

* کیا ہم اپنے کالمزآپ کی آئی ڈی پر شیئر کرسکتے ہیں؟ (رقیب، فیصل آباد)

ج: شیئر مطلب…؟ آپ اپنی طبع زاد تحریریں ہمیں سنڈے میگزین کی آئی ڈی پرضروربھیج سکتے ہیں، لیکن خدارا اِدھر اُدھر کی پوسٹس اِس آئی ڈی پر ہرگز شیئر نہ کریں۔

* میگزین کے تمام ہی سلسلے بہترین ہیں۔ سرچشمۂ ہدایت، حالات و واقعات، کہی اَن کہی، پیارا گھر، ڈائجسٹ، ناقابلِ فراموش، اِک رشتہ، اِک کہانی سب ہی شوق سے پڑھتی ہوں، خصوصاً عالمی ایّام کی مناسبت سے تیار کردہ جرائد کا تو کوئی جواب ہی نہیں ہوتا۔ (فوزیہ ناہید، لاہور)

* میرا تعلق اسلام آباد سے ہے۔ مَیں ایک نجی چینل سے بطور تجزیہ نگار وابستہ ہوں۔ میری خواہش ہے کہ مَیں جنگ، سنڈے میگزین کے لیے ہر اتوار کسی بھی ایک بڑی شخصیت کا انٹرویو کرکے بھیجوں۔ مَیں پہلے بھی کئی بڑی شخصیات کے انٹرویوز کرچُکا ہوں۔ (رانا عبدالرّب، اسلام آباد)

ج: جی نہیں، ایسا ممکن نہیں۔ ادارے کی پالیسی کے مطابق کسی آئوٹ سائیڈر کو قطعاً اجازت نہیں کہ وہ جنگ اخبار یا سنڈے میگزین کے نام پر کسی کا بھی انٹرویو کرے۔ خصوصاً کسی اور میڈیا گروپ سے وابستہ افراد کو تو بالکل بھی نہیں کہ یہاں پورا ایک سسٹم موجود ہے، جس کے تحت ادارے کے اسٹاف کو باقاعدہ انٹرویوز اسائن کیے جاتے ہیں اور پھر انٹرویو کرنےسے لےکر شایع ہونے تک بھی چیک اینڈ بیلنس کے کئی مراحل ہیں۔

* آپ سے پہلے بھی درخواست کی تھی کہ پارسیوں اور زرتشتیوں سے متعلق بھی کوئی معلوماتی تحریر شایع کریں۔ (سلمان محمّد رفیق)

ج: جی،کوشش کریں گے۔

قارئینِ کرام !

ہمارے ہر صفحے ، ہر سلسلے پر کھل کر اپنی رائے کا اظہار کیجیے۔ اس صفحے کو، جو آپ ہی کے خطوط سے مرصّع ہے، ’’ہائیڈ پارک‘‘ سمجھیے۔ جو دل میں آئے، جو کہنا چاہیں، جو سمجھ میں آئے۔ کسی جھجک، لاگ لپیٹ کے بغیر، ہمیں لکھ بھیجیے۔ ہم آپ کے تمام خیالات، تجاویز اور آراء کو بہت مقدّم ، بے حد اہم، جانتے ہوئے، ان کا بھرپور احترام کریں گے اور اُن ہی کی روشنی میں ’’سنڈے میگزین‘‘ کے بہتر سے بہتر معیار کے لیے مسلسل کوشاں رہیں گے۔ ہمارا پتا یہ ہے۔

نرجس ملک

ایڈیٹر ’’ سنڈے میگزین‘‘

روزنامہ جنگ ، آئی آئی چندریگر روڈ، کراچی

sundaymagazine@janggroup.com.pk

سنڈے میگزین سے مزید