• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

یونی وَرسٹیز اعلیٰ تعلیم و تحقیق کے لیے قائم کیے گئے ایسے ادارے ہوتی ہیں، جہاں اساتذہ اور طلبہ آزادی کے ساتھ معاشرے کو دَرپیش مسائل اور ان کے حل کے لیے طے شدہ تعلیمی نظم و ضبط کے مطابق علمی بحث مباحثے اور تحقیق و جستجو میں حصّہ لیتے ہیں اور یوں اساتذہ،طلبہ اور دیگرمعاون پیشہ ور افراد پر مشتمل ایک کمیونٹی تیار ہو جاتی ہے۔

جامعات کا تدریسی عمل بہتر طور پر بحال رکھنےاور دیگر تحقیقی سرگرمیو ںکے لیےعموماًریاست،نجی ادارے اور کبھی صاحبِ ثروت افراد فنڈز فراہم کرتے ہیں، تو انتظامی معاملات کی دیکھ بھال کے لیے پیشہ ورانہ تربیت کے حامل افراد کا تقرّر کیا جا تا ہے اور ایسے اصول و ضوابط ترتیب دئیے جاتے ہیں کہ تمام ضروری انتظامی فیصلے بلا کسی رکاوٹ خود کار طریقۂ کار کے مطابق انجام پائیںاور ظاہر ہے اس سلسلے میں ترجیحات کا تعیّن علمی ماحول اور تحقیق کو مدّ نظررکھ کر کیا جاتا ہے۔

یہاں یہ بات بھی اہم ہے کہ ہر یونی وَرسٹی اپنی تحقیق اور مخصوص طرزِ فکر کی بنیاد پر اپنا مخصوص تشخّص قائم کرتی ہے، جو قوانین کے ساتھ طویل علمی وتحقیقی جدّوجہد کے نتیجے میں وجود میں آتا ہے۔یاد رہے، ترقّی یافتہ ممالک میں تعلیم اور تعلیمی اداروں کے قیام پر ہونے والے اخراجات طویل المدّتی سرمایہ کاری کی مد میں شامل ہوتے ہیں، جب کہ اقوامِ متّحدہ کے ادارے، یونیسکو نے بھی رکن ممالک کو ہدایت کی ہے کہ وہ تعلیم پر ہونے والے اخراجات کو سرمایہ کاری ہی تصور کریں اور اس شعبے کے لیے کثیر رقم مختص کریں۔

دنیا بھر کی ریاستیں نوجوانوں کی صلاحیتوں کو جدید رجحانات اور تحقیق کی جانب راغب کرنے کے لیے یونی وَرسٹیز کے قیام پر زور دیتی اور تحقیقی کاموں کے لیے فنڈز فراہم کرتی ہیں۔ نیز،ترقّی یافتہ ممالک یونی وَرسٹیز میں سرمایہ کاری ہی کے ذریعے اپنی معیشت مستحکم کرتےاور نوجوانوں کی تخلیقی صلاحیتوں کو تعلیم و تحقیق کے ذریعے مفید بناتے ہیں۔ ایک محتاط اندازے کے مطابق ہر سال امریکی یونی وَرسٹیز اور کالجز میں دس لاکھ سے زائد غیر مُلکی طلبہ داخلہ لیتے ہیں، جس کے نتیجے میں37 بلین امریکی ڈالرز کا زرِ مبادلہ حاصل کیا جاتا ہے اور 4,50,000 سے زائد ملازمتیں تخلیق ہوتی ہیں۔ خیال رہے،یہ رقم پاکستان کے دفاعی اخراجات سے قریباً تین گُنا زیادہ ہے۔

ماہرینِ معاشیات اس بات سے اتفاق کرتے ہیں کہ اعلیٰ تعلیم و تحقیق اور یونی وَرسٹیزکی تعمیر و ترقّی میں کی جانے والی سرمایہ کاری سے نہ صرف معیشت،بلکہ طویل اور قلیل مدّتی معاشی اشارے بھی بہتر ہوتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ امریکا، برطانیہ، چِین، کینیڈا، آسٹریلیا، فرانس، روس، جرمنی، جاپان اور اسپین جیسے ممالک اعلیٰ تعلیم و تحقیق پر زیادہ وسائل صرف کرتے ہیں۔

ترقّی یافتہ ممالک نے یونی وَرسٹیز میں تحقیق کو اپنا شعار بنا کر خود کو دنیا بھر میں منوایا ہے۔وہاںانسانوں کو دَرپیش مسائل اور مستقبل کے امکانات پرنِت نئے زاویوں سے پوری آزادی سے تحقیق کی جاتی ہے، جس کے نتائج تحقیقی جریدوں اور اس کے بعد میڈیا کے ذریعے لوگوں تک پہنچتے ہیں۔ اس طرح تحقیق اور تجربات کی روشنی میں سماج میں مثبت تبدیلی کی راہیں ہم وار ہونے کے ساتھ توہمّات اورغیر سائنسی رویوں کی حوصلہ شکنی اور معاشرے کو درپیش مسائل کی نشان دہی ہوتی ہے۔

اگر وطنِ عزیز کی بات کی جائے،تو یہاں قائم یونی ورسٹیز میں اوّل توتعلیم و تحقیق پر زور ہی نہیں دیا جاتا، نہ محقّقین کی حوصلہ افزائی کی جاتی ہے،دوم فنڈز کی فراہمی بھی آڑے آجاتی ہے۔ نیز، سرکاری یونی وَرسٹیز کو غیر موثر قوانین، غیر فعال انتظامیہ اورپیشہ ورانہ تربیت کی عدم فراہمی جیسے مسائل بھی درپیش ہیں، تو تخلیقی و تحریری سرگرمیوں کے لیے ضروری فکری آزادی اور مراعات بھی دست یاب نہیں، جس کے نتیجے میں سرکاری اور نجی یونی وَرسٹیز بحیثیتِ مجموعی،نہ تو پاکستانی سماج کی فکری و نظریاتی رہ نمائی کرتی نظر آتی ہیں،نہ ہی مُلک کی اشرافیہ اپنے بچّوں کی اعلیٰ تعلیم کے لیے ان یونی وَرسٹیز کا انتخاب کر تی ہے۔

ہاں، مڈل کلاس اور پس ماندہ طبقات سے تعلق رکھنے والے بچّے سرکاری جامعات کا انتخاب ضرور کرتے ہیں کہ یہاں فیسوں کی شرح نجی یونی وَرسٹیز کے مقابلے میں کم ہوتی ہے۔اس تناظر میں دیکھا جائے،تو وفاقی اُردو یونی وَرسٹی اپنے مشن اور ضرورت کے اعتبار سے ایک مثالی ادارہ ثابت ہو سکتی ہےکہ اردو زبان میں تعلیم و تحقیق کے فروغ کے لیے طویل جدّوجہد نہ صرف تاریخِ پاکستان کا ایک حصّہ ہے،بلکہ پاکستان میں حقیقی ترقّی اور سماجی بہتری کے لیے انتہائی ضروری بھی ہے۔یوں بھی اجتماعی طور پر لوگوں میں سائنسی طرزِ فکر کو فروغ دینے، قومی شعور اجاگر کرنے،مذہبی جنون کومثبت سماجی رویوں میں ڈھالنے اور ارتقا کے عمل کو لوگوں کے شعور کا حصّہ بنانے میں مادری زبانوں میں تعلیم کا کردار مرکزی حیثیت رکھتا ہے۔

دَورِ حاضر کے موضوعات کو اردو زبان میں فراہم کرنے کے لیے ایک جامع اور مربوط پراجیکٹ کی ضرورت ہے اور وفاقی اردو یونی وَرسٹی یقینی طور پر اسی منزل کی جانب ایک سنگِ میل ثابت ہو سکتی تھی،لیکن…’’ماڈل یونی وَرسٹی ایکٹ‘‘ جیسے امتیازی قانون کی موجودگی میں یونی وَرسٹی کو بحرانی کیفیت کا سامنا ہے۔ یہ ایکٹ اس قسم کی یونی وَرسٹی کے لیےایک نامناسب قانونی فریم ورک ہے۔ یونی وَرسٹی کے بااختیار عُہدےداروں میں چانسلر (صدرِ مملکت)،پرو چانسلر (وفاقی وزیرِ تعلیم)،ڈپٹی چیئرمین، سینیٹ (یونی وَرسٹی سینیٹ کا سربراہ)اور وائس چانسلر کا شمار ہوتا ہے۔

مگر یاد رہے، پاکستان کی کسی اور یونی وَرسٹی میں ڈپٹی چیئر مین سینیٹ کا عُہدہ موجود نہیں ۔یہی وجہ ہے کہ یونی ورسٹی میں اپنے قیام سے لے کر آج تک قریباً دو دہائیوں میں، صرف ایک وائس چانسلر نے اپنی قانونی مدّت مکمل کی ہے،جب کہ 15سے زائد وائس چانسلرز، نگران اور قائم مقام وائس چانسلرز نے اپنی مدّت مکمل کیے بغیر مختصر دورانیے کے لیے کام کیا۔یہاں تک کہ یونی وَرسٹی کی تاریخ میں ایک ایسے ڈپٹی چیئر مین سینیٹ بھی گزرےہیں، جواساتذہ اور یونی وَرسٹی ملازمین سے براہِ راست تعلقات قائم کرکےاور وائس چانسلرز پر دباؤ ڈال کر اپنےلیے مراعات حاصل کرتے رہے۔ 

ایک ڈپٹی چیئر مین سینیٹ نے توچند ساتھی اراکینِ سینیٹ کو ساتھ ملا کر نہ صرف یونی وَرسٹی کے قائم مقام وائس چانسلر کو برطرف کر دیا، بلکہ خود کو یونی وَرسٹی کا نگران بنا کر قائم مقام وائس چانسلر کے تمام اختیارات بھی حاصل کر لیے۔ان حالات میں کسی بھی وائس چانسلر کے لیے یونی وَرسٹی میں قوانین کی بالادستی برقرار رکھنااور اساتذہ ،ملازمین کے درمیان پیشہ ورانہ نظم و ضبط قائم رکھنا عملی طور پر ناممکن ہو جاتا ہے۔ دوسری طرف یونی وَرسٹی کے آئین میں موجود خامیوں کا فائدہ اٹھاتے ہوئے ایک موقعے پر ایک وائس چانسلر نے سینیٹ کا اجلاس طلب کرنے سے انکار کر دیا تھا، پھرچانسلر دفتر کی براہِ راست مداخلت سے معاملہ حل کیا جا سکا ۔

ماڈل یونی وَرسٹی ایکٹ کی دوسری بڑی خامی یونی وَرسٹی میں نام زد کنندہ کمیٹی کا قیام ہے۔ اس کمیٹی کے ذریعے یونی وَرسٹی کے تمام اداروں میں اساتذہ کی براہِ راست نمایندگی ختم کر دی گئی ہے، جس میں 5دیگرا رکان کی موجودگی میں 2اساتذہ انتخاب کے ذریعے شامل ہوتے ہیں اور پھر سینیٹ، سینڈیکیٹ، اکیڈمک کاؤنسل اور دیگر اہم اداروں میں اساتذہ کی تقرریاںکی جاتی ہیں ۔ ظاہر ہے اس عمل سے اساتذہ کے درمیان غیر ضروری سیاست پروان چڑھتی ہے۔

مثال کے طور پر اس وقت تک یونی وَرسٹی کے تین کیمپسز (اسلام آباد، عبدالحق اور گلشن اقبال کیمپس) ہیں، لیکن یونی وَرسٹی سینیٹ میں صرف دو اساتذہ کو شامل رکھاجاتا ہے ، جب کہ اسلام آباد کیمپس کو یونی وَرسٹی سینیٹ میں کبھی نمایندگی دی ہی نہیں گئی ،جس کی وجہ سےمذکورہ کیمپس میں احساسِ محرومی پا یا جاتا ہے۔ 

دوسری جانب، وائس چانسلر کے تقرر کے لیے بھی انتہائی پیچیدہ اور نامناسب طریقہ ٔکار رائج ہے ، جب کہ قائم مقام وائس چانسلر کا تو عُہدہ نہیں رکھاگیا۔چوں کہ اس موقعے پر یونی وَرسٹی سینیٹ کو لامحدود اختیار حاصل ہو تے ہیں، تویہی وجہ ہے کہ وفاقی اردویونی وَرسٹی کی تاریخ میں وائس چانسلر زکی نشست پر ہر طرح کے تجربات ہوئے۔ نیز،یونی ورسٹی آئین میں وائس چانسلر سرچ کمیٹی کے سربراہ کے لیے کسی بھی قسم کی اہلیت درج ہی نہیں۔ اسی لیے یہ اہم کام بھی یونی وَرسٹی کے مشن اور مستقبل کے بجائے،مَن پسند منتظمین کے تجربات کی نذر ہوجاتا ہے۔

موجودہ سرچ کمیٹی میں آئین کے مطابق سات ارکان شامل کیے گئے تھے ،جن میں سے صرف تین یونی وَرسٹی سطح کا تعلیمی تجربہ رکھتے تھے ۔ سرچ کمیٹی میں شامل ایک استاد نے یونی وَرسٹی سینیٹ کو لکھے گئے ایک خط میں سرچ کمیٹی کے سربراہ اور دیگر ارکان کے رویے پر تنقید کرتے ہوئے لکھا کہ’’ ان کی جانب سے تحریر کیے گئے 9سے زائد اختلافی نوٹ کمیٹی کی کارروائی کا حصّہ بنائے گئے ، نہ سر چ کے عمل میں اساتذہ کی رائے کو اہمیت دی گئی۔‘‘

وفاقی اردو یونی وَرسٹی، کراچی میں قائم دو قدیم تعلیمی اداروں کو ترقّی دے کر 2002ء میں قائم کی گئی تھی اور اس کا مرکزی دفتر اسلام آباد میں مقرر کیا گیا تھا۔ لیکن کراچی کی علم دوست شخصیات کا ہمیشہ سے یہ مطالبہ رہا ہے کہ یونی وَرسٹی کے مرکزی اور انتظامی دفاتر کو اسلا م آباد منتقل نہ کیا جائے۔ماڈل یونی وَرسٹی ایکٹ کی صورت میں یونی وَرسٹی اپنے قیام سے لے کر آج تک انتظامی بحران کا شکار ہے۔ 19برسوں میں ڈائریکٹوریٹ کا قیام عمل میں نہیں لایا گیا، کبھی مستقل رجسٹرار تعینات نہیں ہوا۔

موجودہ قائم مقام رجسٹرار بھی ٹینیورڈ ٹریک پر ہونے کے باوجود گزشتہ کئی برس سے اسی عہدے پر کام کر رہے ہیں اور ہمیشہ تنازعات اور الزامات کی زَد میں رہتے ہیں۔ یہاں تک کہ گزشتہ ایک دہائی میں کانووکیشن تک کا انعقاد تک نہیں ہوسکا ۔ وفاقی اردو یونیورسٹی کے سینیٹ اور سینڈیکیٹ کی کار گزاری اور قریباً دو دہائیوں پر مشتمل ماضی کے احوال سے معلوم ہوتا ہے کہ یہاں تعلیم و تحقیق کے فروغ اور خاص طور پر اردو زبان کی ترویج کے لیےدُور رس اقدامات نہیں کیے گئے۔

مثا ل کے طور پراساتذہ کو اردوزبان میں کتب یا تحقیقی پرچے تحریر کرنے کے لیے کسی بھی قسم کی مراعات فراہم نہیں کی جاتیں۔ کوئی کتاب تحریر کرنے، ترجمہ کرنے یا تحقیقی پرچہ اردو میں تحریر کرنے کے بعد اس کی اشاعت کے لیے کوئی طریقہ کاروضع نہیں ہے۔ اردو یونی ورسٹی کی سینڈیکیٹ میں ایک مرتبہ علمی سرقہ کے خاتمے کے لیےایک ’’مرکز ِتحقیق ‘‘قائم کرنے کی بھی سفارش کی گئی تھی، لیکن سینڈیکیٹ اور سینیٹ میں موجود کچھ بااثر شخصیات کی مرکزکے لیے فنڈکی مخالفت پر کام رُک گیا۔

پھر موجودہ چانسلر اور صدرِ پاکستان نے علمی حلقوں میں شہرت رکھنے والی شخصیت، ڈاکٹر سید جعفراحمدکی قیادت میں ایک کمیٹی قائم کی ، جس کا کام یونی وَرسٹی کے آئین میں موجود خامیوں کی نشان دَہی اور ان کے حل کے لیے سفارشات مرتّب کرنا تھا۔ لیکن یونی ورسٹی سینیٹ میں شامل اسٹیٹس کو کے حمایت یافتہ اور تعلیمی امور سے نا آشنا چند ارکان نے کمیٹی کی سفارشات سینیٹ کے ایجنڈے میں پیش ہی نہیں ہونے دیں،دریں اثنا،ڈاکٹر سید جعفر احمد کی سینیٹ میں رکن کی معیاد مکمل ہو گئی اور ان سفارشات پر بحث کا آغاز بھی نہ ہوسکا۔

یونی وَرسٹی ایک طویل عرصے سے انتظامی ، معاشی اور تعلیمی بحران کا شکارہے۔ گزشتہ کئی برس سے اساتذہ صحت کی مد میں ملنے والی سہولتوں سے محروم ہیں،جب کہ تحقیقی اُمورکے لیے بھی فنڈز دست یاب نہیں۔ حیرت کا مقام ہے کہ اس وقت وفاقی اردو یونی ورسٹی کے کسی بھی شعبے میں کوئی بھی تحقیقی جرنل خرید کر حاصل نہیں کیا جا رہا اور ہائر ایجوکیشن کمیشن کی ڈیجیٹیل لائبریری تک رسائی بھی صرف چند اساتذہ تک محدود ہے۔ 

گزشتہ 10برس سےمسلسل اساتذہ ریٹائر ہو رہے ہیں، لیکن متعد د شعبوں میں کوئی مستقل استاد موجود نہیں۔ 13,500 طلبہ اور 30سے زائد شعبہ جات میں تعلیمی اور تحقیقی اسنا د جاری کرنے والی وفاقی یونی وَرسٹی میں پروفیسرز کی تعداد محض 5باقی رہ گئی ہے۔ حالاں کہ وفاقی اردو یونی وَرسٹی اپنے مشن اور فرائض کے اعتبار سے نہ صرف ایک قومی ادارہ ، بلکہ قومی ضرورت بھی ہے۔ لہٰذا ضرورت اس امر کی ہے کہ اس کے اغراض ومقاصد اورمشن سامنے رکھتے ہوئے اس کی بہتری اور فلاح و بہبود کے لیے مسلسل کام کیا جائے اور طلبہ کو معیاری تعلیم کی فراہمی یقینی بنائی جائےکہ اگر انتظامیہ اب بھی نہ جاگی، تو طلبہ کو اسناد تو ملتی رہیں گی، مگرعلمیت و قابلیت کا فقدان ایک بحران کی شکل اختیار کرجائے گا۔ (مضمون نگاروفاقی اردو یونی وَرسٹی میں سینیٹ کے رکن ہیں)