صباحت منصور
یقین نہیں آرہا تھا کہ ہم جو مناظرٹی وی، رسائل یا کیلنڈرز کے صفحات میں دیکھتے آئے ہیں، ایک روز حقیقت بن کر ہمارے سامنے ہوں گے۔ ہم اپنی کُھلی آنکھوں سے وہ تمام دل کش مناظر دیکھ رہے تھے۔ الحمدللہ، ہماری پاک سرزمین، کرئہ ارض پر سب سے بہترین خطّۂ زمین ہے، جو شاعرِ مشرق، علّامہ اقبال کے خواب کی تعبیر، قائداعظم کی اَن تھک جدوجہد کا خوب صورت ثمر ہے۔
دل کش پاکستان کی سحر انگیز وادیوں میں کھو کر ہم یہ سوچ رہے تھے کہ اللہ رب العزت کی طرف سے ودیعت کردہ اِن خُوب صُورت مقامات سے اب تک ناآشنا کیوں رہے اور ملک کے بیش تر افرادبھی اب تک اِن دل کش مقامات سے لاعلم کیوں ہیں۔ اِس پُرفتن دَور میں جہاں شہروں میں حد درجہ کثافت کے ساتھ گُھٹن کا ماحول ہے، تو ضرورت اس امَر کی ہے کہ زیادہ سے زیادہ شہریوں، خصوصاً نئی نسل کو حسین وادیوں سے مزّین اور ماں کی آغوش کی مانند صاف ستھرے پاکستان سے متعارف کروایا جائے۔
چوں کہ سفر کام یابی کا ذریعہ تصوّر کیا جاتا ہے، لہٰذا اپنے وطن کی خُوب صُورت وادیوں کی سیّاحت کے قصد سے کراچی سے روانہ ہوئے اور بذریعہ ہوائی جہاز اپنے شوہر، سیّد معراج مقبول، داماد سیّد عاطف علی، چاروں بچّوں اور نواسے، نواسی پر مشتمل قافلے کے ساتھ اسلام آباد ائرپورٹ جا اترے اور پھر وہاں سے راول پنڈی جاپہنچے۔ راول پنڈی کے علاقے فیض آباد سے تمام چھوٹے بڑے شہروں کے لیے ہر قسم کی گاڑیاں بآسانی مل جاتی ہیں۔
ہم نے بھی یہیں سے ایک بڑی اور کشادہ وین کرائے پر حاصل کی، جو ہمیں گلگت سمیت شمالی علاقہ جات کے سفر میں مختلف دل کش و سحر انگیز مقامات میں خوب گھماتی اور چکراتی رہی۔ وین نے ڈیڑھ گھنٹے میں ملکۂ کوہسار مری پہنچادیا۔ برف باری کے دوران یہاں کی رونق عروج پر ہوتی ہے۔ ہم وہاں پہنچے، تو ہلکی ہلکی بارش ہورہی تھی، مال روڈ پر اترےتو سیزن ہونے کی وجہ سے کافی رش تھا، لہٰذا تھوڑی دیر چہل قدمی کے بعد ایوبیہ سے ہوتے ہوئے ایبٹ آبادکی جانب گام زن ہوگئے۔
ایبٹ آبادکے بالائی علاقے کے ایک خُوب صُورت مقام پر واقع میس پر ہمارے قیام کا خصوصی انتظام تھا، وہاں پہنچے، تو رات ہوچکی تھی، بھوک کی شدّت بڑھ رہی تھی اور دن بھر کی تھکن کی وجہ سے نیند بھی غالب تھی، لہٰذا کھانا کھاتے ہی بستروں پر دراز ہوگئے۔ علی الصباح بیدار ہوئے، تو تھکن کافی حد تک اُتر چکی تھی، کمرے سے باہر آئے، تو خُوب صُورت اور دل کش مناظر ہمارے سامنے تھے، کچھ دیر بعد بچّے بھی ہمارے پاس آکر ان پُرفضا مناظر سے لطف اندوز ہونے لگے۔
دیگر شمالی علاقوں کی طرح ایبٹ آبادکا شمار بھی انتہائی خوب صورت شہروں میں ہوتاہے۔ ہمیں چوں کہ ابھی اور آگے جانا اور کم وقت میں سفرکو یادگار بھی بنانا تھا،لہٰذا پُرتکلف ناشتے کے فوراً بعد ہی رختِ سفر باندھ لیا۔ ہوٹل سے باہر آئے، تو ڈرائیور وین سمیت ہمارا منتظر تھا۔ آج ہمارے سفر کا دوسرا دن تھا اور پروگرام کے مطابق شنکیاری، مانسہرہ، بالا کوٹ، ناران کاغان سے ہوتے ہوئے بابوسرٹاپ تک جانا تھا۔ وین کا ڈرائیور انتہائی مشّاق تھا، اس نے ایبٹ آباد سے محض بیس منٹ میں مانسہرہ اور پھر وہاں سے چندہی گھنٹوں میں کاغان کے پُرفضا مقام تک پہنچادیا۔
کچھ عرصہ پہلے تک یہ کافی دشوار گزارعلاقہ تھا، تاہم روڈ کی تعمیر کے بعد سڑک کے کنارے رہنے والے لوگوں میں کافی خوش حالی آگئی ہے۔ ہم جس ہوٹل میں ٹھہرے تھے، وہاں معروف اداکار شہروز سبزواری اور اُن کی اہلیہ صدف کنول بھی قیام پذیر تھے۔ اُن سے ملاقات ایک خوش گوار تجربہ رہا، دونوں ہی ملن سار طبیعت اور انتہائی تہذیب کے حامل لگے۔ کاغان سے ہماری اگلی منزل، بابو سر ٹاپ تھی، گاڑی میں بیٹھے، تو ہلکی ہلکی بارش شروع ہوگئی۔
ڈرائیور نے بتایا کہ ’’کاغان کے گھنے جنگلات میں جب برف پڑتی ہے، تو ہمالیائی تیتر، چکور اور سرخ ریچھ بالائی علاقوں سے نیچے گائوں تک آجاتے ہیں۔‘‘ راستے میں جگہ جگہ خوب صورت آب شاریں، جھیلیں اور جھرنیں اپنی چھب دکھلارہے تھے۔ آب شاروں کا صاف، شفّاف پانی سڑک تک آرہا تھا۔ گاڑی رکوا کر صحت بخش پانی پیا، تو روح تک سیراب ہوگئی۔
وین، بابو سر ٹاپ کی طرف رواں دواں تھی، سفر انتہائی خطرناک تھا۔ تاہم، راستے میں آنے والے دل کش و حسین نظاروں سے آنکھیں ٹھنڈی کرتے رہے۔ کئی گھنٹوں کے پُرخطر سفر کے بعد بابو سر ٹاپ پہنچے، تو گاڑی سے نکلنا مشکل ہوگیا، سانس لینے میں دشواری ہونے لگی۔ کراچی کے لحاظ سے شدید ترین سردی کا جو بھی سامان تھا، وہ سب اپنے اوپر لاد لیا، مگر پھر بھی سردی کم نہ ہوئی۔ خشک میوے ہینڈ بیگ میں رکھے تھے، سب کو مُٹھی بھر کھلادیے۔
اس کے بعد ہمّت کرکے سب اس مقام تک چلے گئے، جہاں دیوار پر بابو سر ٹاپ اور اس کے مختلف علاقوں کی معلومات درج تھیں، لیکن ’’جان ہے، تو جہان ہے‘‘ کے فارمولے پر عمل کرتے ہوئے گاڑی ہی میں بیٹھے گرم گرم چائے سے لطف اندوز ہوتے رہے۔ یہاں سے آگے ایک اور پُرفضا مقام ’’بونجی‘‘ کے نام سے مشہور ہے۔ بونجی پہنچے، تو رات ہوچکی تھی۔ اندھیری رات، دُور دُور تک کوئی آدم نہ آدم زاد۔ یہاں سیّاحوں کے ٹھہرنے کے لیے کوئی خاص انتظام نہیں، تاہم ایک ریسٹ ہائوس کا موجود ہونا غنیمت تھا، جہاں رات گزارنے کا فیصلہ کیا۔ ریسٹ ہائوس میں داخل ہوتے ہی بچّے سب کچھ بیچ باچ کر گہری نیند سوگئے۔
دل نے کہا، اتنا طویل راستہ طے کرکے کیا ہمیں اس ویرانے ہی میں آنا تھا۔ اندھیرے کی وجہ سے باہر جھانکنے کی بھی ہمّت نہیں ہورہی تھی۔ فجر کی اذان سے آنکھ کھل گئی۔ نماز کے بعد جیسے ہی پردہ سرکایا، گویا جنّت میں جھانک لیا۔ اتنی خُوب صُورت صبح کا تصور کبھی نہیں کیا تھا۔ فیروزی آسمان، تاحدِ نگاہ خُوب صُورت سبزہ، رنگ برنگے پھول، سب سے بڑھ کر ایک ساتھ تین پہاڑوں کا سنگم ہمالیہ، راکا پوشی اور نانگا پربت، جو برف کی چادر اوڑھے کھڑے تھے۔ منہ سے بے اختیار سبحان اللہ نکلا۔
پاکستان کس قدر حسین ہے، یہ سارے مناظر ہم نے اس سے قبل صرف کیلنڈر ہی میں دیکھے تھے۔ بچّوں کو جگایا، تو وہ بھی دل فریب مناظر دیکھ کر خوشی سے اچھلنے لگے۔ پہاڑوں کا دامن، حسین ترین وادیاں، طرح طرح کے خوب صورت پرندے، دل میں اترجانے والی خوشبوئوں کو چھوڑ کر واپسی کی راہ لینے لگے، تو یوں لگا، جیسے یہ پُرسکون ماحول ہمارا دامن پکڑ کر کہہ رہا ہو کہ ’’کہیں اور مت جائو، کچھ دن یہیں رکو، جی لو سادہ زندگی، بھاگ دوڑ، مال و دولت کی فکر کے بغیر۔ رُک جاؤ، مت جائو۔‘‘ لیکن مسافر بھلا کہیں رُکتے ہیں؟ آنکھیں چُرا کر، دامن چھڑا کر اپنی اگلی منزل ’’نلتر‘‘ کی جانب بڑھ گئے۔
نلتر، صوبہ گلگت بلتستان کا انتہائی خُوب صُورت علاقہ ہے۔ گلگت، بلتستان کو پاکستان کا زیور کہا جائے، تو غلط نہ ہوگا۔ 2009ء میں اسے صوبے کا درجہ دیا گیا۔ اس کی حسین وادیاں، سُریلی نغماتی، گنگناتی آب شاریں دیکھنے والوں کو مبہوت کردیتی ہیں۔ نلتر بالا کا فاصلہ گلگت سے 54کلو میٹر ہے اور یہاں پہنچنے کا واحد ذریعہ جیپ ہے۔ نلتر کے اس پُرخطر سفر میں، ہر لمحہ پہاڑ ساتھ ساتھ دوڑتے ہیں۔ پہاڑوں پر گول گول چکّر کھاتی سڑک کی دوسری جانب گہری کھائیاں دل دہلا دیتی ہیں۔ گلگت، بلتستان کے باشندے شُستہ اردو بولتے ہیں۔ یہ جان کر حیرت کے ساتھ خوشی بھی ہوئی کہ وہاں تعلیم کا تناسب 99 فی صد ہے۔
پہاڑی علاقوں کے پُرََخطر اور دشوار گزار راستوں پر کوئی عام ڈرائیور گاڑی نہیں چلا سکتا۔ یہاں آنے سے پہلے تک ہمارے میاں جی بار بار کہتے رہے کہ اپنی گاڑی میں آنا چاہیے، لیکن یہاں کے پُرپیچ راستے دیکھ کر سمجھ گئے کہ ڈرائیور کا ہوشیار، ماہر، مستعد ہونا اور راستوں سے واقفیت کس قدر ضروری ہے۔ لہراتی بل کھاتی سڑک، ایک دم سے ایسے گھوم جاتی کہ ہینڈل پکڑنے کے باوجود ہم سب ایک دوسرے کے اوپر گرجاتے۔ تب احساس ہوتا کہ لمبے اور طویل سفر انسان کو ایک دوسرے کے نزدیک بھی کرتے ہیں اور رشتوں کو مضبوط بھی کرتے ہیں۔
اِن دشوار گزار راستوں کے اختتام پر جنّت نظر نلتر کی وادی شروع ہوجاتی ہے۔ یہ علاقہ بے پناہ خُوب صُورتی اورقدرتی جھیلوں سے مالا مال ہے۔ تاحدِنگاہ ہریالی، اونچے اونچے درخت، چاروں جانب سر اٹھائے بلند پہاڑ پہرہ دیتے ہیں۔ یہاں گھوڑے، گائے، بکریاں، یاک اور مارخور سمیت مختلف قسم کے جانور بھی پائے جاتے ہیں۔ مارخور کا نشان تو گلگت کی ہر گاڑی پر چسپاں ہے۔ برف باری کے دنوں میں یہاں اسکینگ کے مقابلے بھی ہوتے ہیں۔ نلتر پر نصف گھنٹے کی مسافت پر بلیو لیک واقع ہے، جس کا پانی آسمانی رنگ کا ہے۔ ہم نے پورا آسمان جھیل میں اُترا دیکھا۔
آج نلتر میں دوسرا اور آخری دن تھا،لیکن منزل ابھی آگے تھی، دل بڑا اُداس تھا کہ پتا نہیں دوبارہ کب یہاں آئیں گے۔ جب ہم کسی مقامی باشندے کو بتاتے کہ کراچی سے آئے ہیں، تو وہ بہت خوش ہوتا۔ پہاڑوں کے دامن میں بنے اسکول میں بچّے صبح کی دھوپ میں بیٹھے، پڑھتے دکھائی دیئے۔ جگہ جگہ خواتین اجنبی ہونے کے باوجود سیّاحوں کو چائے پلانے یا کھانا کھلانے پر اصرار کرتی ہیں۔ پورے صوبے میں کوئی شور مچاتا رکشا نہیں۔ فقیر نہیں، فلیٹس نہیں، بے ایمانی نہیں۔
جگہ جگہ علاقے کو صاف ستھرا رکھنے کے لیے بورڈز آویزاں ہیں۔ نلتر سے آگے ہماری نئی منزل ہنزہ تھی۔ وہاں التت بلتت فورٹ بھی ہے، لیکن تھکن کے باعث وہاں جانے کا پروگرام موخر کرکے عطا آباد جھیل کے لیے روانہ ہوگئے۔ ماحول وہی پرانا کلفٹن والا۔ ساحل پر پرانی طرز کی دکانیں، جن میں سیپیوں سے بنے ہار بندے وغیرہ رکھے تھے۔ عطا آباد جھیل ایک حادثے کے باعث وجود میں آئی، جس میں تقریباً بیس افراد لقمۂ اجل بنے تھے اور پورا علاقہ جھیل میں تبدیل ہوگیا۔ عطا آباد جانے والا ٹنل، شاہ راہِ قراقرم کا حصّہ اور چینی ماہرین کی مہارت کا منہ بولتا ثبوت ہے۔ ابھی تک کے تجربے سے ہم یہی نتیجہ اخذ کرپائے تھے کہ جو چیز روشنی میں اچھی لگتی ہے، وہی تاریکی میں اچھی خاصی ڈراؤنی ہوجاتی ہے، لیکن یہاں الٹا ہوگیا۔
عصر کا وقت تھا، جب ٹنل میں داخل ہوئے، تو بالکل گھپ اندھیرا، لیکن واپس آئے، تو خوب جگ مگ کررہا تھا۔ یہی سڑک آگے جا کر سی پیک روڈ سے مل جاتا ہے۔ عطا آباد کے بعد ہماری اگلی منزل ’’راما لیک‘‘ تھی۔ رامالیک کی خاصیت لہلہاتے درخت، خُوب صُورت جھیل اور برف پوش پہاڑوں اور چوٹیوں کے دل کش نظارے ہیں۔ اس علاقے کی خُوب صُورتی کو صرف موسمِ گرما ہی میں انجوائے کیا جاسکتا ہے، کیوں کہ سال کے دس مہینے یہ علاقہ برف سے ڈھکا رہتا ہے۔ ایک زمانے میں پورا علاقہ سفیدے اور صنوبر کے درختوں سے مالا مال تھا، لیکن ٹمبر مافیا نے اس علاقے کے قدرتی حُسن کو بے حد نقصان پہنچایا، تاہم اب بھی اس علاقے کی قدرتی دل کشی برقرار ہے۔
رامالیک کی جانب سے آتی ٹھنڈی ہوائیں کسی کو بھی اپنا دیوانہ بنا سکتی ہیں۔ ابھی ہم اس پرفضا علاقے کی خوب صورتی ہی میں گم تھے کہ اچانک ڈرائیور کی آواز گونجی ’’یہاں سے گاڑی آگے نہیں جاسکے گی۔‘‘ خیر، جہاں تک گاڑی جاسکتی تھی، وہاں تک اس میں بیٹھ کر چلے گئے۔ اس کے بعد کا سفر پیدل یا پھر گھوڑوں پر کیا جاسکتا تھا۔ بچّے بڑے جوش میں تھے کہ پیدل چلتے ہیں، لیکن پہاڑ پرچڑھنا اتنا آسان نہیں ہوتا۔ خیر، ہانپتے کانپتے اوپر تک پہنچے، تو وہاں چائے کا ڈھابا دیکھ کر خوشی ہوئی۔ یہاں سے گرم گرم چائے پی کرایک اور خوب صورت مقام ’’رٹو‘‘ کی جانب چل پڑے، تھکن کافی ہوجانے کی وجہ سے راستہ بھی طویل تر محسوس ہونے لگا، لیکن رٹو آکر ہی نہ دے رہا تھا۔
بہرحال،کافی جدوجہد کے بعد آخرکار رٹوبھی آگیا، وہاں کچھ دیر قیام اور خوب صورت مناظر کو کیمرے میں قید کرنے کے بعد وادئ چلم کی جانب روانہ ہوگئے۔چلم ایک چھوٹی سی چیک پوسٹ ہے،جہاں شناخت کروانی ہوتی ہے۔اور اب تو کورونا ویکسینیشن کارڈ بھی دکھانا لازمی ہے۔یہاں سے آگے ’’منی مرگ‘‘ کا مقام آجاتاہے، منی مرگ جنت تو نہیں،لیکن جنت سے کچھ کم بھی نہیں،اس قدر قدرتی حُسن شاید ہی کسی اور خطہ زمین پر ہو۔یہاں کے دل فریب مناظر سے خُوب لُطف اٹھانے کے بعد دوبارہ چلم اور پھردیو سائی کا رخ کیا ۔دیوسائی ایک نیشنل پارک ہے، جہاں بھورے ریچھ بھی ہوتے ہیں۔
راستے میں بڑا پانی کالا پانی، سد پارہ لیک وغیرہ آئے، لیکن تشنگی پھر بھی باقی تھی، لیکن ایک عمر چاہیے،اس دشت کی سیّاحی میں، ہمارا دس روزہ ٹوراختتام پذیرہونے کو تھا،جیسے تیسے کرکے اسکردو پہنچے کہ شنگریلا جھیل ضرور دیکھنی ہے کہ اس دیومالائی حسن سے مالا مال جھیل کے بارے میں بہت کچھ سن رکھا تھا اور وہاں پہنچ کر تصدیق بھی ہوگئی کہ واقعی یہ زمین کی جنّت ہے۔
شنگریلا کو وادیِ بلیو مون بھی کہا جاتا ہے۔ شنگریلا ریزورٹ کی عمارت چینی طرز پر تعمیر کی گئی ہے، اس کے قریب ہی ایک کریش طیارہ کھڑا ہے،جسے ہوٹل بنادیا گیا ہے۔ بیچوں بیچ جھیل ہے، رات میں چاروں طرف سے لائٹس کا عکس پانی میں نظر آتا ہے، تو جھل مل کرتا منظر انتہائی دل کش لگتا ہے۔ اگرچہ اس مختصر سفر میں ہم بہت کچھ دیکھ چکے تھے، لیکن اب بھی بہت کچھ دیکھنا باقی تھا، لیکن بلند و بالا ہمالہ، پھولوں، تتلیوں اور جھیلوں پر مرمٹنے کے باوجود ان دل فریب قدرتی نظاروں کو بالآخر الوداع کہہ کر واپس آنا پڑا۔